تماشا آخرکب ختم ہوگا ۔۔۔ارشاد محمود

پنجاب اسمبلی میں جو تماشا برپا ہوا اس نے اہل پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا۔ قانونی موشگافیوں کے سہارے اکثریتی جماعت کو اقتدار سے محروم کردیا گیا۔سیاست کے فیصلے اب گلی محلے میں نہیں کورٹ کچہری میں ہوں گے۔ سیاسی بزرجمہروں نے وقتی طور پر پرویز الہی کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے محروم کرکے پانسہ پلٹ دیا لیکن جمہوریت ہار گئی۔ عوامی مینڈیٹ ہارگیالیکن چند لوگوں کی انا کی تسکین ہوگئی۔گزشتہ چند ماہ کے دوران ملک میں جو کچھ ہوا۔ مورخ کسی بھی ایکٹر کو بخشے گا نہیں۔ ہر ایک نے ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے میں حصہ بقدر جشہ حصہ لیا۔
حالیہ ضمنی الیکشن میں پنجاب نے پاکستان تحریک انصاف کے حق میں فیصلہ دیا ۔ محترمہ مریم نواز نے کھلے دل سے عوامی فیصلے کو قبول کیا لیکن جوڑ توڑ کی سیاست کے بادشاہ آصف علی زرداری نے داؤپیج کھیل کر وقتی طور پر بازی الٹ دی لیکن نہ اپنی نیک نامی میں اضافہ کیا نہ حلیف نون لیگ کو کوئی سیاسی فائدہ پہنچاسکے۔ پنجاب ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں لوگوں کی ہمدردیاں پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں کیونکہ وفاق میں اکثریتی جماعت ہونے کے باوجود اسے اقتدار سے زبردستی بے دخل کیاگیا اوراب پنجاب میں عوامی فیصلہ کی توہین کی گئی۔
کل تلک پی ڈی ایم والے کہتے تھے کہ ووٹ کو عزت دو لیکن ناداں گر گئے سجدہ میں جب وقت قیام آیا۔حمزہ شہبازعددی اکثریت کھونے کے باوجود اقتدار سے چمٹے ہوئے ہیں۔ ووٹ کو عزت دو کا نعرے لگانے والے اب کھلے عام اسٹیبلشمنٹ کو بے وفائی کا طعنہ دے رہے ہیں کہ اس نے الیکشن میں ہمارا ساتھ نہیںدیا۔ حالانکہ یہ بزرگ گزشتہ چار برس تک پرچار کرتے رہے کہ اسیٹبلشمنٹ کو سیاست سے کنارا کش ہوناچاہیے۔ حیف ہے اب وہ چاہتے ہیں کہ مقتدر قوتیں ان کی پشت پر کھڑی ہوں بلکہ انہیں الیکشن میںکامیاب بھی کرائیں۔ پی پی پی کی لیڈرشپ اپنے کارکنان اور میڈیا کو تاثر دے رہی ہے کہ ان کے ’’معاملات ‘‘طے پاچکے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔
نون لیگ اور پی پی پی کی معمر لیڈرشپ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ پاکستان کے سماجی اور معاشی حالات میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں۔ووٹر باخبر اور صاحب رائے ہوچکا ہے ۔ خاص طور پر نوجوان ووٹر نون لیگ او رپی پی پی کے طرزسیاست بالخصوص خاندانی حکمرانی اور قومی وسائل کی لوٹ مار پر جھوٹی شان وشوکت کی عمارت کھڑی کرنے والوں کو مسترد کرتے ہیں۔
وہ پڑوس میں دیکھتے ہیں کہ ایک چائے والے کا بچہ بھارت کا وزیراعظم بن جاتاہے۔ نہرو خاندان الیکشن میں بری طرح پٹ جاتاہے۔ وہ افغانستان میں دیکھتے ہیں کہ بے سرسامان طالبان لیڈر مغربی دنیا کے چہیتے صدر اشرف غنی کو دیس نکلا سنادیتے ہیں۔
بنگلہ دیش کی معاشی ترقی اور سیاسی استحکام نے انہیں ان اسباب کی کھوج لگانے پر مجبور کردیا ہے کہ کون سے عناصر نے اس ملک کو دیولیہ کیا۔ ظاہر ہے کہ شریف خاندان، بھٹو خاندان اور مارشل لاء یہ تین عناصر ہیں جنہوں نے سانحہ مشرقی پاکستان کے مابعد اس ملک پر راج کیا۔ اس ملک کی ناکامیوں اور عوام کی محرومیوں کا ان کے سوا کوئی اور ذمہ دار کیسے ہوسکتاہے۔
تحریک انصاف اور عمران خان کی اٹھان اور مقبولیت کے پس منظر میں گزشتہ پچاس برسوں میں مسلط رہنے والے حکمران طبقے کے خلاف عوام کا غیظ وغصب سب سے بڑا محرک ہے۔ستم ظریفی دیکھیے ! وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کی کرسی پر باپ اور بیٹا بیٹھ کر میرٹ اور انصاف کا سبق قوم کو پڑھاتے ہیں۔ زرداری صاحب کہتے ہیں کہ وہ بلاول بھٹو کو وزیراعظم بنوا کر دنیا سے کوچ کریں گے۔ پی پی پی کے لاکھوں حامیوں میں انہیں بلاول بھٹو کے علاوہ کوئی جوہر قابل نظر ہی نہیں آتا۔
نون لیگی او رپی پی پی کے بزرگ سیاستدان ممکن ہے کہ سازباز کے ذریعے اقتدار پر ایک بار پھر قابض ہوجائیں۔ ملکی اور عالمی طاقتیں ان کے لیے سازگار سیاسی ماحول پروان چڑھانے میں جتی ہوئی ہیں لیکن پاکستانیوں کا ایک بہت بڑا طبقہ صاف اور شفاف الیکشن کے سوا کوئی بھی انتظام قبول کرنے کو تیار نہیں۔ ایسا الیکشن جس میں کسی مخصوص جماعت یا گروہ کوقومی اداروں کی حمایت حاصل ہووہ ملک کو مزید انتشار کا شکار کرے گا۔
پاکستان بدل چکا ہے لیکن شریف برادران، زرداری اور فضل الرحمان اور ان کے خاندانوں کو اب تک اس کی خبر نہیں ہوئی۔ لوگوں کو اب وڈیروں او ر پولیس کا خوف نہیں رہا۔ گزشتہ چار برسوں میں ایک کروڑ نوے لاکھ کے لگ بھگ نئے ووٹرز کا اندراج کیاگیا ہے جن میں سے اکثر نوجوان ہیں۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان کے سوا بارہ کروڑ ووٹرز میں چھ کروڑ کے لیے لگ بھگ کی عمر 18-35 کے درمیان ہے جوتقریباً 58 ملین کے قریب ہیں۔ ان میں سے اکثر لوگوں نے جنرل ضیا ء الحق کے کوڑے کھائے ہیں اور نہ جنرل پرویز مشرف کو مکے لہراتے دیکھا ۔ انہیں ریاست کی طاقت اور ہیبت کا کوئی اندازہ نہیں۔ ان میں سے زیادہ تر سوشل میڈیا اور عالمی ذرائع ابلاغ سے متاثر ہوتے ہیں۔ گردونواح کے حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔وہ بے باک ہیں اور نکتہ چینی کرنے میں بے لاگ ہیں۔ انہیں سہانے خواب دیکھا کر یا خوف زدہ کرکے دبایا نہیں جاسکتا۔
اس پس منظر میں روایتی سیاسی جماعتوں اور قومی اداروں کو قدیم اسلوب سیاست کو بدلنا ہوگا جس میں نوٹوں کے بریف کیسوں کو خریدنے کی کوش کی جاتی تھی۔ مقتدر اداروں کے سربراہوں کو مہنگی گاڑیوں کی چابیاں پیش کی جاتی تھیں اور ارکان اسمبلی کی بولی لگائی جاتی ہے۔
پاکستان کو ایک ایسے سیاسی معاہدے یا مفاہمت کی ضرورت ہے جہاں سیاسی جماعتیں اپنے اعمال کی جواب دہ ہوں۔ ادارے اپنی آئینی حدود سے تجاوز کرنے کا تصور بھی نہ کرسکتے ہوں۔ الیکشن کی شفافیت پر کوئی انگلی نہ اٹھاسکتاہو۔
ہار اور جیت کا فیصلہ کرنے کا اختیار صرف اور صرف عوام کا ہو۔ الیکشن کو منیج کرنے کا تصور بھی محال ہو۔ اس ایجنڈے پر تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں کو مل بیٹھ کر کوئی حکمت عملی مرتب کرنا ہوگی۔
بصورت دیگرملک کا جو نقشہ بننے جارہاہے اس کی پیش گوئی کرنے کے لیے کسی جوتشی کی ضرورت نہیں۔ ہمارا مستقبل سری لنکا سے مختلف نہ ہوگا۔
گزشتہ کئی ماہ سے افتخار عارف کا یہ شعر باربار دل ودماغ پر دستک دیتارہا جو شہریوں کے جذبات کی عکاسی کرتاہے۔ بکھر جائیں گے ہم کیا جب تماشا ختم ہوگا میرے معبود آخر کب تماشا ختم ہوگا

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں