سردار تنویر الیاس امید کی کرن … نثار احمدکیانی

آزادکشمیر میں حکومت گرانے کے تاک میں بیٹھی تین جماعتی بیس رکنی اپوزیشن کووزیراعظم آزادحکومت ریاست جموں کشمیر سردار تنویر الیاس خان نے آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا ہے کہ آزادکشمیر میں ہمیں چھیڑا گیا تو بھیانک نتائج سامنے آئیں گے، آزادکشمیر میں عدم اعتماد لانے کیلئے ہمارے لوگ توڑنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہونے دیں گے، ہمارے پاس عوامی مینڈیٹ ہے لیکن ہمیں ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی گئی،آزادکشمیر میں سرگوشیاں کرنے والے اپنی عادت سے مجبور ہیں ،،عدم اعتماد کے ذریعے ہماری حکومت گرانے کی کوششوں کا مقبوضہ کشمیر کی تحریک پر برا اثر پڑے گا،پاکستان تحریک انصاف کی حکومت جمہوریت پر یقین رکھتی ہے ،وزیر اعظم آزادکشمیر کا کہنا تھا کہ 32 سالوں سے آزادکشمیر میں بلدباتی انتخابات نہیں کرائے جا رہے تھے اور دنیا وجوہات پوچھ رہی تھی،آزاد کشمیر کی سیاسی لیڈرشپ اس مرتبہ بھی بلدیاتی انتخابات نہیں کرانا چاہتی تھی اور ہمیں بلیک میل کر کے الیکشن رکوانے کی کوشش کی گئی،آزادکشمیر کے لوگوں نے خود الیکشن کرائے پارٹیوں میں اختلاف رائے ہوتا ہے اور اسے خندہ پیشانی سے قبول کیا جانا چاہیے ، میں نے واضح کیا کہ اگر آزادکشمیر میں وفاق نے دباؤ ڈال کر چیزیں تبدیل کرنے کی کوشش کی تو ہم پھر میدان میں ہونگے نہ ہم ڈرتے ہیں نہ ہی ہمیں ڈرایا جا سکتا ہے وفاق نے اگر یہاں گڑ بڑ کی تو پھر دما دم مست قلندر ہو گا ،مغرب میں ایک ووٹ کی اکثریت سے ٹرم پوری کرتے ہیں آزادکشمیر میں تھالی کا بینگن کسی کو نہیں بننے دیں گے ،پارٹی کے اندر رائے میں اختلاف ہوتا ہے یہی جمہوریت کا حسن ہے ۔آزادکشمیرقانون ساز اسمبلی میں کل ممبران 53 ہیں جن میں تحریک انصاف کے 32 اراکین ہیں جبکہ پیپلزپارٹی کے 12 اراکین اور مسلم لیگ ن کے سات اراکین مسلم کانفرنس کا ایک اور جموں و کشمیر پیپلز پارٹی کا ایک رکن ہیں۔ قانون ساز اسمبلی میں وزیراعظم کے انتخاب کے لیے نامزد امیدوار کو 53 کے ایوان میں سے 27 ممبران کے ووٹ درکار ہوتے ہیں،رواں سال اپریل میں تحریک انصاف نے ہی تحریک انصاف کی حکومت گرا کر تحریک انصاف کی حکومت قائم کی تھی لیکن اس مرتبہ عدم اعتماد کی جو تیاری ہورہی ہے وہ متحدہ اپوزیشن کی تین جماعتوں کے ساتھ تحریک انصاف کے ناراض اراکین شامل ہیں تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کا کہنا ہے ہم نے ایک مشکل انتخابات سے گزر کر اسمبلی تک پہنچے ہیں عوام سے جو وعدے کیے وہ پورے نہیں ہورہے تعمیر و ترقی نہ ہونے کے باعث بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ لوگوں میں جگ ہنسائی ہورہی ہے اس کے سواء کوئی چارہ نہیں کہ وزیر اعظم کو تبدیل کیا جائے اس وقت تحریک انصاف آزاد کشمیر میں تین گروپوں میں تقسیم ہوچکی ہے ایک گروپ صدر بیرسٹر سلطان محمود دوسراا سپیکر اسمبلی چوہدری انوارالحق اور تیسرا وزیر اعظم سردار تنویر الیاس کی قیادت میں قائم ہے اسپیکر اسمبلی انوار الحق ان ہاوس تبدیلی کے لیے کوششوں کے لیے ہاتھ پاوں مار رہے ہیں کہ انہیں وزیر اعظم بنایا جائے۔ دوسری جانب صدر ریاست بیرسٹر سلطان انوارالحق کو روکنے کیلئے سرگرم ہیں کہ انوارالحق کا راستہ روکا جائے .تحریک انصاف کے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی بازگشت چل رہی ہے ۔یقینا یہ بات لمحہ فکریہ ہے اوراضطراب کا باعث ہے کہ آزادی کے بیس کیمپ میں اس وقت اصل مقاصد کو فراموش کر کے ’’ کرسی کرسی ‘‘ کا کھیل ’’ نیلامی ‘‘ کے ذریعے کھیلا جا رہا ہے ۔فی الوقت آزادکشمیر میں سیاسی جماعتوں کی اکثریت نظریاتی سیاست کے بجائے مفادات کی سیاست میں اُلجھ چُکی ہے جس کے نتیجہ میں پارٹیاں بدلنے اور فارورڈ بلاک بنانے کے رُجحانات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اِن بدلتے رُجحانات نے فکری انارکی کو جنم دیا ہے اور بحیثیت مجموعی قومی نصبُ العین اور اہداف پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ آزاد کشمیر کی سیاسی تاریخ کے ارتقا کے تناظر میں اِس بات کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ 1985ء تک آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں کے قائدین بڑی حد تک نظریاتی سیاست کے زیراثر رہے۔ اگر کوئی سیاسی جماعت یا شخصیت، اپنے نظریات سے بے وفائی کرنے کے بعد میدانِ سیاست میں اُتری تو وہ بُری طرح ناکام ہو گئی لیکن وقت گزرنے کیساتھ ساتھ نظریات کے بجائے ذاتی مفادات اجتماعی مفادات پر غالب آتے گئے اور محض حصُولِ اقتدار ہی کو مقصُود بالذات بنا لیا گیا۔حقیقت یہ ہے کہ سردار محمد عبدالقیوم خان نے اپنے دورِ حکومت میں تحمل، برداشت، رواداری، اعلیٰ ظرفی اور دانش و بصیرت سے کام لیکر جماعتی اتحاد کو قائم رکھا لیکن اُن کے بعد جو لوگ سیاسی کھیل کھیلنے کیلئے میدان میں اُترے۔ اُنہوں نے کوتاہ اندیشی اور متلون مزاجی کا مظاہرہ کرتے اپنے پیش رو رہنمائوں کی روایات سے انحراف کیا۔ اِس اکھاڑ پچھاڑ سے تحریک آزادی کشمیر کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آزاد کشمیر میں نظریاتی سیاست دم توڑ گئی۔وزیراعظم آزادحکومت ریاست جموں کشمیر سردار تنویر الیاس خان کا کہنا بالکل درست ہے کہ آزادکشمیر میں اقتدار کے حصول کےلئےسرگوشیاں کرنے والے اپنی عادت سے مجبور ہیں۔ حکومت گرانے کی کوششوں کا مقبوضہ کشمیر کی تحریک پر یقینی طور پربرا اثر پڑے گا، مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر میں لاکھوں نوجوانوں نے اپنے لہُو سے آزادیٔ کشمیر کا چراغ روشن کر رکھا ہے، مقبوضہ وادی کا ہر پیرو جواں مکار دشمن کی حکمتِ عملی کے سامنے نہایت استقامت سے آزادی کے نصبُ العین سے وابستہ ہے۔ قحط الرجال کے اِس دور میں آزادکشمیر کی عوام کو سردار تنویر الیاس جیسی قیادت میسر آ ئی ہے جو اپنے افکار و نظریات میں مستحکم، پُختہ اور دانِش و بصیرت سے بہرہ ور ہیں۔ ان کو کام کا موقع ملنا چاہیے ، بیس کیمپ کی مضبوط اور مستحکم حکومت ہی جدوجہد آزادی کشمیر میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے ۔ آزادکشمیر میںبار بار جماعتیں بدلنے والی قیاد ت کا ٹریک ریکارڈ اچھا نہیں ہے ماضی گواہ ہے کہ وہ خاطر خواہ نتائج نہ دے سکے تھے یہ ایک تلخ حقیقت ہے ۔ آزادکشمیر میں اپنی جماعت کی کامیابی سے لیکر حکومت سازی میں سردار تنویر الیاس خان کی حکمت عملی ہی بارآور ثابت ہوئی اور مستقبل میں بھی ان کے اقدامات بہترین نتائج پر منتج ہوں گے ۔ سردار تنویر الیاس اپنی ذہانت قابلیت صلاحیت اور محنت کی بدولت ترقی اور کامیابی کا سفر طے کرتے ہوئے یہاں تک پہنچے ہیں۔ہماری دانست کے مطابق وزیراعظم آزاد کشمیر کے منصب پربراجمان سردار تنویر الیاس کی جگہ کوئی ایسی متحرک اور وژنری شخصیت موجود نہیںجو کشمیر کی ترقی اور خوشحالی کی راہ ہموار کرے۔ آزاد کشمیر کی ترقی و استحکام مقبوضہ کشمیر کی آزادی کا پیش خیمہ ہو گا، ایک خوشحال آزاد کشمیر ہندوستانی مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے اہم ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں