قوم پرست، را کے ایجنٹ، تہاڑ جیل اور وزیراعظم کے چھاپے۔۔۔از جسٹس (ر) منظور حسین گیلانی

وزیر اعظم آزاد کشمیر کی قوم پرستوں کے بارے میں دھمکی آمیز اور غیر جمہوری گفتگو، ہندوستانی ایجنسی”را“سے بے ثبوت پیسے لینے کا الزام وزیر اعظم کی شایان شان نہیں تھا- ان کا یہ کہنا کہ اگر یہ باز نہ آئے تو ادھر بھی تہاڑ جیل بن سکتی ہے انتہائی غیر سنجیدہ اور غیر جمہوری عمل ہے –
میں ذاتی طور قوم پرستوں کے جلسے جلوسوں میں ہونے والی گفتگو سے ہمیشہ نالاں رہا ہوں۔ اکثر لوگوں کی گفتگو غیر معیاری، غیر سیاسی اور غیر اخلاقی گالی گلوچ پر مبنی ہوتی ہے۔میں ان لوگوں کی گفتگو تو بلکل پسند نہیں کرتا اور مجھے بوجوہ ان کے نظرئیے سے اتفاق بھی نہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایک متنازعہ خطے کے بارے میں ان کا کوئی سیاسی نظریہ رکھنا جرم ہے۔ پاکستان کے زیر انتظام ریاست کے علاقے نہ پاکستان کا آئینی حصہ ہیں اور نہ پاکستان اس کا دعویدار، اس کا مستقبل کیا ہونا چاہیے اس کے بارے میں سوچنا، اس کا اظہار کرنا ریاستی باشندوں کا حق ہے۔ قوم پرست ریاست کو آزاد اور خود مختار ملک بنانے کا نظریہ رکھتے ہیں، اگر اس سے کم کوئی نرم گوشہ ہے تو وہ پاکستان ہے، ہندوستان ہر گز نہیں۔ میرے تجزئیے کے مطابق قوم پرستوں کا آزاد کشمیر میں یہ نظریہ اس ابہام کی پیداوار ہے جو آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کا نہ ہی پاکستان کے آئین کے تحت اور نہ ہی ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کوئی مقام ہونے کی وجہ سے ہے۔ اس کیفیت کو آپ آزادی نما غلامی کہیں یا نو آبادی کی باقیات، علم سیاسیات کے کسی ماہر نے اس پر طبع آزامائی نہیں کی۔ اس کو آزاد کرانے والے دعویداروں کی اور الحاق کی حامی دیگر جماعتوں کی اس کو“کشمیر بنے گا پاکستان“ کے مبہم نعرے نے مزید گنجلک بنادیا ہے جب یہ لوگ“ بچہ بچہ کٹ مرے گا کشمیر صوبہ نہیں بنے گا“ اس کی تیسری آپشن کی کھڑکی کھلی چھوڑی ہے جس سے قوم پرستوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔اقتدار کی سیاست کرنے والی ساری سیاسی جماعتوں کی یہی پالیسی ہے کہ صورت حال جوں کی توں قائم رہے تاکہ وہ بلا احتساب اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں۔
میں نے آزاد کشمیر کے بڑے بڑے سیاست دانوں کو بھی ان کی حمایت اور مدد کرتے پایا اور دیکھا ہے۔ ایک صاحب تو یہ کہا کرتے تھے کہ جو بات ہم خود نہیں کہہ سکتے وہ ان سے کہلواتے ہیں اور ایک بہت بڑے قوم پرست لیڈرالحاق کے ایک بہت بڑے داعی کے بارے میں کہا کرتے تھے حکومت میں یہ ہمارے نمائندے ہیں، جو کام ہم حکومت میں آکر نہیں کرسکتے وہ ان سے کراتے ہیں – میرے خیال میں وزیر اعظم صاحب نووارد ہونے کی وجہ سے یا ان باتوں سے بے خبر ہیں یا اس پہ ایمان لے آئے ہیں۔
ہندوستان نے تمام ملکی اور بین الاقوامی قوانین کے مغائر نہ صرف مقبوضہ ریاست بلکہ ریاست کے آزاد حصوں کو بھی نام نہاد جمہوری اور سیاسی انداز پر مبنی پالیسی کے تحت اپنا آئینی حصہ قرار دیا ہے۔ اسی موقف کا سہارا لیکر ہندوستان نے سیاہ چن اور پاکستان کے ساتھ جنگوں میں حاصل کئے گئے آزاد علاقوں کو اپنا علاقہ گردانا اور اسی بہانے ان سب آزاد حصوں کے بھی دعویدار ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ اگست 2019 کی بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزیوں کے باوجود بھارت کے آئین کے تحت ریاست کی بندر بانٹ، تحلیل، انضما م، مقبوضہ ریاست میں ریاست کی آزادی کی تحریک چلانے والوں کو علادگی پسند اور دحشت گرد قرار دے کر قتل و غارت کے بازار کو بھی دنیا نے ہندوستان کا اندرونی معاملہ قرار دیا اور کسی نے مذمت نہیں تک نہیں کی۔ جمہوریت کے دعویدار بڑے بڑے ملک انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کرتے ہیں جو نہ ہی کشمیریوں کی حمایت ہے نہ ہندوستان کی مذمت بلکہ وہ ملک اپنے بڑا ہونے کے زعم میں ایسا کرتے ہیں۔

وزیر اعظم آزادکشمیر روایتی اور پیشہ ور سیاست دان نہیں بلکہ ایک مشن لیکر ایک ہی جست میں عمران خان کی طرح اس مقام پر پہنچے۔ ان کی ذمہ داری بنتی تھی کہ اس خلا ء کو پر کرنے، ابہام کو دور کرنے، آزاد کشمیر کی تعمیر و ترقی اور فی زمانہ بلخصوص پاکستان کے انتظام میں رہنے کے با وجود اس علاقے اور اس علاقے کے لوگوں کے ان حقوق اور اختیارات سے محرومی کے خلاء کو پر کرانے کی سعی کر کے آگے بڑھتے، اس کے بجائے اس خلاء سے فائندہ اٹھانے والوں کے لئے تہاڑ جیل بنانے کی باتیں!!!! یہ سرینگر میں تو ہندوستان کی قیادت کہہ سکتی ہے، کہتی ہے اور کر کے دکھاتی ہے لیکن ہندوستان کے ساتھ اپنی شرائط پر رہنے والے کشمیری لیڈر بھی ایسی باتیں نہیں کرتے۔
وزیر اعظم صاحب کے لیڈر عمران خان، کرپشن اور خاندانی حکمرانی کے خاتمے کا ایک دلچسپ اور عوامی مقبولیت کا نعرہ لیکر میدان میں نکلے تھے جو اپنے لا ابالی پن اور غیر اخلاقی طرز تکلم کی وجہ سے پورا نہیں کر سکے۔ جناب وزیر اعظم آپ تو جنرل حیات خان کی طرح کا تعمیر و ترقی کا نعرہ لیکر نکلے تھے۔جنرل حیات خان(مرحوم)بے شک آزاد کشمیر میں بنیادی ترقی کے مائی باپ ثابت ہوئے، آپ کس راہ پہ چل پڑے ہیں؟ تعمیر وترقی امن اور عدم انتشار کی صورت اور اس کے راستے میں حائل رکا وٹوں کو دور کرنے سے ہی ممکن ہے جس کا میں نے پہلے زکر کیا ہے – جب تک آپ آئینی، قانونی، سیاسی اور سفارتی تضادات کو دور نہیں کریں گے، آپ کو قوم پرستوں سے زیادہ مضبوط طاقتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کا ادراک کریں۔
سرکاری ملازمین کی حاضری یقینی بنانے کے لئے وزیر اعظم نے سرکاری دفاتر پر چھاپہ مارنا شروع کیا ہے۔دفاتر میں سرکاری اہلکاروں کی موجودگی یقینی طور روز مرہ کے معاملات کی تکمیل کے لئے ضروری۔لیکن اس کے تقاضے پورا کرانا ان کے دفتر میں آٹھ گھنٹے بیٹھ کے کچھ نہ کرنے سے ان کی کار کردگی کو یقینی بنانا ضروری ہے۔جن دفاتر کے کام کی نوعیت کسی واقعے یا حادثے کے وقت ضرورت ہوتی ہے یا روز مرہ کی بجائے کئی ماہ یا سال کے بعد ہوتی ہے ان کے فرصت کے ان کے کام کی نوعیت کے مطابق ٹریننگ اور تربیت کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ان کی صلا حیتیں زنگ آلود نہ ہو جائیں۔ جن ملازمین کی کام کی نوعیت آزاد کشمیر کی حدود تک محدود ہے ان کے اسلام آباد، لاہور اور پشاور کے دوروں کی کوئی وجہ نہیں، اس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے، ایسے سرکاری دفاتر جن کا فیلڈ عملہ ہوتا ہے یا جن کی پبلک ڈیلنگ اور خط و کتابت کے زریعہ منظوریاں درکار ہوتی ہیں ان سے بر وقت کام کرانا ضروری ہوتا ہے، کئی لوگوں کے بل، چھٹیوں کی درخواستیں، سلیکشن بورڈ اور دیگر معاملات مرکزی دفتروں میں پھنسے رہتے ہیں ان کا بروقت کرانا ضروری ہے- پھر وزیر اعظم اور عام دفتر کے حفظ مراتب کا تقاضا ہے کہ اس دفتر سے ایک درجہ اوپر کی اتھارٹی نگرانی رکھے۔ وزیر اعظم اگر اچانک کسی دن کسی دفتر سے ایک سال کا رسید اور ترسیل رجسٹر منگوا کے چیک کر لیں کے انکے پاس کس نوعیت کا مکتوب کب آیا اور اس پر فیصلہ یا جواب دیا گیا یا نہیں اور کتنی عرصہ بعد، اس سے سرکاری / عوامی کاموں میں سرعت پیدا ہوگی –

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں