وزیر اعظم محترم انوار الحق کے نام …جسٹس (ر ) منظور گیلانی

میرا زاتی طور آپ کے ساتھ کوئی تعلق ، بلکہ میرے خیال میں کبھی علیک سلیک بھی نہیں رہا تاہم آپ کو جاننے والے اکثر دوستوں نے آپ کے بارے میں اچھے کلمات کا اظہار کیا اور سوشل میڈیا پر اکثریت نے آپ کی کئ خو بیوں کا تذکرہ اور آپ سے بڑی امیدیں وابستہ کی ہیں ، اللہ کرے ایسا ہی ہو –
آپ کے والد مرحوم چوہدری صحبت علی صاحب سے میرا تعلق رہا ہے اور وہ ایک معاملے میں میرے لئے محسن بھی ثابت ہوئے – اللہ ان کو جنت الفردوس میں اعلی ترین جگہ عطا فرمائے – –
آپ غالبآ آزاد امیدوار کی حیثیت سے اسمبلی کی نشست پر منتخب ہوکر تحریک انصاف کی حکومت میں اسمبلی کے سپیکر رہے اور اس جماعت کی مرکز میں حکومت ختم ہونے کے بعد آزاد کشمیر میں بھی یہ جماعت اور اس کی ٹکٹ پر منتخب ہونے والے ممبران آزاد کشمیر کی سیاسی اور پارلیمانی تاریخ کے عین مطابق مرکز میں حکمران PDM کے نام سے مخلوط حکومت کا حصہ بن گئے ( یہ سلسلہ اسوقت تک چلتا رہے گا جب تک آزاد کشمیر کے پاس مرکز کی حکومت سازی اور پالیسی سازی میں ووٹ کا حق نہیں ہوگا جس وجہ سے مرکز اور اس کی ایجنسیوں کا رول اگر ختم نہ بھی ہوا محدود ضرور ہو جائیگا جس طرح باقی صوبوں میں ہے ) اس مخلوط حکومت میرے خیال میں بڑا دھڑا تحریک انصاف کے ممبران کا ہے جو پی پی پی اور مسلم لیگ کے ساتھ مل کر پی ڈی ایم کا حصہ بنے اور وزارت عظمیٰ کا قرعہ فال آپ کے نام نکلا – اب آپ آزاد کشمیر کے منتظم اعلی اور آزاد کشمیر کے آئین کے تحت اختیارات کے منبہ کی حیثیت رکھتے ہیں – آپ کی حکومت کی کامیابی کا انحصار رول آف لا پر بلا امتیاز عمل اور سماجی ، سیاسی اور قانونی انصاف پر مبنی ہے –
آپ کا سب سے پہلا امتحان کیبنٹ سازی ہے جہاں سے آپ کے بارے میں خوش گمانی اور مستقبل میں اچھا حکمران ثابت ہونے کا اندازہ لگانا مشکل نہ ہوگا – دوسرا امتحان پورٹ فو لیوز کی تقسیم اور حکومتی کار کردگی کے لئے انتظامی بیرو کریسی کا انتخاب ہوگا اور تیسرا ان سے کام لینا ہے –
آزاد کشمیر کے آئین میں تیرویں ترمیم کے تحت وزرا ، ایڈوائزر ز اور خصوصی معاونین کی تعداد مقرر ہے -یہ ترمیم مسلم لیگ کی حکومت کے دوران ہوئ ہے اور پیپلز پارٹی کی بھی اس کو بھر پور حمایت حاصل تھی اس لئے کیبنٹ اسی حد تک محدود رکھیں اور اپنے اتحادیوں کو سمجھائیں کہ آپ ان کے وقت کے آئین کی پاس داری کریں گے اور اپنے اتحادیوں کو ان کی تعداد کے مطابق پر سنٹیج دے دیں – اگر آپ نے اس کو بڑھانے کے لئے کوئ ترمیم کی جیسا کہ میڈیا رپورٹ کررہا ہے ، تو اس کے ساتھ اور بہت کچھ کرنا پڑے گا جس کو آپ سنبھال نہیں سکیں گے – یہ آپ کے مستقبل کی کامیابی اور ناکامی کی نشاندہی کرے گا –
پر سنٹیج کے مطابق وزراء کو اتحادی خود نامزد کریں لیکن ان کو پورٹ فو لیوں ان کی استعداد اور اہلیت کے مطابق دیں تاکہ وہ ڈیلیور بھی کر سکیں – وزیر بننے کے بعد ان کی نیک نامی اور بدنامی آپ کے کھاتے میں پڑے گی ان جماعتوں کے نہیں-
حکومتی نظم نسق چلانے کے لئے بیرو کریسی سے ایسے لوگوں کا انتخاب کریں جو آپ کو خوش کرنے اور اپنی نوکری پکی کرنے کے لئے ہاں میں ہاں ملانے والے نہ ہوں بلکہ صاحب رائے ہوں جو آپ کو کسی بھی بڑے فیصلے کے قانونی ، سیاسی اور انتظامی فیصلوں کے مثبت اور منفی پہلؤں پر روشناس کر سکیں – جن کو نہ کرنے کی ہمت اور صلاحیت ہو اور ہاں کی زمہ داری اٹھانے کا حوصلہ ہو –
انصاف کرنا بنیادی طور حکومت کی زمہ داری ہوتی ہے جو قانون اور انصاف کے مطابق انتظامیہ کرتی ہے – عدلیہ انصاف کرنے میں قانون سازیہ اور انتظامیہ کے بعد تیسرے درجے پہ آتی ہے جو قانون سازی کو آئین کی کسوٹی پر پرکھنے اور انتظامیہ کے فیصلوں کو قانون کی روشنی میں جانچنے کی مجاز ہے – اگر قانون سازی آئین کے مطابق ہو اور انتظامی فیصلے قانون کے مطابق ہوں تو عدلیہ کے کرنے کے لئے کوئ کام نہیں رہتا – حضرت عمر کے زمانے میں قاضیوں کے پاس شاز و نادر ہی کوئ کیس جاتا تھا کیونکہ ان کی انتظامیہ ٹھیک کام کرتی تھی-
عدالتوں میں بھی انسان بیٹھے ہیں وہ بھی غلطیاں کرتے ہیں بسا اوقات آئین، قانون اور انصاف کے ماوراء فیصلے کرتے ہیں – ایسے فیصلے جو حکومت ، حکومتی اور نظم و نسق کے معاملات پر برے اثرات مرتب کرتے ہوں ان کا بغور جائزہ لیکر عمل کرنا چاھئے کیونکہ اس کے برے اثرات کو عوام اور حکومت کو بھگتنا پڑتا ہے – آپ کے قانون کا سیل اتنا سیانا اور مضبوط اعصاب کا ہونا چاھئے کہ اس قسم کے فیصلوں کو قانون کے مطابق دوبارہ عدالت کے پاس جانا چاھئے –
پریس میں یہ بھی پڑھنے میں آیا ہے کہ آپ کی حکومت ہر دفتر میں ملازمین کی حاضری یقینی بنانے کے لئے بائیو میٹرک سسٹم لگانے پر غور کررہی ہے ، یہ بھی اچھا ہے لیکن سب سے اچھا کام دفتری معاملات کو نپٹانے ، فیصلے کرنے اور ان کے نفاظ میں سرعت لانے میں ہے – ہر روز وصول ہونے والی فائل کا فیصلہ اگلے روز ہوجانا چاھئے یا اس اتھارٹی تک پہنچ جانا چاھئے جو فیصلہ کرنے کی مجاز ہو -اس کے لئے رسیٹ اور ڈسپیچ رجسٹر بہترین رہنما ہوتے ہیں – ان کی روشنی میں نگرانی موثر ہو سکتی ہے ، صرف حاضر ہونے سے نہیں –
یہ تو فوری نوعیت کے کام ہیں اگر آپ ان میں کامیاب ہوگئے تو لوگوں کا آپ پر اعتماد بڑھے گا جو روشن مستقبل کی ضمانت ہے-
ان امور سے فارغ ہونے کے بعد اپنی ترجیحات واضح کرکے ترتیب دیں جو شخصی اور ریاستی امور کے لئے ناگزیر ہیں – ترجیحات اور ترتیب مرتب کرنے کے بعد
اتھارٹی کو اوپر سے نیچے تک منتقل کرنا بہت ضروری جس کو انگریزی یا قانونی زبان میں Decentralisation کہتے ہیں – ان میں اولین زمہ داری لوکل گورنمنٹ کے اداروں کو مضبوط کرنے کے لئے سان کو قانون کے تحت با اختیاربنانا ہے جو دیہی سطح سے لیکر ضلعی سطح تک کے سارے تویاتی منصؤبے بناکر ان پر اہل ترین اشخاص کی تقرری اور اس کے بعد سوائے کسی سنگین شکایت کے ان میں عدم مداخلت کے اصول پر کار بند رہنا ضروری ہے –
اپنے سیکریٹریٹ اور تحصیل کی سطح سے یو نئین کونسل کی سطح تک تمام سرکاری اداروں میں شفا فئیت کا عمل لاگو کرنا حسن کار کردگی اور عام آدمی تک ان کی رسائی ممکن بنانا ’’اختیار آپ کا ذمہ داری آپ کی‘‘ کا اصول مداخلت کیے بغیر نتائج لینا ہی اصل دانش مندی ہے تاوقتیکہ کسی بڑی تباہی سے بچانے کے لیے مداخلت ناگزیر نہ ہو جائے۔ 
معاملات میں شفافیت لازمی امر ہے -جو کام کرنا مقصود ہو اسے اس طرح انجام دیجئے کہ لوگ خود اس کا مشاہدہ کر سکیں۔ جس کے لئے معلومات تک عام آدمی کی رسائ ہو – آمرانہ طرز حکمرانی میں معلومات کو چھپایا جاتا ہے جب کہ جمہوریت میں عام آدمی کو معلومات تک رسائی دی جاتی ہے۔، یہی وجہ ہے کہ معلومات تک رسائی کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے جمہوری معاشروں میں “Right of Access to Informations Act”لائے گئے ۔ ایک باخبر معاشرہ ہی اپنی آزادی کا سب سے بڑا محافظ ہوتا ہے۔ اس کو اپنانے ک ضرورت ہے –
علم اور مہارت رکھنے والی یا ایسی خواہش رکھنے والی قیادت نہ ہو گی تو اچھی حکمرانی کی منزل کاحصول ہمیشہ ایک خواب ہی رہے گا۔ جن معاشروں نے ترقی کی معراج کو چھوا اور ہر دور میں مہذب معاشرے کہلوائے ان کی قیادت چور’ بدعنوان ‘ بدعہد ‘ بدکردار اور نالائق لوگوں کے ہاتھ میں کبھی نہیں رہی’ اعلی ترین شخصی اوصاف والی قیادت ہی اچھی حکمرانی کو یقینی بناتی ہے جو بصیرت و حکمت کے ساتھ قوم و ملک کو عروج کی جانب گامزن کرتی ہے اور لوگوں کے لیے وسیلہ نجات بنتی ہے۔
آزاد کشمیر ایک چھوٹا سا انتظامی خطہ ہے اس کی کوئ ملکی اور بین الاقوامی حیثیت یا زمہ داری نہیں ، یہاں صرف تعمیر، ترقی ، خوشحالی ، تعلیم و تربیت ، صحت اور روز گار مہیا کرنا ہی اس حکومت کی زمہ داری ہے جو کوئ بڑی بات نہیین – اس کے لئے خلوص نئیت ، انتھک محنت ، ترقی پسند سوچ کی ضرورت ہے -مجھے ابھی تک جنرل حیات خان مرحوم کے علاوہ ان صفات کا حامل کوئ حکمران نظر نہیں آیا ، ہو سکتا ہے کہ آپ نمبر ایک ہوجائیں – ان حقائق کا دراج کریں تو کامیابی یقینی ہوگی-
آخر میں ایک بات کرنا لازمی سمجھتا ہوں کہ اپنی کامیابی اور ناکامی کا اندازہ خود احتسابی سے کرتے رہیں- اپنے ہر کام اور اقدام کا جائزہ تنقیدی نظر سے لیا کریں – دلی میں میرے سینئیر ترین استاد نے مجھے کہا تھا کہ ا پنے کیس کو Devil’s Advocate کی نظر سے دیکھا کریں تاکہ مخالف فریق اس کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے آپ پر سبقت نہ لے جائے-

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں