راولاکوٹ انتظامیہ اور بائیکیا سروس…سید حیدر

ہمارے یہاں جو چیز یا نام نیا آتا ہے وہ ایک ٹرم کی صورت اختیار کر جاتا ہے جیسے “TopUp” کی سروس پاکستان میں پہلی بار ٹیلی نار نے متعارف کروائی جس کو “Easy Load” کا نام دیا گیا یہ نام اتنا معروف ہو گیا کے زبان زد عام ہو گیا اور ایک ٹرم کی صورت اختیار کر گیا ٹیلی نار سے متاثر ہو کر دیگر موبائل کمپنیوں نے بھی یہ سروس شروع کی کسی نے “Jazz Load” کا نام دیا تو کسی نے “U TopUp” کا لیکن چونکہ پہلے ایزی لوڈ آیا تھا جس کا طریقہ کار بھی “Jazz Load” اور “U TopUp” جیسا ہی تھا اسی لیے عوام نے ہر کمپنی کے مختلف ناموں کے بجائے ایک ہی ٹرم کا استعمال شروع کر دیا یعنی Easy Loadایسے ہی کار بکنگ سروس کا آغاز ہوا تو Careem سب سے پہلی کمپنی تھی جس نے پاکستان میں اس سروس کا آغاز ڈیجیٹل سطح پر کیا کیونکہ آپ گھر بیٹھ کر اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکتے تھے جو آسان اور محفوظ بھی تھی جس کو عوام میں زبردست پذیرائی حاصل ہوئی اس کے بعد Uber اور Indriver بھی مقبول سروسز ہیں مگر چونکہ Careem پہلی سروس تھی اور مقبول بھی باقی سروسز کا طریقہ کار بھی اس جیسا ہی تھا اس لیے اب آپ کوئی بھی سروس کا استعمال کریں لوگوں نے یہی کہنا ہے Careem کروا دو یا Careem منگوا دو.اب آتے ہیں اپنے اصل مدعے کی جانب پچھلے کچھ عرصے سے راولاکوٹ میں “بائکیا” سروس کا شور ہے کچھ لوگ اس پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں اور کچھ لوگ تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں جس کے بعد ڈسٹرکٹ انتظامیہ نے ڈسٹرکٹ کے اندر یہ سروس چلانے پر پابندی عائد کر دی.”بائکیا” سروس پاکستان میں ایک رجسٹرڈ کمپنی ہے جو سمارٹ فون کی ایک اپلیکیشن سے کام کرتی ہے اس اپلیکیشن پر آپ اپنی ضروری معلومات کا اندراج کر کے رجسٹر کر کے اس سروس کے حصول کے اہل ہو سکتے ہیں چونکہ اپلیکیشن آپ کے موبائل نمبر سے رجسٹرڈ ہوتی ہے اور موبائل نمبر آپ کے شناختی کارڈ اور فنگر پرنٹ سے جس سے کسی بھی دھوکا دہی کی صورت میں با آسانی ٹریس کیا جا سکتا ہے.اب آزادکشمیر کا اسٹیٹس ایک الگ آزاد ریاست کا ہے یہاں پاکستانی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا یہاں کسی بھی کمپنی کو اپنی سروسز کے اطلاق کے لیے الگ سے رجسٹریشن کروانی ہوتی ہے اس لیے یہاں بائیکیا سروس غیر قانونی ہے پچھلے چند دن سے راولاکوٹ میں کچھ نوجوانوں نے مل کر بائیک بکنگ سروس کا آغاز کیا اور بائیکیا کے ہیلمٹ پہن کر شہر میں بائیک بکنگ کی سروس دینے لگے ٹیکنیکلی دیکھا جائے تو یہ بائیکیا سروس نہیں بلکہ عام گاڑی کی بکنگ جیسی سروس ہے جو آپ زبانی کلامی تہہ کرتے ہیں بنا کسی اپلیکیشن کے استعمال کےاب یہاں یہ بات سمجھنے کی ضروری ہے جس کا ہم نے سب سے پہلے ذکر کیا تھا کے ہمارے یہاں جو چیز یا نام نیا یا پہلے آتا وہ ایک ٹرم بن جاتا ہے جس کے بعد اس سے ملتی جلتی ہر سروس کے لیے وہی استعمال ہونے لگتا ہے بائیکیا چونکہ موٹر-سائیکل بکنگ کے نام سے پہلی سروس تھی جو اب کسی کو بھی بائیک بک کرنا ہو تو وہ کہتا ہے بائیکیا کروا لو راولاکوٹ میں بائیک بکنگ سروس کو بھی اسی ٹرم سے یعنی بائیکیا بلایا جانے لگا حالانکہ یہ بائیکیا سروس نہیں رہی بات رجسڑیشن کی تو بائیکیا سروس ایک اپلیکیشن کے ذریعے سے استعمال ہوتی ہے اگر اپلیکیشن کا استعمال کر کے راولاکوٹ میں بکنگ سروس دی جا رہی ہے تو وہ غیرقانونی ہے اور اگر کوئی بائیک پر زبانی کلامی ریٹ تہہ کرکے ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتا ہے تو وہ بائیکیا سروس نہیں بلکہ کیری ڈبہ، ٹیکسی یا رکشہ بکنگ سروس جیسا ہی ہے جیسے کیری ڈبہ یا رکشہ سروس Careem, Uber یا Indriver جیسی سروسز دے رہے ہیں جو بغیر رجسٹریشن راولاکوٹ میں ہر چوک چوراہے پر موجود ہیں.بائیکیا سروس کے حوالے سے ایک ہفتہ پہلے سب ڈویژنل مجسٹریٹ نے ایک لیٹر جاری کیا تھا کہ بدوں رجسٹریشن بائیکیا سروس چلائے جانے پر پابندی عائد کی جاتی ہے.خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروئی کی جائے گی. جمعہ کو شاید اسی حکم نامے کی خلاف ورزی پر کچھ موٹر سائیکل ضبط بھی کیے گے. قانون کا ادنیٰ سا طالب علم ہونے کی حیثیت سے میرے علم میں ہے کے پاکستان پینل کوڈ اور ٹریفک قوانین کے مطابق ٹریفک پولیس صرف چالان کاٹ سکتی ہے گاڑی یا بائیک ضبط کرنا ان کے اختیار میں نہیں نہ ہی یہ کسی کی بدتمیزی پر تشدد کر سکتی ہے بلکہ یہ اختیار عام پولیس کو ہے جو گاڑی یا بائیک ضبط کرے یا صورتحال کے مطابق ایکشن لے سکتی ہے،ممکن ہے کہ اس واقعہ کی صورتحال قدرے مختلف ہو، لیکن راولاکوٹ میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس آج ہونے والے ایکشن جس میں دیکھا جا سکتا ہے ٹریفک پولیس اہلکار خود ہی بائیک ضبط کر رہے ہیں جن کا اختیار نہیں تھا جس سے قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے اب ان بائیک والوں کو چاہیے کے وہ سب مل کر کسی اچھے قانون دان کے ذریعے اس کاروائی اور پابندی کے خلاف کارروائی کریں جس میں 100 فیصد کامیابی حاصل ہو گی اور باعزت روزگار کما سکیں گے اور عوام کو بھی سستی سواری بھی ملے گی .
ہماری انتظامیہ سے گزارش ہے کے وہ اپنے لیے گئے اقدامات پر نظرثانی کرے اور مہنگائی کے اس دور میں عوام کو سستی سہولیات فراہم کرنے کا طریقہ کار واضع کرے نا کہ بلاوجہ پابندیوں کا اطلاق کرے راولاکوٹ میں چلنے والے رکشہ سروس کے ریٹ کیری ڈبے سے بھی اوپر جا رہے ہیں ان کو بھی کنٹرول کیا جانا چاہیے

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں