ایس او ایس ویلیج اور ہماری ذمہ داریاں …پروفیسر عائشہ یوسف

مخلوق کا خالق سے ، عبد کا معبود سے ، ساجد کا مسجود سے رشتے کا تقاضا کیا ہے ؟ کیا خدا کے پاس ملائکہ کی جماعتیں کم پڑ گئی تھیں جو انسان کو بھی اپنی عبادت کا پابند بنا دیا ؟ کیا یہ عبادتیں محض ایک ورزش ہیں ؟ یا بادی النظر میں ان کے وسیع تر مقاصد اور فائدے بھی ہیں؟ کیا ہماری عبادات کے پس منظر میں صرف اور صرف جنت و جہنم کا نظریہ کارفرما ہے ؟ جس کی وجہ سے غالب جیسا نابغہ بھی یہ کہنے پہ مجبور ہو جاتا ہے :
طاعت میں تا رہے نہ مئے و انگبیں کی لاگ
دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو
رابعہ بصری رحمت اللہ علیہ بھی اسی واسطے آگ اور پانی لیے جنت کو جلانے اور دوزخ کو بجھانے چلی تھیں ۔۔۔۔
کیا ہی اچھا ہو کہ ہم بآسانی اس بات کو سمجھ لیں کہ عبادات محض بندگی سکھلانے کے لیے تھیں اس کے بعد کے سارے معاملات بندگی نبھانے کے ہیں ۔ عبادات تو معاملات کی تربیت کا وسیلہ بنی ہیں ۔ اگر ان کو ویسے ادا کیا جائے جیسا کہ حق ہے تو ضرور ہے کہ دل قدرے نرم پڑ جائے اور کون جانے کہ کب ؛ خاک کے پہلو میں چھپا شرر محبت پھوٹ بہے اور اپنے ساتھ تمام تنفر ، عناد اور خود غرضی کو بہا لے جائے ۔ اس کے بعد انسانیت کے جو اعلی’ ترین خال و خط ابھریں گے تو کہیں عبدالستار ایدھی اور کہیں مدر ٹریسا کا ہیولہ تیار ہو گا ۔
ایس او ایس ویلیج SAVE OUR SOULS کے منشور کے تحت دنیا بھر میں یتیم بچوں کی کفالت کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ستر کی دہائی سے پاکستان کے کئی شہروں میں اپنے ادارے شروع کر چکی ہے ۔ چند برس قبل اس پرائیویٹ تنظیم نے مظفرآباد اور پھر راولاکوٹ کے گاؤں چک دھمنی میں بھی ایس او ایس ویلیج کے نام سے یتیم اور بے سہارا بچوں کی ایک دنیا آباد کر رکھی ہے جو یہاں گزشتہ پانچ برسوں سے یتیموں کی کفالت اور تعلیم و تربیت کے لیے کمر بستہ ہے ۔ جہاں یتیم بچوں کے ساتھ ساتھ دیگر بچے بھی زیور تعلیم سے آراستہ ہو ریے ہیں ۔ یہاں گھر ، ماں ، بہن بھائی اور معاشرے کا تصور واضح کرنے کے لیے ایک صحت مند و سازگار ماحول و فضا تیار کر کے بہتر سے بہتر نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ یہاں سے تربیت پا کر نکلنے والے بہترین انسان معاشرے کے لیے سود مند ثابت ہوں ۔ یہ ادارہ کسی بھی طرح عطیہ خداوندی سے کم نہیں ہے جو بہ قول شاہزیب شبیر خان مقامی لوگوں کی ذاتی محنت کے بغیر ، زیرو سرمایہ کاری پر ، تعمیر شدہ عمارت ، تربیت یافتہ افراد و دیگر سہولیات سمیت ایک مکمل ادارہ ہمیں طشتری میں رکھ کر پیش کیا گیا ہے ۔ اس کی مزید بہتری کے لیے ہماری کوششیں سونے پہ سہاگہ ہوں گی ۔
اس اِدارے کی اہمیت اس وقت دوچند ہو جاتی ہے جب قرآن مجید فرقان حمید کے احکامات سے پتا چلتا ہے کہ یتامی’ کی کفالت وہ فرض کفایہ ہے جو چند لوگوں کے ادا کر دینے سے سب کی طرف سے ادا ہو جاتا ہے ، ورنہ سب کے سب گناہ گار ٹھہرتے ہیں ۔ یوں کہا جائے کہ ہماری عاقبت سنوارنے کا اہتمام بھی کسی اور کے ہاتھوں ہوتا ہے تو بجا ہو گا ۔
بچے ہمارے جو گھروں کی روشنی ، مستقبل کی امید اور ہماری تمام تر منصوبہ سازی کا محور و مرکز ہوتے ہیں ۔ جو کبھی مطالبہ کر کے اور کبھی بغیر کہے بھی ہم سے سو سو طرح کے ناز نخرے اٹھواتے ہیں ۔ کہانیاں اور لوریاں سنے بغیر سوتے بھی نہیں :
ایک ہاتھی ایک راجا ایک رانی کے بغیر
نیند بچوں کو نہیں آتی کہانی کے بغیر
مگر ایسا کیا ہے کہ یہی بچے جب کسی بھی سانحے کے نتیجے میں بے آسرا ہو کر یتیم خانے میں پہنچتے ہیں تو نہ صرف خود مجسم سوال بن جاتے ہیں بل کہ ہم سب کے لیے کڑی آزمائش بھی ہوتے ہیں ۔۔۔۔
یہ معصوم ساری زندگی کسی ناکردہ گناہ کی سزا بھوگتے ہیں ۔ یہ وہی مساکین ہیں جن کا چہرہ سوال مگر زبانیں بے سوال ہوتی ہیں ۔ یہ وہ نازک پھول ہیں جو ڈال سے ٹوٹ چکے ہیں ۔ ان کے پھول سے چہرے کسی چمن کی مہکار ہوتے ، ان کی ننھی کلکاریاں و بے فکر قہقہے کسی آنگن کو گل و گلزار کرتے مگر ایسا نہ ہو سکا ۔۔۔۔ جو ہوا سو ہوا ۔۔۔۔ کڑے وقت کی دھوپ انہیں کمہلا سکتی ہے تو ہماری توجہ ، پیار ، مناسب پرورش و پرداخت انہیں فعال اور کار آمد شہری بھی بنا سکتی ہے ۔ جو ملکی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کر سکیں ۔
یہاں پلنے والا ایک ایک بچہ کئی کئی حادثات کی الم ناک داستان ہے ۔ ایک ایک صورت کئی کئی کہانیاں کہہ سناتی ہے کہ کہانی سننے کے شائق کب اور کیسے خود ایک کہانی بن گئے کوئی نہیں جانتا ۔
انہیں دیکھتے ہی لپک جھپک ایک خیال ذہن میں آتا ہے کہ ہم اس قدر مہذب ہو چلے ہیں کہ اہل فرنگ کی نقالی میں انہی کی طرز پر ہمارے گھروں میں کتے اور بلیوں کے بچے جگہ پانے لگے ہیں ۔ ہمارے گھروں میں ان کی خوراک اور صحت کی سہولیات کا بھی خوب خوب انتظام ہو گیا ہے ، مگر انسان کے بچوں کے لیے ، ان کے قریبی رشتوں کے پاس اور نہ ہی ہمارے گھروں میں ان کے لیے کوئی جگہ بن سکی ہے ۔۔۔۔ آخر کیوں ؟؟؟؟؟ ہمارے جیسی مخلوق کی نگہداری ہم پہ گراں کیوں ہے اس قدر ؟؟؟؟
ہم رحم کے جذبے سے مکمل طور پہ عاری ہو چکے یا روحانی اعتبار سے بنجر و قلاش ۔۔۔۔ کہ ہمیں ہماری مضمحل روح کی چیخیں سنائی دیتی ہیں ، نا ہی تمسخر اڑاتے فلک شگاف قہقہے ۔۔۔۔۔۔ کیا سچ مچ ہماری بصارتیں بے نور اور سماعتیں سلب ہو چکی ہیں ؟ کیا ہم اپنی ہی ذات کے قلعے میں محصور ہو چکے ہیں ؟
12 اپریل کی شام نو منتخب کونسلر آفتاب عارف کی طرف سے ادارے میں ان ننھے منے پھولوں کے ہمراہ افطار ڈنر کا اہتمام کیا گیا ۔ جس میں راولاکوٹ کے اعلٰی عہدے داران ، میڈیا اور سول سوسائٹی کو خاص طور پر مدعو کیا گیا تھا ۔ ننھے فرشتوں کی قربت نے جہاں عہد حاضر کے مصروف انسان کا سوفٹ وئیر UPDATE کیا وہیں یہ سن کر ہمیں کم سے کم ہزار وولٹ کا جھٹکا ضرور لگا کہ اس افطار پارٹی میں شامل افراد کو پہلی بار اس ادارے اور اس کے مکینوں کے بارے میں علم ہوا تھا ۔ یہی تو اس تقریب کا کم سے کم مقصد بھی تھا کہ اہل علاقہ کو ادارے کی طرف متوجہ کیا جائے ۔ کیا طرفہ تماشا ہے کہ جہاں اک طرف دنیا و مافیہا سے یکسر انجان ذہنوں میں یہ سوال کلبلاتے رہتے ہیں کہ “کیا اس خار دار باڑ کے اس پرے بھی کوئی دنیا آباد ہے ؟؟؟” وہیں باڑ کے اس پار جہاندیدہ لوگ بھی اندر کی دنیا سے اتنے ہی بے خبر اور ناواقف رہتے ہیں ۔۔۔۔۔ آخر یہ بے خبری کیسی ہے ؟؟؟؟ اس کا تشفی آمیز جواب شاید کسی کے پاس نہیں ہے مگر یہ وہ المیہ ہے ۔ جو کئی سوالات کو جنم دیتا ہے ۔ ہم وعظ و نصیحت اور دین داری کی باتوں میں دوسروں کو پچھاڑنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے مگر عمل کی بنیاد کہاں رکھتے ہیں ۔۔۔۔ ؟ ہمارے وعظ و نصیحت سے کسی بھوکے کی بھوک مٹ سکے گی ؟ جسے چاند بھی روٹی نظر آتا ہے ۔۔۔۔۔۔ یہ ہمیں سوچنا ہے ۔۔۔۔!!!
واعظ نہ تم پیو نہ کسی کو پلا سکو …….کیا بات ہے تمہاری شراب طہور کی
ظہیر گردیزی صاحب مخیر حضرات کو ادارے کی مالی معاونت کی دعوت دیتے ہیں ۔ تاکہ دوسرے ضلعوں میں بھی اس طرز پہ مزید اداروں کی حوصلہ افزائی ممکن ہو سکے ۔ مزید برآں وہ مقامی آبادی سے استدعا کرتے ہیں کہ اپنے بچوں کو دور بھیجنے کی بجائے اس ادارے میں داخل کروائیں ، جس سے ایک طرف وہ کم سے کم اخراجات میں بہترین تعلیم حاصل کریں گے تو دوسری طرف ان کی فیس سے ادارے کی مالی مدد ہوتی رہے گی ۔ ایس او ایس کی پرنسپل علاقے کے لوگوں سے تعاون چاہتی ہیں کہ بھلے ہی ادارے کا قیام غیروں کی امداد سے ممکن ہوا ہو مگر یہاں موجود بچے تو ہمارے اپنے ہی ہیں ۔ شجر سے ٹوٹے ہوئے یہ پتے مناسب دیکھ ریکھ سے معاشرے کے ذمہ دار شہری بن سکتے ہیں ۔
کوئی مبلغ دین۔۔۔ کوئی منصف ۔۔۔۔ کوئی قانون دان ۔۔۔ ایسے کاموں کی رغبت کون دلا سکتا ہے ۔۔۔۔۔ ؟؟؟
بلیھا کیہ جاناں میں کون ؟؟؟؟

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں