وفاقی حکومت ہمیں کیا پیغام دے رہی ہے؟..عمران اعظم

وزیر پاکستان میاں شہباز شریف اور وزیر اعظم آزادکشمیر سردار تنویر الیاس کے درمیان میرپور سے شروع ہونے والا تنازع شدت اختیار کرتے ہوئے وفاقی دارالحکومت تک پہنچ گیا جو انتہائی افسوسناک ہونے کیساتھ باعث تشویش اور کئی حوالوں سے غور طلب ہے .
پہلی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم پاکستان جب آزادکشمیر کے سرزمین پر قدم رکھ رہے تو وزیر اعظم آزادکشمیر کووفاق کی جانب سے باضابطہ دعوت دی جانی چاہیے تھی جو نہیں دی گئی ، وزیر اعظم آزادکشمیر کو غالباً اپنے پرنسپل سیکرٹری نے آگاہ کیا جس کے بعد وہ میرپور پہنچے لیکن انہیں وہاں وزیر اعظم پاکستان کے استقبال سے روکتے ہوئے انہیں منگلاڈیم کے حوالے سے ہونےوالی تقریب کے مقام پر پہنچنے کا کہا گیا۔اس کے بعد تقریب میں وزیر اعظم آزادکشمیر کواسٹیج پر بھی جگہ دی گئی نہ خطاب کو موقع ملا ، اس تفریق پر انہوں نے وزیر اعظم شہباز شریف کی تقریر کے اختتام سے قبل کھڑے ہوکر احتجاج کیا جس پر وزیر اعظم شہباز شریف نے انہیں روک دیا اور تقریب ختم ہو گئی ۔اس کےبعد وزیر اعظم آزادکشمیر نے وزیر اعظم پاکستان خلاف مرےپور میں بھرپور پریس کانفرنس کرتے ہوئے سخت ردعمل کا اظہار کیا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا وزیر اعظم آزادکشمیر کو وفاق کی جانب سے دعوت کے بغیر وزیر اعظم پاکستان کے استقبال کےلیےجانا چاہیے تھا؟ اگر جذبہ خیر سگالی کے تحت گئے تھےتو کیا وزیر اعظم کا استقبال کرنے سے روکنے کے بعد ہی انہیں تقریب کا بائیکاٹ کا نہیں کر دینا چاہیے تھا؟ اگر یہ سب نہیں کیا گیا تو وزیر اعظم پاکستان کے خلاف پریس کانفرنس الفاظ کے درست چناو کیساتھ نہیں کی جا سکتی تھی؟ بلاشبہ وزیر اعظم آزادکشمیر کیساتھ یہ سب وزیر اعظم پاکستان کی ایماء پر کیاگیا جو کسی صورت قابل قبول نہیں لیکن سیاسی بصیرت سے عاری وزیر اعظم آزادکشمیر کے ایک کے بعد ایک غلط فیصلے نے پوری کشمیری قوم کے جذبات مجروح کرنے کیساتھ انہیں بے توقیر کرنے کا بھی سامان فراہم کیا۔
یہاں تک تو آپ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کیساتھ وزیر اعظم آزادکشمیر سردار تنویر الیاس کو بھی مورود الزام ٹھہرا سکتے ہیں کہ انہیں اس صورتحال کو ریاست کے وزیر اعظم کے طور پر سیاسی تدبرسے حل کرنا چاہیے تھا تاکہ اہل کشمیر کے ریاست پاکستان کےلیے اچھے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچتی لیکن اس کے بعد وزیر اعظم آزادکشمیر کی پریس کانفرنس کے رد عمل میں وزیر اعظم پاکستان اور وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے جو اقدامات کیے وہ سنگین جرم اور سیاسی دیوالیہ پن کی عکاسی کرتے ہیں۔
سینٹورس مال کو صرف اس بنیاد پر راتوں رات سیل کرناکہ وہ سردار تنویر الیاس کی ملکیت ہے شریف برادران کی محدود اور انتقامی سوچ کا کھل کراظہار ہے ۔ اس اقدام سے جہاں آزادکشمیر ،پاکستان اور بیرون ملک بسنے والے کشمیریوں کے بلا تخصیص سیاسی وابستگی جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے وہیں وزیراعظم پاکستان نے کشمیر سمیت دنیا بھرکے سرمایہ کاروں کو بھی انتہانی منفی پیغام دیا ہے۔اب کوئی بھی کشمیری پاکستان کےکسی شہر میں اس قدر بڑی سرمایہ کاری کرنے سے پہلے سو بار ضرور سوچے گا۔وفاقی حکومت کی اس لایعنی حرکت کا رد عمل اس قدر شدید ہے کہ جہاں کشمیری اسلام آباد میں سراپاء احتجاج ہیں ،وہیں دارا لحکومت مظفرآباد میں وزیر اعظم پاکستان کے پتلے نظرآتش کیے جا رہے ہیں۔
دوسری جانب کشمیری سوشل میڈیا صارفین گزشتہ روز سےہی اس واقعے کولیکر سابق صدر آزادکشمیر خورشید حسن خورشید مرحوم ،{کے ایچ خورشید} کا واقعہ نقل کر رہے ہیں جب انہوں نے منگلا پل پہنچنے پر صدر پاکستان جنرل ایوب خان کی گاڑی یہ کہہ کر روک دی تھی کہ اب یہاں سے میری ریاست کی حدود شروع ہورہی ہے ،اس لیے اب میری گاڑی آگے اور آپ کی گاڑی پیچھے ہوگی ، نظریہ الحاق پاکستان کا داعی ہونے کے باوجود سردار محمد ابراہیم خان، سردار عبدالقیوم خان اور راجا ممتاز حسین راٹھور نے بھی اس قومی حمیت اور ریاستی تشخص پرآنچ نہیں آنے دی اوراسلام آباد میں کشمیری قیادت کاوقار ہرحال میں برقرار رکھا لیکن جب سے وزارت عظمی ٰ کی خاطرکوئی گڑھی خدا بخش کا مجاور بنا،کسی نے ملٹری ڈیموکریسی کا نعرہ لگایا تو کوئی رائیونڈ اور بنی گالہ میں سجدہ ریز ہوا تو سیاسی اور عسکری قیادت کی نظروں میں بھی کشمیری رہنماوں کی توقیر جاتی رہی اور اب نتیجہ ہمارے سامنے ہے ۔
اب حالات اس نہج پر پہنچ چکےہیں کہ کبھی فیاض الحسن چوہان توکبھی عطاء تارڑ جیسے لونڈے کشمیری عوام کو بے توقیر کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تواقتدار کی حوس میں شاہ غلام قادر جیسے بھی ان کیساتھ یک زبان ہو چکے ۔سردار خالد ابراہیم کے اس دنیا سے جانے کےبعد آزادکشمیر کی نام نہاد سیاسی قیادت نے اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو وقت دور نہیں جب اسلام آباد کی سڑکوں پر کھڑا ایک ٹریفک اہلکار ہمارے صدر اور وزیر اعظم کو گاڑی سے اتار کر بے توقیر کر دے گا اور ہم کچھ نہیں کر سکیں گے۔
ریاست جموں کشمیر بالخصوص آزادکشمیر کے اندر پاکستان کے لیے جذبات کی گرم جوشی سرد مہری میں تبدیل ہورہی ہے لیکن ضبط ابھی ٹوٹا نہیں اور اور اس کی بڑی وجہ بھارت کا مقبوضہ وادی میں جاری ظلم و ستم ہے ، بھارت اگر آج وادی میں بربریت بندکر دے تو اسلام آباد کے رویے کو دیکھتے ہوئے آزادکشمیر کے عوام دونوں ریاستوں کو ایک ہی پلڑے میں رکھنے میں شائدزیادہ دیر نہ لگائیں۔ ریاست پاکستان کی مقتدر قوتیں بھی اب کشمیری عوام کے جذبات کو لیکر حساسیت کھو چکی ہیں ورنہ عوامی مینڈیٹ کے برعکس آزادکشمیر کی وزارت عظمی ٰ یوں میوزکل چیئر نہ بنی ہوتی ۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کویہ بات ذہن نشین کرناہو گی کہ ریاست جموں و کشمیر تاحال ایک متنازعہ خطہ ہے اور اس کی آزاد حیثیت ہزار سازشوں کے باوجود کسی نہ کسی صورت میں برقرار ہے اور کشمیری عوام اس حوالے انتہائی حساس ہیں ۔۔۔تاوقتیکہ کہ رائے شماری کے ذریعے ریاست جموں وکشمیر کے عوام خود اپنے سیاسی مستقبل کاحتمی فیصلہ نہیں کرلیتے ، ریاستی تشخص اور عوامی جذبات کا احترام سب پر لازم ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں