تصورات کا فن جامعات کی رینکنگ میں مددگار۔.پروفیسر انیس اختر(ناٹنگھم، برطانیہ)

تصورات کا فن اور پولی میتھک طریقہ تعلیم اعلیٰ تعلیمی اداروں کی شان اور ranking کو بڑھاتا ہے۔ تصورات کا فن اور پولی میتھک طریقہ تعلیم سے نہ صرف اعلیٰ تعلیمی اداروں کی شان اور رتبے میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ اس سے عالمگیر قسم کے سپر پاورفل دماغ پیدا ہوتے ہیں۔یہ دماغ ملکی صنعت اور نئی عالمی تہذیبوں کو جنم دیتے ہیں۔
تصورات کے فن کے ماہرین، dreamers اور thinkers کے دماغ جدید صنعتوں اور تہذیبوں کے لیے ایک خزانہ اور دنیا کو جنت بنانے والے دماغ ہوتے ہیں۔دنیا کی تمام ایجادات اور تخلیقات کی صنعتیں اور تہذیبیں انہی دماغوں میں جنم لیتی ہیں۔ تصورات یا imaginations کا فن ہی وہ بڑی مہارت ہے جو دنیا کی تہذیبوں اور خاص طور پراعلیٰ تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں کی شان اور اعلیٰ کارکردگی اورrankingمیں اضافے کا سبب بنتا ہے۔
اعلیٰ تصورات کا فن عالمگیر علوم کے core یا جڑوں سے پیدا ہوتا ہے چونکہ تمام علوم کی جڑیں بنیادی طور پر core میں آپس میں جڑی ہوتی ہیں۔دنیا میں ریسرچ، آرٹ ، ادب اور سائنس میں بریکتھروزانہی علوم کی جڑوں جو کہ بنیادوں یا core میں آپس میں جڑی ہوتی ہیں کو سمجھنے اور ان کو اپنے شعور اور جسم میں جذب کرنے کے بعد ہی تصورات، تخلیقات اور ایجادات کی دنیا شروع ہوتی ہے جو نوبل سائنس، ادب اور آرٹ کو جنم دیتی ہے۔ان علوم اور فنون کے ماہرین نئی ایجادات اور تخلیقات کرنے پرNobel laureateیا نوبل مائنڈ کہلاتے ہیں۔علوم کی یہ مشترکہ جڑیں ایک خوبصورت، تن آور اور پھل دار درخت پیدا کرتی ہیں۔
لہٰذا ہمیں انہی تہذیبوں اور اعلیٰ تعلیمی درسگاہوں کی جڑوں کو مضبوط کرنےکے لیے عالمگیر علوم کی جڑوں کو سمجھ کر درسگاہوں کی شان اور رتبے کو بڑھانا پڑے گا۔ عالمگیر علوم کی جڑوں کا یہ مشترکہ منبع اپنے اندر گراؤنڈ بریکنگ ریسرچ، آرٹ، سائنس اور ادب کے مختلف genres کی کتابیں، ایجادات اور بڑی عالمگیر تخلیقات رکھتا ہے۔لیکن اگر آپ ان علوم کے core یا جروں کو تلاش کئے بغیر اوران علوم کے اس منبع کو سمجھے بغیر کوئی بڑا عالمگیر علمی، ادبی اور سائنسی کارنامہ یا اپنے دماغ کی حدود کو ان علوم کی بنیادوں کو بڑھائے بغیر اعلیٰ اور برے تصورات کی دنیا میں داخل نہیں ہو سکتے۔ اعلیٰ تصورات کی دنیا میں داخل ہونے کے لیے آپ اپنے دماغ کی حدود بڑھانا شروع کرتے ہیں اور زندگی کے کئی ایک شعبہ جات میں گراؤنڈ بریکنگآئیڈیاز، تخلیقات اور ایجادات کرنا شروع ہو جاتے ہیں۔
دوسری طرف ایسا سطحی علم جس کی بنیادیں مضبوط نہیں ہوتیں اور ان بنیادوں میں آنے والی باقی علوم کی جڑیں بھی آپ کے شعور کی دسترس میں نہیں ہوتیں تو پھر یہ ڈیٹا یا انفارمیشن ہی رہے گا علم نہیں بنے گا، نہ ہی کوئی بڑا تصورتخلیق یا ایجاد یا کوئی گراؤنڈ بریکنگائیڈیالوجی یا نظریہ بن پائے گا۔ آپ کے ادارے عمومی طور پر عالمگیر دنیا اور انسانیت کے وقار اور بقا میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ لیکن ان منبع کو سمجھے بغیر ایسے ہی ہے جیسے آپ پھل دار درخت کی پھلوں، پتوں اور شاخوں کی دیکھ بھال کر رہے ہیں لیکن جڑوں کی آپ کو کوئی فکر نہیں ہے۔ بلندی صحت مند دماغ پیدا کر سکے گا اور نہ ہی صحت مند معاشروں کا باعث بنے گا۔
انسانی ذہنی ارتقاء کی تاریخ میں تصورات کی اہمیت
ہمارے دماغوں اور شعور یعنی consciousnessکو پچھلے دو سو سال قبل کے تخلیق کاروں ، آرٹسٹوں اور رائٹروں نے مخصوص سمت کی سوچوں کو ڈالنے کے لیئے انجنیئر کیا ہوا ہے جس کا ادراک یا شعور ہم عمومی طور پر تیز رفتار زندگی اور دنیا میں نہیں کر پاتے۔ ہم جدید دنیا کے ترقی اور ارتقاءپاتےہوئے دماغوں کو دیکھ کر ہی کہ سکتے ہیں کہ آج کی دنیا کے یہ جدید دماغ پچھلی دو صدیوں کے تخلیق کاروں، مصوروں آرٹسٹوں،رائٹروں فنکاروں اور موجدوں کے دماغوں کی prototypes یا کاپیاں ہیں جو جدید میٹا فزکس کی دنیا میں holographic brain یا تخلیق کار کے دماغ کی ساڑھے سات ارب کے قریب بنی ہوئی کاپیا ں ہیں۔اس کے پیچھے کوئی بڑا شعور اور تخلیق کار ہی پس پشت ہے۔ میٹا فزکس کے اس ہولوگرافک تصور کینیوروسائنسیا برین سائنس میں بڑی پذیرائی ہو رہی ہے۔
اگرچہ دنیا میں تخلیق کاروں، رائٹرز اور بڑے تصورات کے ماہرین سائنس دانوں اور ادیبوں اور artists کی تعداد محدود ہے اور ایک تجزیئے کے مطابق دنیا میں تقریبا03٪ ایسے ماہرین پائے جاتے ہیں جو دنیا کو بدلنے اور نئی جدید تہذیبیں قائم کرنے کی صلاحیتیں رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی تہذیبیں انسانی تصورات سے ابھی تک بہت پیچھے ہیں۔
چونکہ ابھی تک تاریخ انسانی میںایسے ہزاروں تصورات اور خیالات ہیں جن کو ابھی تک ٹیکنالوجی کی صورت میں انجنیئر نہیں کیا جا سکا اور وہ ابھی تک تہذیبیں نہیں بن پائے۔ جب تک تصورات کو ٹیکنالوجی کی صورت میں انجنیئر نہ کیا جائے، نئی جہتیں اورنئی تہذیبیں وجود میں نہیں آتیں۔ انسانی تصورات اور fictions کو facts میں بدلنے میں آدھی اور بھی پوری ایک صدی لگ جاتی ہے جیسے سیٹلائیٹ کے تصور کو facts میں بدلنے اور satellite کو زمین کے گرد مدار میں بھیجنے میں آدھی صدی لگ گئی، اسی طرح ڈارکانرجی کے تصورر اور ڈارکانرجیوالےذرے یعنی Higgs boson یا God particle کے تصورکو پیش کرنے اور اس ذرے کو Harness کرنے میں آدھی سے زیادہ صدی لگی جو کہ پاکستانی نژاد ساینسدان ڈاکٹر عبد السلام کی unified تھیوری کو test کرنے کےدوران فرانس اور سویٹزرلینڈ کے درمیان بڑے particle accelerator کو ایک 27 کلو میٹر لمبی tunnel بنا کر ایٹمی ذرات پر super high voltage گزار کر دریافت کیا گیا۔ یہ ڈارکانرجیاوریہ ذرہ باقی ایٹمی ذروں سے کئی ہزار گنا زیادہ electron volt کی انرجی رکھتا ہے۔
یہ انسانی تہذیبوں میں وہ تبدیلیاں کرے گا جو باقی ذرات جن سے اٹامک اور نیوکلیئرانرجی حاصل ہوتی ہے وہ ابھی نہیں کر پائے ہیں۔ یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ اس ڈارکانرجی سے حاصل شدہ طاقت کو کہکشاؤں اور کائناتوں کے اس پار صدیوں پہلے پہنچنے والے تصورات کو ٹیکنالوجی بنا کر حقیقتوں کا روپ دھار لیا جائے گا۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسانی دماغ میں تصورات کے فن میں ترقی نے یہ ممکن بنایا ہے کہ ہم ایسی تخلیقات اور ایجادات کر پائے ہیں جس سے ہم جزو روشن کائنات ہی کو نہیں بلکہ ڈارک کائنات کو بھی دیکھنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔
امید کی جا سکتی ہے کہ یہ دریافتیں اور ایجادات جہاں انسان کو کائنات میں تیز رفتاری سے بڑے فاصلے طے کرنے کے قابل بنائیں گی وہاں انسانی صحت کے لیے diagnosis اور معالجے اور انسانی معاشروں کو قریب ترین اور یکجا کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ ہم تصورات کے اس فن کو پولی میتھک طریقہ تعلیم اور high dimensionalنالج کے حصول کے ساتھ ساتھcuriosity اور چھٹی حس کو intuition اور meditation سے بڑھا کر اور برین موٹر کو موسیقی میں پائی جانے والی alpha اور gammaویوز کی تھراپی کے ذریعے چلا کر فن ِ تصورات کو سیکھ سکتے اور بڑھا سکتے ہیں۔
گہرے تصورات کا فن چاہے آپ کتابیں لکھنے، مجسمہ سازی، شاعری، موسیقی، کیلی گرافی یا کسی دوسرے مقصد جیسے کھیل اور کئی ایسے دوسرے تخلیقی فن جو ملکی معاشروں اور خوشحالی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں بلکہ یہ فن آپ کو اپنے معاشروں میں بڑے دماغ بڑے کردار اور بڑی شخصیات بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اس فن سے پیدا ہونے والا طاقتور دماغ اپنے اندر سے ذہانت کی اتنی بڑی شعاعیں کائنات میں emit کراتا ہے کہ بعض اوقات ذہانت کی یہ شعاعیں تاریخ انسانی میں بڑے طاقتور میڈیا جیسے ٹی وی، ریڈیو، اخبارات اور رسائل کے بغیر بھی دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک ٹریول کرکے انسانی دماغوں اور شعور تک پہنچتی رہتی ہیں۔ جیسے پیغمبروں میں تصورات کا وحی کی صورت اختیارکرنا اور صوفیا اور اولیا میں بڑے تصورات کا کرامات سازی کا رخ اختیار کر لینا اور جدید معاشروں میں یہی فن سائنسدانوں، شاعروں، فلاسفروں، ادیبوں اور رائٹروں کے دماغوں سے نئے نئے علوم جیسے فزکس، فلاسفی، ادب اور آرٹ کا جنم اور اعلیٰ دماغ اور معاشروں کا قیام بھی تاریخ انسانی میں ایسی فن کی کڑی ہے۔
دنیا میں تمام آفاقی علوم جنہوں نے زندگی، کائنات اور معاشروں کی تشریح اور تعبیر کی ہے ان کی بنیادیں بھی اسی فن ہی سے ممکن ہوئی ہیں۔اسی طرح تمام یونیورسل علوم جنہوں نے یونیورسل زندگی اور معاشروں کی تشریح اور تعبیر کی بنیادیں رکھیں وہ یونیورسٹیوں میں مختلف domain کے علوم بن گئے جس میں physical, material, life sciences اور سوشل سائنسز کے علوم کی ڈومین عموماً دنیا کی تمام یونیورسٹیوں میں کائنات، زندگی اور معاشروں کی نیچر اور فطرت کو سمجھانے اور سکھانےکے لیے پڑھائے جاتے ہیں۔
لہٰذا ان جدید علوم میں بیان کردہ کائنات، زندگی اور معاشروں کی تشریح اور وضاحت کو سمجھنے کے لیے ان جدید علوم کو آفاقی علوم کے ساتھ ساتھ پولی میتھک طریقوں سے مربوط کر کے سمجھنے سے زیادہ طاقتور، صحت مند اور بڑے تصورات والے دماغ وجود میں آتے ہیں۔ تصورات کا یہی آفاقی فن آپ کو اپنے معاشروں میں بڑی قد آور شخصیت، سائنسدان، ادیب اور مفکر بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اسی فن کے ماہرین مصور، آرٹسٹ یا scientist اور فنکار کہلاتے ہیں۔
چونکہ دماغوں کی مشین کو رواں رکھنے اور چلتے رہنے دینے کے لیے سوچوں کو بڑھانا اور خیالا کو بڑھتے رہنے دینے سے اعلیٰ تصورات والے یعنی بڑے دماغ وجود میں آتے ہیں جو کہ سائنسی، ادبی اور آرٹ کی سٹوریز کے پڑھنے اور سمجھنے سے چلنا اور رواں دواں ہونا شروع ہو جاتے ہیں جن کے لیے عالمی کتابوں کی صنعت یا سٹوریز اور سٹوری ٹیلرز کے لیے بڑی صنعت بن چکی ہےجس کو کئی ایک genres کی صنعت بنا دیا گیا ہے۔
یہ سٹوریز یا کتابیں عالمی طور پر بڑے دماغ پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ دماغوں کو چلانے والی یہ کتابیں یا سٹوریز دماغوں کے لیے ایک قسم کی high potential batteries کا کام کر رہی ہیں۔ اور دماغوں میں چلنے والی یہ batteries دماغوں کی موٹرز کی رفتار کو تیز کرنے اور حقیقی اور معاشی اور سماجی ترقی کی رفتار میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔ دنیا میں علوم کی یہی برقی رو یا bioelectricity تخلیقات، ایجادات اور تحقیقات دماغوں اور اداروں اور خصوصاً اعلیٰ تعلیمی اداروں میں شان اعلیٰ کارکردگی اور نوبل سائنس، ادب اور آرٹ پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہمارے 1000 terabyte دماغ میں 4۔8 بلین کتابیں سما سکتی ہیں۔ یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے دماغ میں کتنی صلاحیت ہے کہ 4۔8 بلینbioelectricity والا علم ہماری موٹر کو چلا کر کتنی نئی کائناتیں اور تہذیبیں تخلیق کر سکتا ہے۔لہٰذا ہمیں ایسے دماغوں کو پسماندہ سے جدید دماغ میں بدلنے کے لیے تصورات کے فن یا imaginations کو ان اہم طریقوں اورتھراپیز سے بڑھانا پڑے گا جو کہ ہم جدید فلسفہ سائنس، آرٹ، ادب اور روحانی اور مذہبی علوم کے درمیان ایک پولی میتھک اور لاجیکل طریقوں سے ایک مربوط تسلسل پیدا کرکے ہی ذہنی ارتقا کو ممکن بنا سکتے ہیں جو کہ عالمی انسانیت کو آپس میں مشترکہ بنیادوں پر اکٹھا کر سکتا ہے اور حتمی اور آفاقی سچائیاں تلاش کرکے دنیا میں خوشحالی اور امن قائم کر سکتا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں