آذادکشمیر میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ۔۔۔۔تجاویز و اقدامات ..از۔۔۔افضل ضیائی

اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران وفاقی وزراء محترمہ مریم اورنگ زیب اور جناب قمر زمان قائرہ سے ایک صحافی بھائی نے سوال کیا کہ آذادکشمیر میں ہر روز 14،15 گھنٹے لوڈ شیڈنگ کی جا رھی ھے، آزادکشمیر کی کل ضرورت تقریبا” 350 میگاواٹ ھے اور بجلی یہاں سے وافر پیدا ھونے کے باوجود اتنی زیادہ لوڈ شیڈنگ کیوں کی جا رھی ھے؟
محترم مریم اورنگ زیب سے کیا گیا سوال جناب قمر زمان کائرہ صاحب نے بڑی سرعت سے اچک لیا اور کوئی باتشفی جواب دینے کی بجائے کہا کہ آزادکشمیر والوں کا اپنا ڈسٹریبیوشن نیٹ ورک ھے وہ ھم سے بلک(bulk)میں سپلائی لیتے ھیں ان کی کوٹے کے مطابق لوڈشیڈنگ ھوتی ھے۔جواب دیتے ھی وزراء اٹھ کے چلے گئے۔
جناب کائرہ صاحب کا جواب مسکت نہ تھا۔ گزارش یہ ھے کہ ڈسٹریبیوشن نیٹ ورک اگرچہ برقیات آزادکشمیر کا ہی ہے لیکن آزادکشمیر بھر میں تمام گرڈ اسٹیشنز واپڈہ کے کنٹرول میں ھیں۔ لوڈ شیڈنگ کا شیڈول مرکزی سطح پہ واپڈا بناتا ہے اور اسے اپنے گرڈاسٹیشنز کے ذریعے لاگو کرتا ہے۔اس لوڈ شیڈنگ میں برقیات آذادکشمیر کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔یہ لوڈ شیڈنگ اعلانیہ بھی ھوتی ھے اور غیر اعلانیہ بھی۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ آزادکشمیر سے ہزاروں میگاواٹ بجلی کی پیداوار نیشنل گرڈ میں شامل ہو رہی ہے۔ آزادکشمیر آئینی طور پہ پاکستان کا حصہ بھی نہیں، اگرہزاروں میگا واٹ میں سے محض 350 میگاواٹ آزادکشمیر کے عوام کو دے کر انہیں لوڈشیڈنگ کے عزاب سے نجات دلا دی جائے تو کونسی قیامت آ جائے گی۔اھل کشمیر کی دو قربانیاں ھی کافی ھیں ایک تو لائن آف کنٹرول سے گزشتہ75 سالوں سے پیاروں کی لاشیں اٹھا رھے ھیں دوسرے بیرون ملک رھنے والے تارکین وطن کشمیری اربوں کا زرمبادلہ ملکی خزانے میں جمع کروا رھے ھیں لیکن وہ جب بھی فیملیز سمیت ایک facilitated country سے اپنے وطن آتے ھیں تو انہیں بجلی جیسی بنیادی سہولت نہیں ملتی تو وہ روتے کرلاتے اور آزادکشمیر و پاکستان کی حکومتوں کو کوستے واپس چلے جاتے ھیں اس وجہ سے بھی تارکین وطن کشمیریوں اور انکی نئی نسل کا اپنی دھرتی سے لنک کمزورہوتا جا رہا ہے۔
جہاں تک کوٹہ کی بات ھے اصولی طور پہ واپڈاہ کو کوٹہ مقرر کرتے ہوئے محکمہ برقیات آزادکشمیر کو اعتماد میں لینا چاھیئے اور بتانا چاہیئے کہ پاکستان بھر میں ٹوٹل کتنا شارٹ فال ہے کل کتنا لوڈ شیڈ کیا جانا درکار ہے اور اس میں آزادکشمیر کے لیے کتنا کو ٹہ بنتا ہے،؟ کس فارمولہ کے تحت یہ calculate کیا گیا ھے؟ اس کے بعد یہ کوٹہ محکمہ برقیات آذادکشمیر کو دے کر اسے یہ اختیار دیا جائے کہ وہ اس کو اپنے مقامی حالات،ترجیحات اور ضروریات کے مطابق لاگو کرے۔
لوڈ شیڈنگ اپنے اندر کء مقاصد رکھتی ھے اس کا ایک مقصد برقی نظام کی reliabilty اور سیفٹی کو بڑھانا ھوتا ھے کہیں پہ لوکل نیٹ ورک کو اوورلوڈنگ اور وولٹیج ڈراپ کے مسائل کو نبٹانے کے لیئے سسٹم کو عارضی ریلیف دیتے ہوئے الیکٹریکل سرکٹس کو مقامی طور پہ آپریٹ کرنا ہوتا ہے۔
سپلائی میں کمی کی وجہ سے بحران جب بڑھ جائے تو سپلائرز(واپڈا،برقیات) کو good and bad صارف کی تخصیص کرتے ھوئے سپلائی کا بندوبست کرنا ھوتا ھے یہ تخصیص اس میرٹ کی بنیاد پہ کی جاتی ہے کہ جن علاقوں میں بجلی کے نقصان کی شرح سب سے کم اور بلات باقاعدگی سے جمع کروانے کی شرح سب سے زیادہ ہوگی وہاں بجلی کی سہولت ہمہ وقت دینے کی پلاننگ کی جائے گی۔اس کی بہتر مثال قبائلی علاقے یا وہ علاقے ھیں جہاں محمکہ (واپڈا،برقیات) کی عملداری کم ھے۔ اسی طرح لوکل فیڈرز میں سے ان فیڈرز کو زیادہ stable سپلائی کی ضرورت ھوتی ھے جن پہ انسانی خدمت کے ادارے ازقسم ہسپتال، تعلیمی ادارے وغیرہ ذیادہ ہوتے ھیں.کہیں پہ لائنوں کی مرمتی لوڈ شیڈنگ کے وقفے کے دوران کرتے ہوئے intruption of supply کا دورانیہ کم سیکم رکھنا ہوتا ہے۔یہ سارے مقاصد تب ھی پورے ہو سکتے ھیں جب لوڈ شیڈنگ کا کوٹہ محکمہ برقیات کو دیتے ھوئے اسے مقامی ضروریات کے مطابق از خود لوڈ شیڈنگ شیڈول مرتب کرنے کا اختیار دیا جائے۔
اس وقت واپڈا کے چرب زبان بیورو کریٹ آذادکشمیر کو اسلام آباد سے نوآبادیاتی کالونی کی طرز پہ کنٹرول کر رہے ہیں۔ اب اندازہ کریں کہ اسلام آباد مرکز میں بیٹھا گریڈ سترہ کا شفٹ انجنیئر۔۔۔جسے وائسرائے کہنا زیادہ مناسب ہے،۔۔۔ آذادکشمیر میں گرڈ اسٹیشن کے گریڈ گیارہ یا اس سے بھی کم سطح کے انچارج SSO/ASO اھلکار کے زریعئے جب چاھے کسی علاقے کی بجلی بند کر کے بیٹھ جائے۔ مقامی ضروریات کے تحت برقیاتی افسران اس سے جب بھی بجلی کی کسی ھنگامی صورتحال میں بحالی کے لیئے کہتے ھیں تو وہ معمولی اہلکار کوئی عذر قبول نہیں کرتا اور کہتا ھے کہ آپ اسلام آباد والوں سے بات کریں۔
اسی معاملہ سے جڑی ھوئی ایک قباحت اور بھی ھے کہ اختیارات کی اس مرکزیت کی وجہ سے محکمہ برقیات کے اھلکاران کو واپڈاہ گرڈ اسٹاف کو باقاعدگی سے بھتہ دینے کے لیئے بلیک میل کیا جاتا ھے۔
جس کی وجہ سے برقیاتی عملہ مالی طور پہ زیر بار ہوتا۔ اس مسلہ کا سب سے زیادہ دردناک پہلو یہ ہیکہ برقی نظام کے اس dual control میکانزم کی وجہ سے لائنوں پہ کام کرنے والے برقیاتی اھلکاران کے آئے روز جان لیوا حادثات ہو رہے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ سارا آزادکشمیر اب گریڈ گیارہ کے اھلکار کے رحم و کرم پر ھے۔اس ساری صورت حال کا نتیجہ یہ ھے کہ ایک طرف آذاد کشمیر کے عوام عذاب برداشت کر رھے ھیں اور دوسری طرف کشمیریوں کے دل میں اسلام آباد کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے۔

اختیارات کا یہ نشہ، آزادکشمیر کے گرڈز کا ۔۔۔کنٹرول محکمہ برقیات آزادکشمیر کو منتقل کرنے میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔سوال یہ ہے کہ اس مسلے کا جامع حل کیا ہے۔؟ تو اس کا جواب یہ ھے کہ حکومت آزادکشمیر کو حکومت پاکستان سے مطالبہ کرنا چاھیئے کہ
1-محکمہ برقیات آزادکشمیر میں چیف انجنیر گرڈز کی سربراھی میں شعبہ قائم ھو چکا ھے لہزا واپڈا اب آزادکشمیر کے گرڈز کا انتظام و انصرام محکمہ برقیات کے حوالے کرے۔

2- آزادکشمیر میں اس وقت بجلی پیدا کرنے کے منصوبے تعمیر کرنے والی مقامی یا بین الاقوامی کمپنیاں اس معاھدے کے تحت کام کررہی ہیں کہ وہ ان منصوبوں سے 25،30 سال تک استفادہ کریں گیں اور اس کے بعد یہ منصوبے آزادکشمیر حکومت کی ملکیت میں دے دیئے جائینگے۔ اسی نظیر کو follow کرتے ھوئے اب حکومت پاکستان کو منگلاڈیم جسے تعمیر ھوئے 30 سال کی بجائے 53 سال ھونے کو ہیں،کو اب حکومت آذادکشمیر کی تحویل میں دے دینا چاھیئے۔تاکہ آزادکشمیر کے قدرتی وسائل سے اھل کشمیر اپنی قومی امنگوں کے مطابق مستفید ھو سکیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں