سولی ٹنگی لو….. ڈ اکٹر محمد صغیر خان

یہ جانے زمینی اتصال و مماثلت کا کمال تھا یا لسانی و تہذیبی ہم آہنگی کی تاثیر، مگر یہ حقیقت ہے کہ کوہ مری اور کشمیر کا وہ حصہ جہاں پہاڑی زبان و تہذیب کا چلن صدیوں سے جاری ہے، میں ایک گہرا گاڑھا تعلق مدت مدید سے موجود رہا ہے۔ یہ ربط ضبط آج بھی کسی نہ کسی صورت میں نمو پا رہا ہے، اس کی ایک نئی شکل پہاڑی زبان و ادب کی ترویج و ترقی کی خواہش کا جامہ پہنے سامنے آئی ہے۔ مری اور نواحات میں بسنے والے ”پہاڑیوں“ میں سے راشد عباسی اپنے کچھ احباب سمیت مدت سے لنگوٹ کسے اپنی ماں بولی کی توقیر و ترقی کے لئے کوشاں ہیں اور یوں دریائے جہلم کے اس آر بسنے والوں کے ساتھ دھیرے دھیرے اس کا سمبندھ سا بنتا جا رہا ہے کہ راشد عباسی ایسی سنجیدہ کاوش نہ سہی مگر پہاڑی کے فروغ کی خواہش بہرحال یہاں بھی شدت سے پائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ”مظلوموں“ کے درمیان ایک ان کہے اتحاد کا بننا ایک فطری امر ہے۔ یہ اسی فطری اتحاد کا ثمر ہے کہ وہاں سے ”سولی ٹنگی لو“ کا لشکارا یہاں آن پہنچا ہے۔ ”سولی ٹنگی لو“ اپنے اصل میں ایک سوہنی چنگی ہے، جو پہاڑی زبان و ادب کے چمن کو معطر کرنے کا سبب ہوتی ہے۔
راشد عباسی ایک سنجیدہ، فہم و صاحب درک شخص ہیں، یہی وجہ ہے کہ پہاڑی زبان و ادب کے فروغ کے لئے ان کی کاوشیں محض ”ٹھٹھا مخول“ ہرگز نہیں ہیں بلکہ وہ لسانی محبت اور انسانی محنت کا وہ مرکب ہیں جس کا ہر عنصر اپنی جگہ بے مثال ہے۔ راشد عباسی جہاں تقریبات، مشاعروں اور سوشل میڈیا کے ذریعے پہاڑی کے فروغ کے لئے کوشاں ہیں وہاں اُنہوں نے پہاڑی ادبی جریدے ”رنتن“ کے ذریعے بھی ابرآلود مطلع کو شفافیت کی طرف لے جانے کی بے حد مقر کاوش کی ہے۔ اس کے علاوہ راشد عباسی نے تراجم کے ذریعے بھی پہاڑی لکھتوں کو دوسروں تک پہنچانے کی سبیل کی ہے۔ یوں ان کی ہمہ جہت محنت بلکہ مشقت قابل لحاظ بھی ہے اور تقلید بھی۔
”سولی ٹنگی لو“ ان کا اوّلین پہاڑی شعری مجموعہ ہے۔ 128 صفحات پر یہ مجموعہ مختلف اصناف پر مشتمل ہے۔ ”انجمن فروغ پہاڑی زبان“ کے زیرانصرام شائع ہونے والی اس تخلیق کا انتساب علامہ مضطر عباسی اور پروفیسر اشفاق حکیم عباسی کے نام ہے۔ ابتداء میں پروفیسر اشفاق کلیم عباسی کی دیباچہ نما تحریر ”راشد عباسی…… ہک آدرش وادی“ ہے۔ یہ جامع تحریر شاعر و تخلیق کا بھرپور تجزیہ ہے۔ ازاں بعد یاسر کیانی نے ”کالے ورقے نی لو“ دکھائی سجھائی ہے۔ یہ تحریر بھی اپنی جگہ کمال ہے۔ اب راشد عباسی ”کہہ دساں میں کون“ کے سفر پر نکل کھڑا ہو اہے۔ اس سفر میں وہ پہاڑی اور پہاڑیوں کو ساتھ لئے چلتا دور تک نکل گیا ہے۔ ابھی اس کاسفر جاری ہے، صد شکر کہ وہ تھکا ہانپا کانپا نہیں بلکہ اس کا ”ساہ“ مزید ”پکتا“ جا رہا ہے یہی امر اس کے ہونے بلکہ خاص ہونے کی دلیل ہے۔
اب ”حمد“ ہے، جس میں راشد لکھتا ہے۔
ازلاں سی او قائم دائم اوہ قادر، اوہ اعلیٰ
اوے عزتاں قدراں دیناں، اچیاں شاناں والا
راشد ”نعت“ یوں کہتا ہے
وضو کری تے، عطر ملی تے، اتھروں نل اکھ تہوئیے
رب سی فر توفیقاں منگئیے، نازل ویہہ کوئی نعت
”سلام“ کہیے راشد گویا ہوتا ہے
او رت نیں نال لیخی گا
”بقا“ ناں ”فلسفہ“ حسینؓ
اب غزل کی باری ہے
ہر کوئی لوئی ناں خاری فر وی اساں نی سنگی لو
اساں ناں سر وی نیزے چڑھی، سولی ٹنگی لو
چھوٹی بحر کی غزل انداز کچھ یوں ہے
راتیں کالیاں اُپرا
ہڈیاں بالیاں اُپرا
پھل ساہڑے کیاں سکے
نیلیاں ٹاہلیاں اُپرا
یا پھر
نانہہ پچھو دلگیراں کی
اب لغی تقدیراں کی
راشد نے اکثر غزلیں چھوٹی بحر میں کہی ہیں۔ لگتا ہے کہ یہ فنی سانچہ ان کے ”چپ چپیتے“ مزاج کی زیادہ قریب ہے
رستہ دسنیں والے آپوں
اپنی سرت گمائی مرشد
٭٭
ہک تہاڑے نل لائیاں
لج رکھیں او سائیاں
٭٭
پھبتی پھبتی میں وی، دل وی
یاداں ناں او چہکھڑ چہلیا
٭٭
چپ چپیتے لٹنے رہیسن
کد تک ماہتڑ دکھڑے سہسن
راشد یقینا ایک مختلف کردار اور منفرد شخص ہے اور اسے اپنے ہونے کا ادراک و احساس بھی ہے، اسی لئے وہ کہتا ہے
جگ سی بکھرا سنگیو میں
سولی ٹنگیا سنگیو میں
آپو لٹی پٹی تے
پاسے بنڈنا سنگیو میں
راشد بدلتے ماحول و حالات کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے:
مدتاں بعد گراں جلنا اس
بہوں کی پچھسن رستے سنگییا
لہجے ٹھڈے ٹھارا اے راشد
گلسی برف ایہہ کسرے سنگیا
راشد جانتا ہے کہ اس دنیا میں سچ کی قیمت ”تنہائی“ کے سوا کچھ نہیں
سچ آخی تے رہی گیاں
راشد کہل مکہلا میں
راشد کی غزل میں ترنم بھی کارفرما ہے
کھیخسن چالے، گلاں گلاں
دنیا والے گلاں، گلاں
سجناں چپ ناں روزہ رکھیا
آل دوالے گلاں گلاں
راشدجانتا ہے کہ روشنی، امید کا نام ہے، لہٰذا وہ کہتا ہے کہ
لوئی نے اندر میدتے خشیاں
انہیارے وچ اکا دکھ آ
راشد جو بنیادی طور پر محبت کا شاعر ہے، نفرتوں کے پھیلنے کے تمام اسباب سے بھی واقف ہے۔
ہک مسیت سی بستی وچ
فرقہ نا تہ کوئی چغڑا سا
راشد کفرا ن نعمت کے اثرات کا شناسا ہے
نور سا ددھ تے بہوں بے قدراں والا سا
ہن پیراں وچ جائی جائی رکھیا وہا
چھائی نی ٹھیکرا ہے اس دنیا داری کی
پیہناں کولا نکھیڑی پہائی رکھیا وہا
راشد کی ایک خوبصورت غزل انداز یوں بھی ہے۔
سنگی ساتھی کھیڑ تماشے ہونی سی جد بھلے بھلے
خورے کہہ ہوئی گئے اوہ میلے خورے کہہ ہوئی گے اورے
معنی خیز غزلوں کے علاوہ راشد نے بامعنی قطعات بھی کہے ہیں
دکھا! مار مکاسیں
لگناں دندے لاسیں
جگے نے کولا راشد
کد تک تہوخے کھاسیں
راشد نے علامہ اقبال، افتخار عارف، باقی صدیقی، پروین شاکر اور یوسف حسن سمیت معروف شعراء کے اشعار کا منظوم پہاڑی ترجمہ بھی کیا ہے جو ایک مشکل مگر خوش آئند امر ہے۔ کتاب کا آخری صفحہ ”فردیات“ کے لئے مختص ہے۔ ان کا ایک خوبصورت شعر ان کی محنت، جدوجہد اور اپنی مآبولی سے محبت کا خوبصورت اظہاریہ ہے۔
کد تک راتیں کولا ڈریے
دل بالی تے لونا نہیر کریے؟
مجموعی طور پر ”سولی ٹنگی لو“ پہاڑی ادب میں ایک بامعنی و باوقار اضافہ ہے۔ راشد کی غزل، موضوع و فن ہر دو لحاظ سے قابل ستائش ہے۔ اُنہوں نے جہاں سنجیدہ موضوعات کا انتخاب کیا وہاں سارے فنی لوازمے بھی پوری مہارت سے برتے۔ ”سولی ٹنگی لو“ کا مطالعہ یہ ثابت کرتا ہے کہ راشد کی غزل ہر لحاظ سے مکمل ہے اور یہ کہ پہاڑی زبان ”غزل“ کہنے کی تمام ضرورتیں اور صلاحیتیں اپنے اندر رکھتی ہے۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم پہاڑی زبان و ادب کی تخلیق و ترویج کے لئے سنجیدگی اور فہمیدگی کو رہبر کریں اور راشد ایسوں کی ہمراہی میں اپنا سفر جاری رکھیں تاکہ عزت و وقار کی منزل تک رسائی ممکن ہو سکے۔
راشد عباسی ایک مستقل مزاج، بردبار اور دھیمی شخصیت کے مالک ہیں نیز ان کا مطالعہ و فہم بھی قابل لحاظ ہے یہی وجہ ہے کہ ”سولی ٹنگی لو“ ان کی شخصیت کا عکس بھی ہے اور پہاڑی زبان سے ان کی بے پناہ محبت کا نقش بھی۔ تخلیقی مواد اور فنی رموز کے حوالے سے ”سولی ٹنگی لو“ آلے دوالے کی کسی بھی زبان کی اج کی کسی شعری تصنیف کے برابری رکھی جا سکتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ کاوش پہاڑی زبان و ادب کے نسبتاً تاریک یا کم روشن ایوان کو جگمگانے کا ”یارا“ رکھتی ہے کہ یہ محبت و محنت سے سینچی گئی ہے۔ اور یہ دونوں عناصر اپنے اندر بے پناہ طاقت رکھتے ہیں۔ اسی طرح راشد کا راسخ نقطہ ہائے نظر بھی اس کے کہیے کو توقیر بخشنے کا ایک ذریعہ ہے اور یہ سب مل ملاکر پہاڑی زبان و ادب کی ثروت مندی و ثمرباری کا معقول سبب ثابت ہو گا۔ ویسے اعلی مقاصد کے لئے سولی لٹکتا وجود ہو یا دار پہ جھولتی روشنی، ہر ایک کا نصیب ہمیشگی و پائندگی ہوتی ہے، جو ایک بے حد خوش آئند امر ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں