معاشی عدمِ استحکام ،سیاسی عدمِ استحکام

وقت تبدیل ہو گیا ہے جدید ممالک ٹیکنالوجی کی بنیاد پر پیسہ بنا رہے ہیں اور ایک ہمارا ایسا ملک جس کی معیشت بیساکھیوں پر چل رہی ہے۔ جو قومیں خود کو تبدیل نہیں کرتی اور ٹیکنالوجی کو نہیں اپناتی وہ زیادہ عرصہ بقا نہیں کر پاتی۔ قرضے کی بھیک بمعہ سود ادا کرنے پڑتی ہے جو کہ ایک نہ ختم ہونے والی قرضے کی دلدل ہے۔ پاکستان شدید بحرانی کا شکار ہے۔ عمران خان کی حکومت کو چلتا کر کے پی ڈی ایم کو دو ماہ کے لگ بھگ ہو چکے ہیں اور ان دو ماہ میں پیٹرول کی قیمت سو روپے اضافے کے ساتھ دو سو پچاس روپے ہو گی ہے۔ عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں جس کا ثبوت تیل کی بیس فیصد سیل کم ہونا ہےپاکستان کا معاشی زوال 1977 میں جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے بعد شروع ہوا، کیونکہ 77 سے پہلے پاکستان کی تمام پبلک انٹرپرائزز نہ صرف ترقی کر رہی تھیں بلکہ منافع میں چل رہی تھی۔ اور اس زوال میں تیزی 1993 کے بعد شروع ہوئی جب پاکستان کے فنانشل انسٹیٹیوشنز کو اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے مستقل اور مکمل آئی ایم ایف کے حوالے کر دیا گیا۔ پاکستان کے مسائل کا حل یہ ہے کہ حکومت کو دفاع اور حکومتی اخراجات میں ایک ہزار ارب کٹوتی کر کے اسے فی الفور انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ پر لگانا ہوگی اور پاکستان کی امپورٹس کو کم کر کے ایکسپورٹس بڑھانا ہوگی۔
لیکن ان تمام اقدامات سے پاکستانی حکمران طبقے کو قربانی دینی ہوگی جو کہ وہ دینے کے لئے تیار نہیں۔ اگر ہمیشہ کی طرح قربانی کا بکرا عوام کو بنایا جاتا رہا تو اس ملک کا کوئی مستقبل نہیں۔اس وقت پاکستان کی معیشت کو درپیش چیلنجز ریاضی کی کسی مشکل مساوات کی طرح پیچیدہ ہوچکے ہیں۔معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچانا ہے تو آئی ایم ایف کی شرائط کو ماننا ہوگا، آئی ایم ایف کی شرائط مانیں تو مہنگائی کے طوفان کا سامنا ہوگا۔مشکل معاشی فیصلوں سے معیشت سکڑنے کا خطرہ۔ یعنی حکومت کو آگے کنواں پیچھے کھائی جیسی مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔
مشکل حالات میں مشکل معاشی فیصلوں کے ساتھ ساتھ غیر روایتی اور پائیدار پالیسیاں تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔
معاشی عدم استحکام کو ختم کرنے کے لئے سیاسی عدم استحکام کا فوری خاتمہ ناگزیر ہوچکا۔ حکومت کو چاہئے فوری طور پر معاشی ایمرجنسی نافذ کرکے قومی ڈائلاگ کا آغاز کرے جس میں عدلیہ،عسکری قیادت، سیاسی جماعتیں اور تمام سٹیک ہولڈرز شامل ہوں۔پوری قومی قیادت اس وقت تک نہ اٹھے جب تک تمام اسٹیک ہولڈرز معیشت کے مسائل کو حل کرنے کے لئے کسی ایک نقطے پر متفق نہ ہوجائیں۔
۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں