آئین میں پندر ویں ترمیم کا نیا شو شہ …جسٹس (ر)منظورحسین گیلانی

سوشل میڈیا سے پتہ چلا ہے کہ وزیر حکومت خواجہ فارق احمد نے آئین میں ترمیم کا پندرہواں بل اسمبلی میں پیش کردیا ہے لیکن یہ وہ بل نہیں جو متنازعہ تھا اور گمنام حلقوں سے گشت کرتا ہوں آزاد کشمیر پہنچ گیا -یہ بل آئین کی ان دفعات کی ترمیم سے متعلق ہے جس کے تحت آزاد کشمیر کے بلدیاتی اداروں کے الیکشن کا اختیار آزاد کشمیر الیکشن کمیشن کو آئین کی تیرویں ترمیم کے تحت دیا گیا تھا –
آئین اور قوانین میں ترمیم ارتقائ پراسس کا حصہ ہے یہ جاری رہتا ہے اور رہے گا – آزاد کشمیر کے آئین میں اس وقت تک تیراں ترامیم ہو چکی ہیں -پاکستان کے آئین میں شائید سینتیس اور ہندوستان کی آئین میں ایک سو سات – قوانین میں ترمیم حالات کے تبدیل ہونے یا نئی وجوہات پیدا ہونے عوامی یا ریاستی مفاد میں کی جاتی ہیں- الیکشن کرانا دنیا بھر میں الیکشن کمیشنر کا کام ہوتا ہے کیونکہ یہ ایک آئینی ادارہ ہوتا ہے جس کے ممبران کو آئینی تحفظ حاصل ہوتا ہے – اس کے چئیرمین کی تقرری وزیر اعظم پاکستان کی ایڈوائس پر کی جاتی ہے – اس کے پاس ٹرینڈ مشینری، ووٹر فہرستیں ہوتی ہیں اور یہ حکومت کے اثر و نفوظ سے بالاتر ہوتا ہے –
مجوزہ ترمیمی بل میں یہ اختیار اس ادارے سے لیکر بلدیات الیکشن کے لئے آئین کے تحت ہی الگ الیکشن کمیشن مقرر کیا جارہا ہے جس کے سربراہ اور ایک ممبر کی تقرری کا اختیار حکومت آزاد کشمیر کو حاصل ہوگا – یہ ادارہ وزیر اعظم کی ایڈوائس پر ادارے میں ملازمین کی تعیناتی اور تقرری کے قواعد بنا سکے گا – یہ عملی طور ایک بلمقابل الیکشن کمیشن ہوگا- جو کام الیکشن کمیشن نے کرنے ہوتے ہیں وہی کام یہ بھی کرے گا لیکن ایک حکومتی مشینری کے طور اور عملی طور حکومت مشینری کا حصہ ہوگا –
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ترمیم کی ضرورت کیوں پیش آئ جب قومی سلیکشن کمیشن نے اعلی عدلیہ کے احکامات کے مطابق بلدیاتی الیکشن کرانے کی ساری تیاریاں مکمل کر کے اس کا شیڈول بھی جاری کردیا تھا – حکومتی پارٹی سمیت آزاد کشمیر کی تمام پارلیمانی اور چند بڑی سیاسی جماعتوں نے ایکا کیا ہے کہ بلدیاتی الیکشن نہیین ہونے دینے کیونکہ اس صورت میں دیہی سطح پر تعمیر وترقی کے سارے کام بلدیاتی اداروں کو منتقل ہو جائیگے – ممبران اسمبلی تعمیر و ترقی کے نام پر حکومت سے جو فنڈ لیتے ہیں وہ بلدیاتی اداروں کے زریعہ خرچ ہونگے اور ممبران اسمبلی کا ان کاموں میں کوئ عمل دخل نہیں ہوگا – یہ لوگ عام لوگوں پر ان فنڈس کی آڑ میں کوئ اثر وردوں نہیں رکھ سکیں گے – یہ کام دیہات یا وارڈ کے لوگوں کی نگرانی میں ہونگے – اس طرح اسمبلی کے ممبران، وزیر ، وزیر اعظم اور ان کے اتحادی بلدیاتی کونسلوں کے محتاج ہو جائینگے جو ان کو گوارہ نہیں – حکومت نے بلدیاتی الیکشن نہ کرانے یا ان کو التوا میں رکھنے کے لئے الیکشن کمیشن پر بھر پور دباؤ ڈالا جس کو قبول کرنا اس کے بس میں نہ تھا کیونکہ یہ کام سپریم کورٹ کے حکم کے تحت ہورہا تھا – سپریم کورٹ پر بھی اثر انداز ہونے کی بھر پور کوشش کی گئ جو کا گر ثابت نہ ہوئ آخر میں سیاسی جماعتوں / اسمبلی کے زریعہ ایک مشترکہ قرار داد کے زریعہ الیکشن ملتوی کرانے کی کوشش کی گئ اور اس سلسلے میں سب سیاسی جماعتوں نے سپریم کورٹ سے مشترکہ طور رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ، جس کی ایک کڑی وزیر قانون کے چیف جسٹس آزاد کشمیر کو سیاسی جماعتوں کے سیکریٹری جنرل بلانے کا مشورہ دیا گیا جس کا سہریم کورٹ نے برا منا کر وزیر قانون کو نوٹس بھی جاری کیا لیکن میں اس بحث میں نہیں جاؤں گا – اب حکومت نے آخری وار کے طور قومی الیکشن کمیشن سے یہ کام واپس کر کے عملی طور حکومت کے زیر اھتمام لینے کے لئے متوازی الیکشن کمیشن قائم کرنے کے لئے آئین میں پندرہویں ترمیم پیش کی ہے جس سے عدالتی احکامات پر بلواسطہ اور قومی الیکشن کمیشن پر براہ راست عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے – اس سلسلے میں کروڑوں روپے کے اخراجات ، الیکشن کمیشن اور حکومتی مشینری کی ساری سعی دریا برد کردی –
مجوزہ ترمیم متوازی الیکشن کمیشن، ایک ہی کام کے لئے دو ادارے قائم کر کے overlappingپیدا کرنے ، ایک ہی کام کے لئے دو بار کروڑوں روپے کے اضافی اخراجات، کرنے ، آئین کے بنیادی ڈھانچے کو بدلنے ، جمہوری اختیارات کو بنیادی سطح تک پہنچانے میں رکاوٹ ، بلدیاتی اداروں کو مضبوط کرنے کی آئینی ہدایت کی نفی ہے –
قومی الیکشن کمیشن کے ہوتے ہوئے اس طرح کے متوازی ادارے کے قیام کی وجہ حکومت کی اکثریت کی آمریت قائمُ کرنے ، اپنی انا کی تسکین کرنے اور ضرورت سوائے بلدیاتی انتخابات نہ کرانے ، حکومت کی زیر اثر بلدیاتی ادارہ قائم کرنے ، اعلی عدالتوں کے فیصلہ جات کو بے اثر کرنے ، اس ادارے میں حکومت کے من پسند افراد کی بھرتی کرنے کے علاوہ نہ کوئ قومی مقصد ہے ، نہ مصلحت، نہ ضرورت –
ممکن ہے یہ اصل پنُدرویں کی طرف پہلا قدم ہو –

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں