غیرذمہ دار۔۔۔کبیرخان

ابھی کل کی بات ہے، اسلام آباد انٹرنیشنل ائیر پورٹ چکلالہ کے نابالغ سے ہوائی،اڈے میں دبکا بیٹھا تھا، ہم نے بارہا اْس کی چند فْٹی وزٹرز گیلری سے ”اندرلوں،باہرلوں“کو چیختے کْرلاتے ہوائی جہازوں میں سوار ہوتے اوراْترے دیکھا۔۔ دے۔۔بریف کیس، مار ٹیپ ریکارڈر،اس کاندھے پر پھْندنوں والا پرنا، اْس سے جھولتا لش لش کرتا بیگ۔ آنکھوں پر ٹیگ والا کالا چشمہ،ہونٹوں پر مچلتا دانداسا اور اْس سے بے وجہ چھلکتا ہاسا۔۔۔۔ چِیز چِیز۔ اور یہی دیکھتے دیکھتے ایک دن ہم بھی ایسے ہی ایک مظلوم سے جہاز میں سوار ہو گئے۔ وہ جہاز رنّ وے کی طرف ویسے ہی جا رہا تھا جس طرح بچپن میں ہم روز اسکول جایا کرتے تھے۔۔۔ روتے منہ بسورتے،”پِچھّاں پِچھّاں“کرتے۔ اور لوٹتے تو بھخاں بھخاں کرتے۔۔۔۔۔۔ بس بہت ہوا، پِیر پگمبر کی قِسیں،کل سے ہم نے اسکول نہیں جانا۔ ہائے اللہ چل چل کے اور پڑھ پڑھ کرپھاوے ہو گئے ہیں۔ جن جن ”اندرالیوں“کو ماشٹر سے کان جڑوں سے نکلوانے ہیں، آپ جائیں۔۔۔۔ بس۔ناں ناں، پِچّھاں پِچّھاں اور بھخاں بھخاں کرتا وہ جہازآخر رنّ وے کے سِرے پر پہنچ کر چیخم دھاڑ مچاتا، ایڑیاں رگڑتا رہا:
واجاں ماریاں، بلایا کئی وار وے ۔۔۔میں ٹْٹی لت نو ں وکھایاکئی واروے۔۔۔کِسے نے میری گل نہ سْنی۔۔شاید ہوائی جہاز کے اندرالی بھی ہماری نِکّی بے جیسے نی بورے اور”بے بوجھ“تھے۔ اْسے اسکول بھیج کر چھوڑا۔ وہ بھی دْکھی، ہم بھی دْکھی۔ یوں اْس ہوائی جہاز سے ہمارا بہناپا سا ہوگیا۔ چنانچہ جب ہماری باری آئی توچکلالہ سے ابوظبی تک ہم نے اْس مظلوم پر اک ذرا بوجھ نہیں ڈالا۔ سارا راستہ خود کو ہتھیلیوں کے جیک پراْٹھائے رکھا۔ اور سینتیس سال تک محض اس لئے وطن لوٹنے سے کتراتے رہے کہ ہتھیلیوں کا جیک ہمیں تو شاید اْٹھا لے، ہمارے گناہوں کا بوجھ نہیں سہار پائے گا۔ یوں بھی جیک کی سیلیں لیک اور گوڈے بے طرح گھِس چکے ہیں۔ مگر تابکہ۔۔۔؟ بیٹے نے کہا دْبئی کو وہ سنبھال لے گا،ہم اپنی”اک بہی“کو سنبھالیں۔ اور روئی کی گودڑی میں رکھ کر پتلی گلی سے نکل لیں۔ سو ہم مستقلاً خیرسے لوٹ کے گھر کو آئے۔ اور سارا راستہ ویسے ہی آتے رہے جیسے ہرپردیسی گھر کو آتا ہے۔ مگر جونہی اپنے وہیڑے میں قدم رکھا،ایک زوردار جھٹکا لگا۔ ہم فوراً سمجھ گئے،”دم کا ترجمہ کرکے اپنے سینے پر پھونکا۔۔۔ جلتوجلالتو،آئی بلا کو ٹال تْو۔“ اور پھر صحن میں قدم دھرا۔۔۔۔۔۔”خبردار!“ماشٹر چمڑی ادھیڑ کی کڑک دار(بلکہ چ?ڑک دار) آواز ساتویں آسمان سے گِری۔۔۔۔”پہلے دایاں“۔ ہم نے حکم کی تعمیل میں دایاں پیر آگے بڑھایا تو پہلے سیکہیں زیادہ سخت اور کرخت آواز نازل ہوئی۔۔۔۔۔۔ ”اْوندھیا۔۔۔! جوتے اتار کے۔ یہ فْٹ بال کا میدان نہیں،گھر کا آنگن ہے۔ پھر کہتے ہیں جی ہم پڑھے پڑھائے ہیں“۔ اور جوں ہی ہم نے آنگن میں قدم رکھا،نسوار اور پسینے کی ملی جْلی مانوس سی خوشبو نے ہمیں اپنے حصار میں لے لیا۔ ہم اپنے پورے ہست و بود سمیت اس میں جذب ہونا چاہتے تھے کہ برادر اصغر کی مسکراتی آنکھوں میں مسکراتے آنسو کو جھلملاتے پایا۔۔۔۔۔ ماں کہیں نہیں تھی۔ ”ماں دہائیاں پیشتر۔۔۔۔“اْس کی آنکھیں کھارے پانی میں تیر رہی تھیں۔لیکن یہ بات وہ مجھے پہلے بھی تو بتا سکتا تھا۔غیر ذمہ دار کہیں کا۔
(”ارقم“کی تقریب منعقدہ پریس کلب راولاکوٹ میں پڑھا گیا)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں