تاریخی جیت یا تاریخی ہار؟..جسٹس (ر)منظورحسین گیلانی

پنجاب اسمبلی کی بیس نشستوں پر ضمنی انتخاب کا معرکہ عمران خان کی لیڈر شپ میں پی ٹی آئی نے تمام اندازوں کے برعکس، پنجاب کی تاریخ، 2018 کے اسٹیبلشمنٹ کی بے نقاب مدد کے بغیر اپنے زور بازو پر واضع برتری سے جیت لیا – اس جیت پر پی ٹی آئیُ بے شک مبارک باد کی مستحق ہے – یہ جیت در اصل عوام کی اور اداروں کی جیت ہے جنہوں نے وہ تمام الزامات اور خدشات رفع کردئیے جو عمران خان کی طرف سے جارحانہ طور پر لگائے جارہے تھے – اس پر ادارے بھی مبارک باد کے مستحق ہیں جنہوں نے اپنی زمہ داریاں اپنے حدود کے اندر رہتے ہوئے عوامی اطمینان کے مطابق نبھائیں – امید ہے ریاست کے سارے ادارے بلخصوص اسٹیبلشمنٹ اس روایت کو بحال رکھ کر آئینی حدود کے اندر چل کر ملک کی ساکھ بحال کریں گے – اسٹیبلشمنٹ، جس میں عوامی رائے پر اثر انداز ہونے والے سارے ادارے شامل ہیں کو سری لنکا سے سبق سیکھنا چائیے،جو نظم و نسق، قومی اور اقتصادی سلامتی کی تباہی کے انتہائی دہانے پر پہنچ گیا ہے لیکن اس کی فوج، عدلیہ اور تمام انتظامی ادارے قومی سلامتی کے نام پر نہ کو لمبو پر چڑھ دوڑے نہ مصالحت یا راضی نامہ کی کوشش کرائی بلکہ کتاب میں درج اپنی زمہ داری ادا کرتے رہے۔ قوم کی نظروں میں ڈاکو خود سیاسی موت مر گئے اور اداروں نے ان کے قائم مقام چن لئے۔
یہ الیکشن پی ٹی آئی اور مسلم لیگ کے درمیان نہیں بلکہ پی ٹی آئی بمقابلہ سب قومی اور پارلیمانی جماعتوں کے درمیان تھا۔ قومی جماعتوں میں سے صرف منتشر مسلم لیگ ق پی ٹی آئی کے ساتھ تھی،اس الیکشن میں کمپین کی قیادت عمران خان نے انتہائی جارہا نہ طور کی۔ اس نے بھٹو صاحب(مرحوم)کی طرح اپنی حکومت کے خلاف سازش کے زریعہ بر طرفی اور روایتی موروثی جماعتوں کے خلاف کرپشن، اقرباء پروری کا ایک بیانیہ بنایا جس کو لوگوں نے قبول کیا۔ فوج کی غیر جانبداری اور اس کے کردار کو چیلینج کیا، عدلیہ، الیکشن کمیشن اور بیوروکریسی پر جانبدار ہونے کا الزام لگایا۔ شہری اور دیہاتی لوگوں نے ماضی کے تجربے کی بناء پر اس بیانیہ کو قبول کیا جس کا نتیجہ سامنے آگیا۔ گوکہ یہ محض چند سیٹوں پر الیکشن تھا، لیکن بے شک اس کو 1970 کے الیکشن کے مماثل قرار دیا جاسکتا ہے جو مغربی پاکستان میں بھٹو کے بیانیہ اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان کے بیانئے کی پذیرائی کی صورت میں نتیجہ خیز ثابت ہوا۔ یہ خالصتآ عوامی فیصلہ ہے۔ اتحادی جماعتوں بلخصوص مسلم لیگ ن کا شکست تسلیم کرنا اور عمران خان کو مبارک دینا انتہائی مناسب اور مثبت جمہوری رویہ ہے، جب چرچل جنگ عظیم دوئم جیت کے الیکشن ہارا تو اس نے ایک سوال کے جواب میں کہا میری قوم کو جنگ کے دوران میری ضرورت تھی اب محسوس نہیں کی۔ اٹل بہاری واجپائی نے الیکشن ہارنے پر جیتنے والوں کو مبارک دیتے ہوئے کہا میں ہارا ہوں میری قوم کو جیت مبارک ہو، ایسے جذبے کی ضرورت ہے۔
پنجاب روائیتی طور مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھا جاتا ہے جس پر کم و بیش تیس سال تک مسلم لیگ ن کا قبضہ چالا آرہا تھا – 2018 کے الیکشن میں مبینہ طور ہی نہیں بلکہ واضح طور عمران خان کو کھینچ تان کے لاکر مسلم لیگ ن کی مقبولئیت میں ڈنٹ ڈالا گیا – عمران خان نے حکومت میں آکر موروثی جماعتوں کے سربراہوں اور سرکردہ لیڈروں کو احتساب کے شکنجے میں کس کے رکھ دیا۔ ان کی جماعتوں اور بیوروکریسی میں ان کے طرفداروں میں سے اکثر نمایاں لوگوں کو سچے جھوٹے مقدمات میں احتساب کے عقوبت خانوں کی سیر کرائی، نواز شریف اور اس کی چند ہمنواؤں نے روائیتی حیلوں بہانوں سے ملک چھوڑ نے میں اپنی عافیت سمجھی۔ عام لوگوں نے ان کے فرار کو خود غرضی سمجھا، ان کے ساتھ
رہ کر سرد گرم چیشیدنا مناسب نہ سمجھا، اس وجہ سے ان کے خلاف ایک ثاثر پیدا ہوا۔ مرکز میں عمران خان کی حکومت بدلنے کے بعد شہباز شریف کا وزیر اعظم اورحمزہ شریف کا پنجاب کا وزیر اعلی بناتو نہ صرف ان کی جماعت بلکہ عام لوگوں نے انتہائی نا مناسب اور خاندانی اجارہ داری مستحکم کرنا سمجھا۔ ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کی طرف سے مسلم لیگ میں آنے والوں کو ٹکٹ دیکر پرانے کارکنوں پر لو ٹوں کو ترجیح دینا ”ن“ لیگ کے لئے اس الیکشن اور مستقبل میں جماعت کے لئے زہر قاتل ثابت ہوا۔ سوائے مریم نواز صفدر کی توانا آواز کے، مسلم لیگ کی الیکشن کمپین انتہائی کمزور رہی، عالمی اقتصادی، توانائی اور ملکی مالی بحران کی وجہ سے ن کی سربراہی میں اتحادی حکومت کے دور میں مہنگائی کا نکتہ عروج پر پہنچنا اتحادیو ں سمیت ن کا ہارنا یقینی ہوگیا۔اتحادی حکومت میں ن کے ساتھ رہے، لیکن الیکشن کمپین میں کہیں نظر نہ آئے جو کلیتآ بمقابلہ پی ٹی آئی الیکشن تھا اس لئے مہنگائی کی تمام ترذمہ داری ”ن“ پر عائد ہوئی اور الیکشن ہارنے میں یہ خصوصی وجہ ثابت ہوئی او رآئند بھی اس کے سر پر لٹکتی تلوار ہوگی۔عمران خان نے انتہائی چابکدستی سے اسٹیبلشمنٹ کی غیر جانبداری کو اتحادیوں کی طرفداری باور کرایا۔
اس الیکشن کو اس کے پس منظر میں دیکھا جائے تو فیڈریشن اور صوبوں میں قبل از وقت الیکشن نا گزیر ہو گیا ہے۔ عمران خان کی حکومت کی برطرفی سے قبل حزب اختلاف کی تمام جماعتیں نئے الیکشن کا مطالبہ کررہی تھیں اور اس کی بعد عمران خان کا یہ سب سے پہلا اور بڑا مطالبہ تھا جبکہ ضمنی الیکشن کے نتائج کے بعد یہ سیاسی، جمہوری اور اخلاقی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔
اس سیاسی، جمہوری اور اخلاقی بر تری کی بعد، پی ٹی آء اور عمران خان کے کندھوں پر بہت بھاری زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی انا کی قربانی دے کر تمام بڑی، بلخصوص پارلیمانی جماعتوں کو اعتماد میں لیکر نئے انتخابات اور ملک کو اس اقتصادی بحران سے نکالنے کا متفقہ لائحہ عمل طے کر کے اس پر یکسوئی سے کام کریں۔اقتصادی، معاشی، مالی اور تواناء کے بحران نے اگر خدا نخواستہ سری لنکا جیسی حالت پیدا کردی تو دنیا پاکستان کو نیوکلیر اور ماضی قریب اور بعید میں ہونے والے دہشت گردی کے الزامات کے پس منظر میں دیکھے گی اور فیصلے کرے گی اور وہ انتہاء بھیانک صورت حال ہوگی۔اس کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک دوسرے کے خلاف میرٹ پر کیسز کا فیصلہ متعلقہ اداروں اور عدالتوں کی حد تک محدود کریں ان کی کامیابی یا ناکامی کے لئے اداروں پر بھروسہ کریں دباؤ نہ بڑھائیں نہ ایک دوسرے کے خلاف فقرے کسیں یا نام بگاڑ یں۔عمران خان اپنے طرز تخاطب اور طرز عمل کو اپنے مخالفین کے لئے قابل قبول بنائیں۔ عمران خان نے جس طرح قاضی فائز عیسی کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی غلطی تسلیم کر کے اپنے بڑے پن کا ثبوت دیا ویسے ہی اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ، الیکشن کمیشن اور بیرو کریسی کے خلاف اپنے منفی تاثر کو دور کریں کیونک پنجاب کے الیکشن کی نتائج سے یہ غلط ثابت ہوا ہے – غلطی ماننا بڑاء کی علامت ہے جبکہ اس پر ڈٹے رہنا حماقت ہے۔ضمنی انتخاب کے نتائج عمران خان اور پی ٹی آئی کی تاریخی جیت ہے جبکہ اتحادیوں کی تاریخی ہار ہے، عمران خان کو اسے بحال رکھنے اور اتحادیوں کو بدلنے کی ضرورت ہے اور سب جماعتوں کو اپنے خاندان اور جماعت کے لئے نہیں بلکہ ملک کے لئے سیاست کرنے کی ضرورت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں