عقابی تاریخ….کبیر خان

ہم توہّم پرست نہیں ہیں مگر گھر سے باہرنکلتے ہی، خواہ اپنا سمجھ کر منڈیر پر کاگا بول جائے ،بیگانہ مال جان کر بِلّی رستہ کاٹ لے یا بے سبب و بلا اشتعال بائیں آنکھ پھڑک پھڑک جائے تو ہم اٹک ٹھٹک جاتے ہیں ۔ لیکن جب کبھی خود ہمیں اُچھّو اُچھوانی یاکسی دستیاب قرابت دار کو موقع پرمیٹھی چھینک آ جائے توہم باقاعدہ ہراساں ہو ہو جاتے ہیں ۔ پھرفرضی پِیڑ قولنج میں مبتلا ہو کر شام تلک گھر میں دبک لیتے ہیں ۔۔۔۔۔ میں سوُل موُئی کہ بِیلے۔
پیشہ ور ہوائی آدمی ہونے کے ناتے ہم شاہین خصلت دانشور اور صحافی سردارمحمد اسحاق خان اور اُن کے ہفت روزہ ’’عقاب‘‘ کے مداح اور قریبی دوست جانے جاتے تھے۔ اور تھے بھی۔ اور ہیں بھی۔ لیکن جب عقاب سردار صاحب کی طاقتِ پرواز سے نبھا نہ کر سکا اور ایک دن سرِ عام ’’پوٹےبھار‘‘گر پڑا تو سردار صاحب اصلاح معاشرہ اور ’’معاصرہا ‘‘کادونقاطی اصلاحی پروگرام لے کر پاپیادہ نکل کھڑے ہو ئے۔ ہم راولاکوٹ بازار سے ضلعی ہیڈکوارٹر تک تو اُن کا ساتھ دیتے رہے لیکن جب یہ دیکھا کہ ہم اُن کی آئیڈل کروُزنگ اسپیڈ سے بھی نبھا نہیں کر سکتے توانبوہِ کبیر سے سرک کر الگ ہو لئے۔وہ کیا کہتے ہیں ۔۔۔۔
اور بھی دُکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
ہم پر ایک بھرے پُرے خاندان کی کفالت بھی ایک عرصہ سے فرض چلی آرہی تھی۔چنانچہ چار پیسے کمانے کے لئے دوسال کے لئے ہم متحدہ عرب امارات چلے گئے ۔ اور ہمارے دو سال تین دہائیوں کے بعد بھی پورے نہ ہوئے۔ اس عرصہِ رائیگاں میں ہم جب بھی وطن لوٹے، سردار صاحب کی عدیم الفرصتی کے باعث اُن سے ملاقات نہ ہو سکی۔ تاہم عزیزی ڈاکٹر صغیر خان ہمیں سردار صاحب کی مسلسل عدم خیریت سے آگاہ رکھتے رہے ۔
جھپٹنا ، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
وہ اصلاح معاشرہ کے دائمی پروگرام کی اساس پرریاستی اسمبلی کے انتخابات (میں) بھی لڑتے بھِڑتے رہے۔ مار کوُٹ میں ہار جیت تو ہوتی نہیں ۔ چند دنوں کے بعد آپی آپ ’’پِڑ‘‘برابری پر ٹوٹ چھوُٹ جاتا ہے ۔ متحارب اک دوجے کا گریبان ہاتھ کی استری سے تہہ کر کے ’’سانبھتے‘‘ہوکر گھروں کو لوٹ جاتے ہیں ۔خواہی نخواہی وہ بھی علاقہ کی اسی روایت پر عمل کرتے رہے۔
سردار اسحاق خان سے قرابت کے باوجود ہم اُن کی کوئی بھی خو خصلت نہ اپنا پائے۔۔۔۔ سوائے چھینکنے کی الرجی کے۔ جو پیہم علاج معالجہ اور دھاگہ تعویذ سے معقول حد تک کم تو ہوئی، ختم نہیں ۔ پینتیس سال کے بعد،اب بھی ہم کسی رومال بردار کو دیکھ لیں تو ناک میں ’’چئیں مئیں‘‘سی لگ جاتی ہے۔ چنانچہ کوشش ہوتی ہے کہ کسی ایسی تقریب میں نہ جائیں جہاں ڈریس کوڈ میں تھری پیس سوٹ یا واسکوٹ لازم ہو۔ (ہم سوٹ کے مخالف نہیں لیکن ہماری اُس آرائشی رومال سے نہیں بنتی جو کوٹ یا واسکوٹ کی جیب سے بلا وجہ چھلک رہا ہوتا ہے۔
آج ، میٹھی چھینک آوے،عزیزی قمر رحیم نے فون پر خوشخبری سنائی کہ سردار اسحاق خان جو تاریخ بقلم خود رقم کر رہے تھے، مکمل ہو گئی ہے ۔ ہمیں اپنی سماعت پر یقین نہ آیا۔ مگر خوشگوار حیرت سے ہمیں فوراً چھ چھینکیں کم و بیش اُسی طرح آئیں جس طرح آٹومیٹک برین گن سے ریپِڈ فائر۔ اور سب سے بڑا دھماکہ تب ہوا جب قمر نے یہ اطلاع دی کہ مسوّدہ پنجاب یونیورسٹی کے کسی پروفیسر کو دیا جا چکا ہے ، جواس کا دیباچہ یا پیش لفظ لکھیں گے۔
بخدا آج ہم اُتنے ہی خوش ہیں جتنے سردار اسحاق کی اکلوتی بیٹی کی شادی کی خبر سُن کر ہوئے تھے۔ جی چاہتا ہے کہ سردار صاحب کے وہیڑے میں کھڑے ہو کر ’’گولے پھٹالیں‘‘ ، وہ بھی ریپڈ فائر میں ۔ اور یونہی نہیں ، کہیں سے ہاتھ لگ جائیں تومحمد دین فوق،سیّد محمود آزاد،میر عبدالعزیز، سیّد بشیر حسین جعفری، میجر طلہ محمد، غازی محمد امیر خان ، سردار مختار خان اور بہشتی عارف سدوزئی کو بھی ایک قطار میں کھڑا کر کے میٹھی چھینکوں کی سُرسُریاں چلائیں ۔ مسوّدہ لہرا لہرا کر انہیں ترسائیں ، تڑپائیں ،پھڑکائیں اور بھڑکائیں ۔ خودناچیں ، گائیں ۔ ابھی ہم اتنا ہی سوچ پائے تھے کہ ’’نالی پار‘‘ سے سردار اسحاق خان کی چھینکوں کا بریسٹ سنائی دیا۔ اور ، اور ہماری ناک میں دوُر اندر تک کہیں عقاب کا پَر سا پھر سے پھرگیا ۔ ایک عدد آدھی پونیچھینک بھی کلبلاکررہ گئی۔ دوسری کم بختآتی ہے نہ جاتی ہے۔عقابی ’’تاریخ‘‘ آئے تو بات بنے۔تب تلک مورّخ کو میٹھی چھینک آئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں