سیاسی توازن اور گڈ گورننس …سردار پرویز محمود

ہمارے ایک دوست اس بات پر زور دے رہے تھے کہ پوتن بہت خطرناک لیڈر ہے۔ ورلڈ امن کے لیے خطرہ ہے اور اس کو اپنی غلطی کی سزا ملے گی۔ روس یوکرین کی جنگ ہار جاے گا۔ ویسٹ کی طاقت کا اس کو اندازہ نہیں تھا۔ اور یہ کہ اب روس پھنس کہ رہ گیا ہے۔ پہلے تو میں نے کہا کہ یہ بات تو ویسٹرن میڈیا کا بیانیہ ہے۔ ہوسکتا ہے ایسا ہی ہو۔ بولے مگر آپ کا اپنا کیا خیال ہے۔ میں نے عرض کی کہ مجھے ایک ایسی جنگ پر واقعی تشویش ہے جو یورپ کے اندر لڑی جارہی ہے۔ اگر میرا بس چلے تو یوکرین کے صدر کو پھانسی دے دوں۔ جنگ کے سب سے بڑے ذمہ دار وہ مٹھی بھر عناصر ہوتے ہیں جو اپنے خطے اور اپنے ملک میں جنگ اور بدامنی لانے کا موجب ہوتے ہیں۔ جب مزاحمت کار اپنی شجاعت اور بہادری پر فخر کرنے کی خاطر جنگ اور بدامنی کو اپنی سرزمین پر لے آتے ہیں تو وہ اپنے ساتھ رہنے والوں کو پتھر کے دور میں لے جانے والی سازش کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ آج کی جنگ تلوار اور خنجر سے نہیں لڑی جاتی۔ بلکہ رائفل سے بھی نہیں لٖڑی جاتی۔اور اب تو یہ جنگ میزائل اور جدید ترین طیاروں کے بجاے سائیبر سپیس پر لڑی جاتی ہے۔ اور سیلیکٹیو معاشی پابندیاں مارڈن وار فئیر کا سب سے بڑا ہتھیار ہیں۔ ہم نے عرض کی ایک چھوٹے سے ملک اور چھوٹی سی معیشت کے رہنما نے اپنے ملک کو میدان جنگ بننے سے بچانا تھا۔ اور وہ ایسا نہیں کرسکا۔ اس لیڈر کی عقل کہاں چلی گئی تھی کہ اس نے اپنے ملک کو سپر پاورز کا میدان جنگ بنا دیا۔
لاکھوں لوگوں کو ملک چھوڑنا پڑ گیا ہے۔ اور یہ جو پناہ گزین جنگ کے وجہ سے اپنا ملک چھوڑ کہ مغربی ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ ہم نے انکی حالت زار دیکھی ہوئی ہے۔چاہے وہ مغربی ممالک جانے کے لیے کیمپوں میں پڑے ہوے ہوں یا دوسری اور تیسری نسل کی صورت میں مغربی ممالک میں آباد ہوں۔ میں نے عرض کی آپ نے افغاستان کو تو دیکھا ہوگا۔ ائیرپورٹ کی رن وے پر ہزاروں لوگ جہاز کے ساتھ یوں بھاگ رہے تھے جیسے سوزوکی ویگن کے ساتھ بھاگ رہے ہوں۔ جن خطوں میں جنگ ہوئی ہے کبھی وہاں جانے کا موقع مل جاے ان لوگوں کو جن کے خیال میں مزاحمت کار اور ووریئیر اور جنگجو ہونا سب سے قابل فخر بات ہے۔تو شاید انہیں اس بات کا ادرا ک ہوجاے کہ آج کے جدید دور میں مزاحمت کاروں اور جنگجو لوگوں کو مارڈن وار فئیر میں محض ادنیٰ جنگی اوزار کے طور پر استعال کیا جاتا ہے۔ مسلح جدوجہد کا فارمیٹ کب کا بدل چکا ہے۔ ادنیٰ جنگی اوزار کے طور پر استعمال ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان مزاحمت کاروں کو کچھ علم نہیں ہوتا کہ انکی اس مزاحمت سے کس کو فائدہ پہنچ رہا ہے اور کس کو نقصان؟ اور وہ مزاحمت کار پاور سٹرگل میں کس قدر بری طرح استعمال ہورہے ہیں۔کاش انہیں معلوم ہوکہ انکی اس ساری کاوش سے ان عناصر کو فائدہ پہنچ گیا ہے جنھیں وہ دیکھنا بھی پسند نہ کریں۔ جو انکے استحصال کے واقعی ذمہ دار ہیں۔ لوگوں کے کسی گروپ، کسی قبیلے کی کچھ سٹرانگ سائیڈز ہوتی ہیں اور کچھ کمزوریاں ہوتی ہیں۔ اصل شعور یہ ہے کہ اپنی سٹرانگ سائیڈز اور اپنی کمزوریوں کو پہچانا جاے اور ایسے پلے اوٹ میں نہ پھنسا جاے جہاں آپ کا استعمال بہت سستا ہو جاے۔
ان سارے ممالک پر ایک نظر دوڑائیے جو میدان جنگ بنے ہیں۔افغا نستان، ایراق، لیبیا، شام۔ ان ممالک میں جاکر ان ممالک کی تباہی اور بربادی دیکھیے۔ ان ممالک کے لوگوں سے ملیے۔ ہم تو ملیں ہیں ان ممالک کے باشندوں سے جو اپنے آپ کو شروع شروع میں خوش قسمت ترین سمجھتے ہیں کہ مغربی ممالک نے پناہ دے دی ہے۔ ہم نے انکی دوسری اور تیسری نسل کو بھی دیکھا ہے۔ ہم پے بھی میڈیا اور ذرائیع ابلاغ کا گلوبل کوڈ آ ف ایتھیکس لاگو ہوتا ہے۔ اتنا بتا دینا کافی ہے۔
ذرا سوچیے تو اگر جنگ نیویارک میں لڑی جاے تو امریکہ کا کیا حال ہونے لگ جاے۔ اگر جنگ لندن میں لڑی جاے تو اس انفرا سٹرکچر کا کیا حال بنے جسے دیکھنے دنیا بھر سے ٹورسٹ جاتے ہیں۔ اگر جنگ بیجنگ میں لڑی جاے تو کیا بنے شہر کے انفراسٹرکچر کا۔اور اگر جنگ دبئی میں لڑی جاے تو کیا تباہی آے ان سکائی سکریپرز پر۔ ہم بھی باشعور ہیں۔ یہ ہمارا خیال ہے۔جدید دنیا میں شعور کی کیا ڈیفی نیشن ہے؟ اس بات پر بھی بڑا کنفیوژن ہوگا۔کچھ عشروں بعد ہمیں احساس ہونے لگے کہ ہم جسے شعور سمجھتے تھے وہ کچھ او ر تھا۔تو کتنا تعاسف اور ملال ہوگا ہمیں۔ تاریخ کے ان ادوار میں جب جنگ تلوار سے لڑی جاتی تھی تب بستی یا شہر کی کی آبادی سینکڑوں یا ہزاروں میں تھی، ذرایع ابلاغ بہت محدود تھے۔ تب جنگ یا مزاحمت کی ڈائنامکس قطعاً مختلف تھیں َ۔
میں نے زندگی کے بائیس برس ترقی یافتہ ترین دنیا میں گزارے ہیں۔ اس ترقی یافتہ دنیا میں جہاں تازہ ہوا میں سانس لینے کا بھی بل آتا ہے۔لیکن ان لوگوں نے ایک بات سیکھ لی ہے۔ قانون شکنی کی سزا اٹل ہے۔ اور یہ کہ جنگ و جدل اور انتشار کو اپنی سرحدوں سے دور رکھنا ہے۔ چاہے وہ جمہوریت ہو۔ یا عرب ممالک کی آمریت ہو۔ قانون شکنی کی سزا اٹل ہے۔
یہ بات درست ہے کہ عوا م کوجب اپنے معیار زندگی اور رہن سہن پر کمپرومائیز کرنا پڑ جاے تب نچلے طبقے کا صبر کا امتحان سب سے پہلے شروع ہوتا ہے۔عوام لمبا عرصہ بات یاد رکھنے کی عادی نہیں ہوتے۔ عوام کے خیال میں حکومت وقت نے ان کا جینا دوبھر کردیا ہوتا ہے۔حکومت وقت کا قصور یہ ہوتا ہے کہ وہ اقتدار میں ہوتی ہے۔اپوزیشن کوئی حربہ جانے نہیں دیتی کہ حکومت وقت کی گرفت اقتدار پر کمزور ہوجاے۔ یہ ترقی پذیر معاشرے کی جمہوریت کے بڑے ڈرا بیکس ہیں۔کبھی کبھی استحکام اور خوشحالی ایک خواب لگنے لگتے ہیں۔ ویسٹ کو ہماری جمہوریت یا آمریت سے کوئی مطلب ہے کیا؟ کمزور جمہوریت کو کنفیوز کرنا اور پاور مینوور کرنا آسان ہوتا ہوگا۔ عرب ممالک کی آمریت سے ویسٹ کو کوئی خاص مسلہ نہیں ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں