راستوں کی بندش شیطانی عمل…غلام اللہ کیانی

وی آئی پی نقل و حرکت کے دوران روٹ لگانا، اپے حقوق کے لئے مظاہرے کے دوران ڈنڈے کے زور پر سڑکیں بند کر دینا، کسی مظاہرے یا اجتماع کو روکنے کے لئے کنٹینرز یا فورسز کی مدد سے راستے بند کر دینا روز مرہ کا معمول بن رہا ہے۔ حکومت اور عوام کی جانب سے غیر قانونی کام کو قانونی اور جائز کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔کسی فرد یا پارٹی کے جائز حقوق کی بلا شبہ پاسداری اور تحفظ ہونا چاہیئے مگر اپنے حق کے لئے دوسرے کا حق پامال نہیں کیا جا سکتا ہے۔ سڑکیں بند حکومت کرے یا عوام، یہ سب غنڈہ گردی ہے۔ یہ سب طاقت اور اختیارات کا غلط استعمال ہے۔ سب جانتے ہیں کہ یہ سب بلا جواز ہے۔ سڑکیں بند کرنے سے مظلوم اور بے کس لوگوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ ان کی حقوق پامال ہو جاتے ہیں۔مریض بروقت علاج سے محروم ہوتے ہیں۔ طلباء و طالبات کی تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں۔ ملازم پیشہ لوگ خدمات بہم پہنچانے سے قاصر رہتے ہیں۔ مزدور روزگار کے حصول میں ناکام ہو جاتے ہیں۔کوئی کام چور ہی ہو گا جو سڑک بندش کا بہانہ بنا کر معمول کی سرگرمیاں جاری نہ رکھے۔
پاکستان جیسے مسلم ملک میں غیر اسلامی طریقوں کا رواج چل پڑا ہے۔ یہ سب ناقابل قبول ہے۔مظاہروں، دھرنوں یا احتجاج کے لئے ایسے مقامات مختص ہوں جہاں لوگوں کا اجتماع مریضوں کی ہلاکت کا باعث نہ بنے۔ جہاں سڑکیں بند نہ کی جائیں۔ عوام کی معمولات زندگی میں خلل پیدا کرنے کی کوئی قانون اجازت نہیں دیتا۔ باشعور اور احساس مند لوگ ہی دوسروں کا خیال رکھتے ہیں ورنہ خود غرضی کے ماحول نے انسان کو حریص اور لالچی بنا دیا ہے۔ہر کوئی اپنا الو سیدھا کرنا چاہتا ہے۔
اسی ماحول میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر جج جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ریمارکس جیسے خشک سالی کے موسم میں بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوئے ہیں۔ جسٹس صاحب نے احتجاج کے دوران سڑکوں کی بندش کے حوالے سے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ رسول اللہﷺ نے راستے بند کرنے کے عمل کو شیطانی قرار دیا ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے یہ ریمارکس ان کی جانب سے لکھے گئے اس خط میں سامنے آئے جس میں انہوں نے وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں احتجاج کے دوران پیش آئی صورتحال پر وضاحت کی۔انہوں نے8نومبر کو اپنے خط کی ابتدا میں لکھا کہ یہ چند سطور مجھے اس لئے لکھنی پڑھ رہی ہیں کہ شہریوں کے(بشمول میرے) نقل و حرکت پر رکاوٹیں تھیں، بغیر اجازت میری ویڈیو بنائی گئی اور مفروضوں کی بنیاد پر اس پر تشریحات کی گئیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا کہ انسانی تکریم اور نقل و حرکت کی آزادی ہر شہری کے بنیادی حقوق ہیں، کسی بھی شہری کی طرح اپنے کام کی جگہ تک سہولت کے ساتھ پہنچنا اور اسی طرح گھر واپس جانا میرا بھی بنیادی حق ہے۔انہوں نے کہا کہ 8 نومبر 2022 کو جب میں عدالت عظمیٰ کی طرف جا رہا تھا تو ساری ٹریفک روک دی گئی تھی اور دریافت کرنے پر بتایا گیا کہ صدر صاحب کے لئے روٹ لگایا گیا ہے، لوگوں کو سڑکوں پر پھنسے دیکھ کر افسوس ہوا کہ ایسا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہو رہا ہے جس کے آئین میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حکمرانی کا اقرار کیا جاتا ہے۔قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خط میں لکھا کہ عدالت عظمیٰ نے سڑکوں کی بندش سے بنیادی حقوق کی پامالی پر فیصلے دیئے ہیں جن میں واضح ہے کہ اجازت کے بغیر سڑکوں پر اجتماعات نہیں ہوسکتے۔انہوں نے کہا کہ دوسروں کے بنیادی حقوق متاثر کرکے آزادی اظہار کا حق استعمال نہیں کیا جاسکتا، سڑک کو غیر معینہ مدت تک اجتماعات کے لئے استعمال نہیں کیا جا سکتا، لہٰذا جو مظاہرین لوگوں کے سڑکوں کے استعمال کرنے کے حق میں رکاوٹ ڈالیں ان کو قانون کے تحت جوابدہ ٹھہرانا لازمی ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ ریاست کی صرف یہ ذمہ داری نہیں کہ وہ مظاہرین کے اجتماع کو آسان بنائے، ریاست کی اولین اور بنیادی ذمہ داری ہے کہ ہر شہری کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرے۔
حکومت وی آئی پیز کی نقل و حرکت پر روٹ کے نام پر سڑکیں بند کر دیتی ہے۔ جس سے عوام لناس کو شدید تکالیف میں مبتلا ہونا پڑتا ہے۔ صدر، وزیر اعظم، غیر ملکی مہمان کا دورہ لوگوں کے لئے زحمت بن جاتا ہے۔ ہر کوئی مہمان کو کوستا اور گالیاں دیتا ہے۔ جب کوئی مریض سڑک بند ہونے کی وجہ سے درد سے تڑپ رہا ہو، اس کے عزیز وا قارب اسباب کے لئے نیک تمنا کا اظہار نہیں کرسکتے۔ اسی طرح کنٹینر لگانے کو بھی حکومت کے نا اہل ہونے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ آج کل پی ٹی آئی اسلام آباد کی طرف مارچ کر رہی ہے۔حکومت اس کو روکنے کے لئے کنٹینرز لگا رہی ہے۔ گاہے بگاہے،روٹ بھی لگتے ہیں۔بلا شبہ سڑکیں بند کرنا شیطانی عمل ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کسی شیطانی عمل کی سر پرستی نہیں کر سکتا اور نہ ہی کسی کو اس عمل کی اجازت دے سکتا ہے۔ حکومت اور عوام کو سڑکیں بلاک کرنے کے بجائے کوئی دوسرا طریقہ اپنانا ہو گا تا کہ ہر کوئی شیطانی عمل سے بچ سکے۔ انسانی تکریم اور نقل و حرکت کی آزادی ہر کسی کا حق ہے۔ یہ حق پامال چاہے حکومت کرے یا عوام، یہ سب غیر اسلامی، غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہو گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں