سدھن ایجوکیشنل کانفرنس۔۔اور اچھوتا عمل۔۔ڈ اکٹر محمد صغیر خان

نیلی کہوڑی اپر سوار میاں….. آیا چھے چھن ناں صوبیدار میاں
جس چھڑائی ایہہ نسوار میاں…. جہیڑا قوماں ناں سردار میاں
پڑھو لا الہ الا اللہ ……
جی ہاں یہ وہی ”صوبیدار“ ہے جسے آج تاریخ کہیں بابائے پونچھ کہتی لکھتی ہے اور کبھی اسے ”پونچھ کا سرسیّد“ کہا مانا جاتا ہے۔ کرنل خان محمد خان المعروف ”صوبیدار صاحب“ ریاستی و مقامی تاریخ کا ایک اہم باب اور روشن کردار ہیں۔ اُنہوں نے جہاں علمی و انتخابی سیاست میں حصہ لیا اور ریاستی وحدت، وجودوہیت کو مسلمہ جانا وہاں معاشرتی فلاح، تعلیمی ترقی اور سماجی اصلاح کا بیڑا بھی اٹھایا۔ اس کام کو مربوط و منظم کرنے کے لئے کرنل خان محمد خان نے سدھن ایجوکیشن کانفرنس کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے اُنہوں نے علم، سادگی، محنت اور بھائی چارے کی ترغیب دی اور اس عید میں مروّج مختلف نوع کی نشستوں سے بچاؤ کی کاوش کی تو ساتھ ہی لوگوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنے کے لئے ”مٹھی آٹا سکیم“ سمیت بہت سے اقدامات اٹھائے۔ خان صاحب نے معاشرے میں رائج ”رم“ کی انتہائی قبیح رسم کا خاتمہ یوں کیا کہ ان کے بہت بعد تک عمومی و ان پڑھ لوگ ”رم“ کھانے اور ”رم کھانے والوں“ سے شدید نفرت کرتے تھے۔ بدقسمتی سے ”رم“ جیسی رسومات آج ہمارے معاشرے میں کسی اور نام اور جدید ”پیکنگ“ میں موجود ہیں ہیکن تسائل پسندی اور جہالت کے تدارک اور نشہ خوری اور رم سے گریز کے لئے خان صاحب کی جدمسلسل تاریخ کا روشن باب ہے۔
خان صاحب نے سدھن ایجوکیشن کانفرنس کے پلیٹ فارم سے تعلیم کے پھیلاؤ کے ہمہ جہتی جدوجہد کی۔ اُنہوں نے بحیثیت ”مبر اسمبلی اپنے ربط و تعلق کو بھی تعلیمی اداروں اور ذرائع رسل و رسائل کی تعمیر کے لئے استعمال کیا اور خود بھی درالعلوم پلندری ایسی عظیم درسگاہ کے قیام کو عمل میں لایا۔ علاوہ ازیں اُنہوں نے مقامی لوگوں کو برطانوی فوج میں ہونے کی طرف راغب کیا جس سے مقامی لوگوں کی معیشت بہتر ہوئی اور ان کو تعلیم و اصلاح ایسے اعمال کی متوجہ ہونے کی فرصت ملی۔ فوج میں بھرتی کے باعث مقامی لوگ جب دنیا کے دوردراز علاقوں میں گئے تو وہاں کے حالات سے اُنہوں نے بہت کچھ سیکھا اور ان کے ”وژن“ میں وسعت بھی پیدا ہوئی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب 1947ء میں مہاراجہ کی ظالمانہ شخصی حکومت کے عوام دشمن اقدامات کے خلاف پونچھ اور دوسرے علاقوں میں عوامی بغاوت کا آغاز ہوا تو فوج سے تعلق رکھنے والوں کی بڑی تعداد میدان کارِزار میں کودی اور بہادری و جرات کی نئی تاریخ رقم کی۔
کرنل خان محمد خان نے 1947ء میں مہاراجہ اور ہندوستانی فوجوں کے مقابل کشمیر کی فوج یا مجاہدین کی ترتیب اور تربیت میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ اس موقع پر اُنہوں نے ”وارکونسل“ بنائی جس کی بنیاد اور مرکز پلندری میں تھا۔ یاد رہے کہ ”وارکونسل“ ہی وہ ”فورم“ تھا جس میں 24 اکتوبر 1947ء کو کشمیر کی انقلابی مقامی حکومت کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا…… چلتے چلتے یہ بھی کہہ دینا ضروری ہے کہ 24 اکتوبر 1947ء کو بننے والی انقلابی حکومت کا ”اعلامیہ“ اپے اصل ریاست کی وحدت اور آزادی کا ”پروانہ یاترانہ“ کہلا سکتا ہے۔ ہاں یہ بھی سچ ہے کہ اس کے بعد کے کئی اقدامات پر سوال بھی اٹھ سکتا ہے اور انگلی بھی، اور ان سے اختلاف کا جمہوری و انسانی حق بھی محفوظ ہے، لیکن یہاں بات صرف کرنل خان محمد خان اور ان کی قائم کردہ سدھن ایجوکیشن کانفرنس کے تعلیمی اور سماجی اقدمات تک ہی رکھی جائے تو مناسب ہے…… اس حوالے سے سدھن ایجوکیشن کانفرنس محض ایک ”نشانی“ نہیں اثاثہ بھی ہے کہ اسی کی کاوش سے اس علاقے کو ماضی بعید میں بیشمار اعلیٰ ذہن میسر آئے جنہوں نے اس معاشرے پر اپنے دوررس اثرات مرتب کیے۔ اپنی دہائیوں کی تاریخ میں سدھن ایجوکیشن کانفرنس نے اپنا سفر جاری رکھا۔ کبھی اس کی رفتار ”کچھوے موافق“ ہوتی تو کبھی ”رتھ“ کی طرح چلی اور کبھی اس کو پہئے لگانے کی سنجیدہ کاوشیں ہوتیں۔ بہرحال ”جیسے تیسے“ یہ فعال رہی اور اس کی فعالیت کا ایک فائدہ اور ھبی ہوا کہ ”کبّے لت پرے آئی“ اور اس کی دیکھا دیکھی اور کہیں کہیں تقابل و خفگی کے جذبات کے تحت مختلف علاقوں اور قبائل میں اسی نوع کی تنظیمیں بنیں جو اپنے اپنے دائرہ کار و اثر میں ہمارے معاشرے کے لئے بہرطور سودمند ثابت ہوئیں۔
طویل تاریخ کی ”رنگارنگی“ اور ”ہمہ ہمی“ رکھنے والی یہ تنظیم گزشتہ چند برسوں سے ایک بار ”نشاۃ ثانیہ“ کے سفر پر نکلنے کی خواہش لئے آگے بڑھ رہی ہے۔ اس تنظیم نے اس دوران جہاں راولاکوٹ میں ”ایجوکیشنل کمپلیکس“ کی تعمیر کو شکل دینے کی ٹھانی ہے وہاں اہل و ضرورت مند طلباء و طالبات کی طرف سے بھی مناسب توجہ کی ہے۔ اس کے علاوہ ”Do More“ کے طور پر سدھن ایجوکیشنل کانفرنس کی ذیلی تعلیمی کمیٹی نے پروفیسر ڈاکٹر نسیم خان صاحب کی سربراہی میں ”نیاکچھ“ کرنے کا سوچا، کھوجا اور پھر 22 اگست کو اسے تعلیمی کانفرنس و ازاں بعد ادبی سرگرمی کے طور پر معاشرے کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔ اس عمل میں ڈاکٹر نسیم کے نادیدہ معاونین کون ہیں؟یہ تو وہی جانتے ہوں گے لیکن اُنہوں نے ڈاکٹر سلیم صاحب، ڈاکٹر رحیم صاحب، ڈاکٹر رفیق صاحب، ڈاکٹر رؤف صاحب، عابد صدیق، وسیم اعظم اور جامعہ پونچھ کے دیگر کولیگز اور کیپٹن حسین خان شہید پوسٹ گریجویٹ کالج راولاکوٹ کے تعاون سے واقعی ”اچھوتا“ قدم اٹھایا ہے جو بلاشبہ ایک مثبت روایت کا آغاز ہے۔ اس نوع کی کانفرنسیں، اجتماعات اور اکٹھ لوگوں کے تال میل اور تنظیم کے متحرک کا ایک اہم ذریعہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیمی کانفرنس اور اس سے جڑی دوسری سرگرمیوں پر ڈاکٹر نسیم اور ان کے متعلقین و معاونین کو بہت زور سے شاباش کہنے کو دل کرتا ہے کہ چلئے مدت بعد سہی ایک بڑی ایجوکیشنل کانفرنس کی مثبت تعلیمی سرگرمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ جو اپنے اندر ”بہت کچھ“ کرنے کی امید بھی ہے اور اظہاریہ اور پوری تنظیم کے لئے ”ہلاشیری“ کا باعث بھی ہے۔ دعا ہے کہ نیک جذبوں اور مثبت سوچ کے عوامی اصلاح اورفلاح کا یہ عمل جاری رہے اور بلاتخصیص، پسند و ناپسند سے ماورا ”بہبود“ کا پہیہ لچتا رہے کہ حرکت زندگی کی علامت ہے اور ”زندگی“ اور ”مثبت“ اور ”اثبات“ سے رنگ پاتی ہے اور یہی رنگ خوبصورتی کا ذریعہ بنتے ہیں۔
چلتے چلتے یہ کہ جہاں سدھن ایجوکیشنل کانفرنس اور اس کا ایجوکیشنل کمپلیکس تعریف و تعاون کا متقاضی ہے وجہاں استادان محترم ڈاکٹر نسیم و ڈاکٹر رحیم یعنی ”’ٹیم نسیم رحیم“ کی تعلیمی کانفرنس اور دوسری سرگرمیاں اور اس سب کے لئے حسین شہید کالج راولاکوٹ کی معاونت بھی قابل لحاظ فعل ہے جس کو سراہا جانا ضروری ہے کہ کچھ اداروں و افراد کی فعالیت پورے معاشرے میں متحرک و تحریک کا ذریعہ بن سکتی ہے اور یوں ہمارا ”جامدپنا“ دور بھی ہو سکتا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں