آبادی کا عالمی دن اور ہماری ترجیحات۔۔۔از عابد صدیق

ہر سال کی طرح اس سال بھی آزاد کشمیر سمیت پاکستان اور دنیا بھر میں آبادی کا عالمی دن منایاگیا۔اس دن کی مناسبت سے ممکن ہے آزاد کشمیریا پاکستان میں تقریبات نہ ہوئی ہوں یا کم ہو ئی ہوں لیکن یہ دن ہر سال گیارہ جولائی کو منایا جاتا ہے۔”عالمی یوم آبادی“ اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے کی تجویز پر 1989ء سے منا یا جاتا ہے۔مذکورہ ادارے نے 1987 میں اس دن کے منانے کی اہمیت سے آگاہ کیا تھا جس پر عمل دو سال بعد ہوا۔اس دن کے منانے کا مقصد جہاں برق رفتاری سے بڑھتی آبادی پر کنٹرول کرنے کے طریقے متعارف کروانے تھے وہاں بڑھتی آبادی کے مسائل سے متعلق شعور کو بیدار کرنے اور ان سے نمٹنے کے لیے پیشگی منصوبہ بندی کرنے سمیت اس مقصد کے لیے فنڈز مختص کرنا شامل تھا تاکہ آبادی کے بڑھنے سے جو مسائل پیدا ہوں گے ان کے لیے وسائل مہیا ہو سکیں۔
”وکیپیڈیا“ کے مطابق ممتاز ماہر معاشیا ت ٹامس مالتھس نے 1798 میں آبادی سے متعلق ایک نظریہ پیش کیا تھا جس کے مطابق آبادی ہمیشہ جیومیٹرک فارمولے سے بڑھتی ہے جیسے 32,16,8,4,2,1 اور وسائل میں اضافہ آرتھمیٹک حساب 7,6,5,4,3,2,1 سے ہوتا ہے۔یوں اس نظریہ کے مطابق جو کہ اب سچ ثابت ہو رہا ہے، آبادی میں اضافہ ہمیشہ وسائل پر بوجھ ثابت ہوتا ہے۔دنیا بھر میں بے شمار مسائل آبادی سے جڑے ہوئے ہیں جن میں خوراک،تعلیم، انفراسٹرکیچر اور بیماریوں سے نمٹنا سر فہرست ہیں۔
پاکستان کی موجودہ وقت آبادی بائیس کروڑ پچانوے لاکھ کے قریب ہے۔پاکستان کی مجموعی آبادی کا تقریباً بائیس فیصد افراد غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی بسر کر رہے ہیں جبکہ ورلڈ بنک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں مجموعی طور پر 38 فیصد افراد غربت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ عالمی آبادی موجودہ وقت 7.96 بلین کے قریب ہے جن میں سے 1.8 افراد کی تعداد اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کی ہے۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے جہاں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے۔رپورٹ کے مطابق پاکستان کی مجموعی آبادی کا 63 فیصد 15 سے33 سال کی عمر کے شہری ہیں۔2017 کی مردم شماری کے مطابق بھی ملک میں پندرہ سال سے کم عمر افراد کی تعداد40 فیصد ہے۔ ماہر معاشیا ت ٹامس مالتھس کے فارمولے کے مطابق پاکستان کے قیام کے بعد بھی اگر وقتاً فوقتاً ہونے والی مردم شماری کا جائزہ لیا جائے تو یہ درست ثابت ہو رہا ہے۔
آزاد کشمیر میں ابھی تک حکومتی سطح پر آبادی کو گننے کا کوئی نظام موجود نہیں اور شاید اس کی ضرورت کسی نے اس لیے بھی محسوس نہیں کی کہ مالی سال کا بجٹ جس نے دینا ہو وہی اعداد و شمار بھی اگھٹے کر لے تو زیادہ بہتر ہے۔یوں پاکستان کے ادارہ شماریات کی 2017 کی مردم شماری کے مطابق آزاد کشمیر کی آبادی چالیس لاکھ سے زائد ہے۔دس اضلاع ہیں،وسائل لامحدود ہیں لیکن ان کے استعمال کا طریقہ کار یا تو اب تک ہماری سمجھ میں آیا نہیں یا پھر ہمیں سمجھنے ہی نہیں دیا گیا۔پاکستان کے ساتھ تقابلی جائزہ اس لیے ضروری ہے کہ فی الوقت ہمارا بجٹ پاکستان کے مرہوں منت ہی ہے۔پاکستان کے چار صوبوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو ہماری پاس ان سے زیادہ وسائل ہیں اور ہمارا لٹریسی ریٹ بھی زیادہ ہے۔ہاں تعلیمی میعار ممکن ہے اس طرح کا نہ ہو جو ہونا چائیے لیکن کم از کم بنیادی تعلیم سے آشنائی ضرور ہے خاص کر خواتین میں تعلیم حاصل کرنے کا جنون زیادہ ہے۔وسائل کی بات کی جائے تو صرف ”پانی“ اور ”سیاحت“ دو ایسے قدرتی تحفے ہمارے پاس ہیں کہ ان کا استعمال کرنے کا ڈھنگ آجاتا تو یہ خطہ آج مالا مال ہوتا،ہمیں کسی سے بجٹ کی مانگ کرنے کی بجائے اپنا بجٹ خود بنانے کے قابل ہوتے،مگر بوجوہ ایسا نہ ہو سکا اور اس ساری کوتائی کی ذمہ دار وہ سیاسی جماعتیں ہیں جو گذشتہ 74 سالوں سے اقتدار میں رہی ہیں یا پھر وہ جماعتیں یا ”گروہ“جو ”دلکش“ نعروں سے نوجوانوں کو مصنوعی خواب دکھاتی تو رہی ہیں لیکن انہیں حقیقی سمت کی طرف گامزن نہ کر سکیں۔ہم وسائل کی تلاش میں اس وقت مارے مارے پھر رہے ہیں جب وسائل پر قابض کوئی اور ہے،چیزیں ہاتھ سے نکل چکی ہیں۔پاکستان کی 2017 کی مردم شماری کو تسلیم کر لیا جائے تو 63 فیصد کشمیری نوجوانوں جو 33 سال سے کم عمرہیں کے مستقبل کے لیے پہلے کچھ کیا گیا نہ اب حکومتی سطح پر کوئی امید ہے۔یہ واحد خطہ ہے کہ جہاں ترقیاتی بجٹ کو خرچ کرنے کے لیے دگنا سے زیادہ غیر ترقیاتی بجٹ مختص کرنا پڑتا ہے۔ ہمیں بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ ترقی یعنی آگے بڑھنے کے نئے مواقع تلاش کرنے ہوں گے۔بعض پرانے قوانین بدلنے ہوں گے،غیرترقیاتی اخراجا ت کم کرنے ہوں گے،سرکاری نوکریوں کی حوصلہ شکنی کرنی ہو گی اور نوجوانوں کو کاروبار اور جدید ٹیکنالوجی سے مستفید ہونے کے مواقع مہیا کرنے ہوں گے۔آزاد کشمیر کی جامعا ت سے کلرک پیدا کرنے کی بجائے ہنر مند پیدا ہوں گے تو تب ہی بڑھتی آبادی کے مسائل کا مقابلہ کیا جا سکے گا ورنہ آنے والے وقتوں میں جرائم میں اضافہ ہو گا،ادارے اپنے اہمیت کھو دیں گے اور ”سوشل میڈیا“ کا ہتھیار بے قابو ہو جائے گا۔بڑے چھوٹے کی کوئی تمیز نہیں رہے گی اور یہ مشکل ممکن ہے ہمارے لیے سہنی مشکل ہو۔ہمیں سری لنکا سے ضرور سبق سیکھنا ہو گا۔ مستقبل کی صف بندی کرنی ہو گی،نوجوان نسل کو ہنر مند بنانے اور جدید ٹیکنالوجی سے روشناس کروانے کے لیے نئے تربیتی مراکز اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا جال بجھانا ہو گا،دو،دو ہزار ”بھیک“ دینے کے بجائے انہیں اپنے پاوں پر کھڑا کرنا ہو گا۔اس کے لیے کسی سائنس کی ضرورت نہیں بس ایک ”احساس“ کی ضرورت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں