بلدیاتی اداروں کا قضئیہ دوبارہ سپریم کورٹ میں،۔۔جسٹس (ر) منظور حسین گیلانی

سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق آزاد کشمیر الیکشن کمیشن کے بلدیاتی الیکشن کا شیڈول جاری ہونے کے بعد ، حکومت نے پارلیمانی جماعتوں کے دباؤ پر الیکشن نہ کرانے کی ٹھان لی جس کےلئے بلدیاتی الیکشنز کو الیکشن کمیشن آزاد کشمیر کے دائرہ اختیار سے نکال کر اس کے کئے ایک متوازی الیکشن کمیشن بنانے کے لئے اسمبلی میں آئین کی ترمیم کا بل بھی پیش کردیا گیا ہے –
اس کی خلاف عوامی رد عمل کو بھانپتے ہوئے حکومت نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے ووٹر لسٹوں میں بڑے پیمانے پہ غلطیاں ، حلقہ بندیوں کے خلاف عوامی تحفظات اور ان کے خلاف عدالتوں میں مقدمات زیر سماعت ہیں جس وجہ سے الیکشن کا ہونا ممکن نہیں ہوگا- مجھے یہ درخواست پڑھنے کا موقعہ بھی ملا اور خوشی ہوئ کہ حکومت نے جذبات سے نہیں عقلمندی اور آئینی رویئہ سے کام لیا –
مجھے سپریم کورٹ کا وہ فیصلہ پڑھنے کا موقعہ بھی ملا ہے جس کے تحت الیکشن کمیشن کی حلقہ بندیوں کی بنیاد پر الیکشن کرانے کا حکم دیا ہے – یہ حلقہ بندیاں حکومت کی انتظامی مشینری نے الیکشن کمیشن کے لئے تیار کی ہیں – انتخاب الیکشن کمیشن کے زیر اھتمام ہوتے ہیں لیکن اس میں ریاست کے ساری سرکاری مشینری اور عوام کا ہر طبقہ سٹیک ہو لڈر ہوتا ہے – یہ محض مکینکل عمل نہیں ہے – اسی لئے حلقہ بندیاں انتظامی مشینری بناتی ہے جس کی نوک پلک الیکشن اتھارٹی درست کرتی ہے – اس معاملہ میں بھی سپریم کورٹ نے اس ہی انتظامی سکیم کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے الیکشن اکتوبر کے اندر اندر مکمل کرنے کا حکم دیا ہے جس کی پابندی کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے حکومت کی منظوری سے مقرر کردہ تاریخوں کے اندر انتخابی شیڈول جاری کیا ہے –
الیکشن کمیشن کے الیکشن کرانے کے لئے مستعدی دیکھ کر سیاسی اور پارلیمانی جماعتوں نے مختلف حیلوں بہانوں سے الیکشن کے التوا کی دہائ دینا شروع کی جس میں حکومتی پارٹی برابر کی شریک ہے – اس جذبہ جنوں میں وزیر اعظم ، قاعد حزب اختلاف ، پیپلز پارٹی کے پارلیمانی پارٹی کے دوسری پارلیمانی جماعتوں کے سر براہوں کی تقریریں اور اخباری بیان پڑھنے کا موقعہ بھی ملا اور ان کا لب لباب یہ ہے کہ “ حلقہ بندیاں اور ووٹر لسٹیں صیح نہیں بنی ہیں جس وجہ سے انتخاب آزادانہ اور منصفانہ نہیں ہو سکتا جس میں تصادم اور قتل و غارت ناگزیر ہے – “
وزیر اعظم نے پر جوش تقریر میں اسمبلی کےایوان کی بالا دستی اور قانون سازی کے حق پر اصرار کیا اور سب اداروں کو اس کے احترام کرنے کی تنبیہ بھی کی – ساتھ ہی عدلیہ کے لئے کہا کہ اگر کہیں ابہام ہو تو وہ بھی ہم سے وضاحت لے سکتے ہیں –
اسمبلی کا قومی پارلیمان اور ریاست کا سب سے بڑا قانون ساز ادارہ ہونے میں کوئ شک نہیں ، لیکن بالا دستی ہمیشہ آئین کی ہوتی ہے کسی اور ادارے کی نہیں ہوتی – اس کے مسلمہ حدود اور روح کے مطابق بنائے گئے قانون اور آئین کے بنیادی ڈھانچے کے مطابق آئینی ترامیم کی بھی وہی حیثیت ہوتی ہے جیسے آئین کی ہوتی ہے – کیا کوئ قانون آئین کے مغائر ہے یا آئینی ترمیم آئین کے بنیادی ڈھانچے کے مغائر ہے کا فیصلہ آئینی عدالتوں نے ہی کرنا ہوتا ہے پارلیمان نے نہیین ۔ یہ ریاستی ڈھانچے کی حئیت ترکیبی ہے کسی حکمران یا پارلیمان کی رائے یا قرار داد کے زریعہ نہیں ہو سکتا – میرے خیال میں وزیر اعظم صاحب کے کہنے کا مطلب بھی یہی ہو سکتا ہے اور ہونا بھی ایسا ہی چاھئے –
کسی بھی قانون کو آئین کے مغائر ہونے یا آئینی ترمیم آئینی ڈھانچے سے متصادم ہونے کی بناء پر اعلی عدالتیں ان کو کالعدم قرار دے سکتی ہیں – ہندوستان اور پاکستان کی آئینی عدالتوں نے کئ آئینی ترامیم کو آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہونے کی وجہ سے کالعدم قرار دیا ہے- ان کو تحفظ دینے والی دفعہ بھی ایسی ترمیم کو تحفظ دے سکتی ہے جو آئینی ڈھانچے کے مطابق ہے ، مادر پدر پدر آزاد نہیں –
آزاد کشمیر کے آئین کا بنیادی ڈھانچہ پارلیمانی نظام ، مقتدر قانون سازیئہ ، اعلی عدلیہ ، الیکشن کمیشن ، ریاست کی آزادی اور اس کا پاکستان سے الحاق ہے پر مبنی ہے – ان کے مغائر ، متبادل یا متوازی کوئ بھی نظام آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہے –

جہاں تک ووٹر لسٹوں میں غلطیوں اور حلقہ بندیوں کے غلط یا بے ڈھنگے ہونے کا سوال ہے اس میں سب سے زیادہ متاثرہ لوگ عوام اور عوامی لیڈر ہوتے ہیں جو فوری طور عام آدمی کی دسترس میں ہوتے ہیں – کوئ بھی الیکشن اس وقت تک Fair, free , honest & independent نہیں کہا جا سکتا جب تک ووٹر لسٹیں صاف ، شفاف اور صیح اندراجات پر مبنی نہ ہوں ، حلقہ بندی اور پولنگ سکیم عام ووٹروں کی دسترس ، پہنچ اور اس کے مسلمہ گاؤں گوٹھ سے متصل نہ ہو – اس کی حتمی زمہ داری تو الیکشن کمیشن پر عائد ہوتی ہے لیکن بنیادی زمہ داری اس انتظامی مشینری کی ہے جس کو الیکشن کمیشن نے اس پر مامور کیا ہوتا ہے اور یہ مشینری عمومی طور ریئو نئیو ڈسٹرکٹ کے حکام پر مشتمل ہوتی ہے جس کو علاقوں کے جغرافیائی حدود ، پولنگ سٹیشن تک بہ آسانی پہنچنے اور ووٹ ڈالنے اور نظم و نسق کو بحال رکھنے کی الیکشن کمیشن اور عدلیہ کے مقابلے میں حتمی علم ہوتا ہے – اسی پر الیکشن کمیشن نے بھی اعتبار کیا ہے اور اسی کو سپریم کورٹ نے بھی منظور کیا ہے جس کی بناء پر الیکشن شیڈول جاری ہوا ہے –
◦ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو ہو گیا وہ ہو گیا – اگر کچھ غلط اور اتنا غلط ہوا ہے کہ اس کی موجودگی میں صاف، شفاف ، آزادانہ اور منصفانہ الیکشن ممکن نہیں اس کو ٹھیک کرنا بھی ان ہی اداروں کی زمہ داری ہے – سپریم کورٹ کا فیصلہ الیکشن کمیشن کی حد تک تو یقینآ فائنل ہے لیکن سپریم کورٹ کے لئے فائنل نہیں اگر اس کی نوٹس میں ایسی سنگین بے ضابطگیاں لائ جائئیں جو الیکشن کے بنیادی مقصد ہی کے خلاف ہوں ، مجھے نہیں لگتا عدالت ان کو نظر انداز کرے کیونکہ یہ معاملہ سارے سسٹم ، ریاست اور عوام کو متاثر کرتا ہے صرف دو فریقین کا مسئلہ نہیں – یہ عوامی اہمیت کا انتظامی مسئلہ ہے جو انتظامی پیچیدگیوں کا ادراک کرکے الیکشن کمیشن انتظامیہ کی مدد اور تعاون سے حل کر سکتا ہے لیکن اس کے راستے میں وہ عدالتی فیصلہ حائل ہے جس کی تعمیل میں الیکشن کمیشن آگے بڑھ رہا ہے – سپریم کورٹ سے توقع ہے کہ وہ بھی اس کو ان انتخابات کی اہمیت ، لوگوں کی شمولیت ، اس میں انتظامیہ کے کردار اور زمینی حقائق کا ادراک کرے گی –
◦ تاہم اس کے لئے سیاسی اور پارلیمانی جماعتوں کو اخباری بیان بازی کے زریعہ نہیں ٹھوس حقائق کے ساتھ ہر انتخابی حلقے میں ہونے والی ووٹر فہرستوں اور حلقہ بندیوں میں غلطیوں اور ایسی انتظامی پیچیدگیوں کی تحریری نشاندہی سپریم کورٹ کے سامنے رکھنا پڑے گی جس کی روشنی میں سپریم کورٹ کو الیکشن کمیشن کو الیکشن شیڈول معطل کر کے ان کے حل کے لئے ہدایت کرنے کے لئے جواز پیدا ہو – لیکن اس عمل کے لئے بھی مدت کا تعین ضروری ہے تاکہ یہ عمومی تاثر غلط ثابت ہو کہ سیاسی جماعتیں مخلص نہیں اور نہ ہی سپریم کورٹ یا الیکشن کمیشن پر الیکشن کے التوا کا الزام آئے –
◦ اس کے ساتھ حکومت کو بھی پابند کیا جائے کہ وہ لوکل گورنمنٹ سے متعلقہ قوانین اور قواعد کو بھی اسمبلی سے ترمیم کر اکے اسے زمانے کی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق بنائے تاکہ دیہی سطح پر مقامی حکو متوں کا نظام مربوط اور مظبوط خطوط پر استوار ہو – لوکل گورنمنٹ سے متعلق ساری زمہ داریاں اور اختیارات جو حکومت ادا کر رہی ہے وہ مقامی حکومتوں کو منتقل کرے اور ان اداروں کی بلاوجہ تحلیل یا معطل کرنے کے حکومتی اختیار کو کسی غیر جانبدار ادارے کی منظوری سے مشروط کرے –
مجھے ابھی ابھی ایک صحافی نے فون پہ بتایا کہ حکومت نے آئین میں بلدیاتی الیکشن کمیشن قائم کرنے کا بل واپس لے لیا ہے – “ وہ سب اچھا جس کا اختتام اچھا-“

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں