وی۔آئی۔پی ازم۔۔۔۔۔ بیرسٹر حمید باشانی خان

بہت عرصہ پہلے میں نے وی آئی پی ازم پرایک کالم لکھا تھا۔ میں نے اس کالم میں کینیڈا کے ایک شہر کی تاریخی شخصیت کاذکر کیا تھا، جو عوام میں بہت مقبول تھی، اور کینیڈا کے ایک شہر مسی ساگا کی گیارہ بار مئیر منتخب ہو چکی تھی۔ اس وقت میں لنچ ٹائم پر ایک مہمان دوست کے ساتھ مسی اس شہر کے ایک ریسٹورانٹ میں گیا۔ ویٹرس نے ہمیں کونے والی میز پر بٹھا دیا۔ میں نے گرد و نواح کا جائزہ لیا۔ وہ میری ساتھ والی میز پر بیٹھی تھی۔ میں نے سر کی جنبش سے آشنائی کا ظہار کیا۔اس نے جوابا سر کو ہلکی سی جنش دی۔اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ وہ دوستوں کے ساتھ بڑے انہماک سے کھانا کھا رہی تھی۔ میرے مہمان نے پوچھا کہ یہ خاتون کون ہے، کیوں کہ اسے لگتا ہے کہ اس نے اس خاتون کو کئی دیکھا ہے۔ وہ امریکہ سے آیا تھا۔ میں نے مہمان کو بتایا کہ آپ نے اسے ٹی وی پر دیکھا ہوگا۔ بڑی مشہور اور تاریخی شخصیت ہیں۔ یہ اس شہر کی مئیر ہیں۔ محض میئر نہیں۔ یہ اس شہر میں مسلسل گیارہ بار مئیر منتخب ہو چکی ہیں۔ ان کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اب یہ انتخابات میں مہم چلائے بغیر منتخب ہو جاتی ہیں۔ یہ یہاں کی تاریخ کی سب سے زیادہ عرصہ منتخب ہونے والی شخصیت ہیں۔ ان کی عمر اب بانوے سال سے تجاوز کر گئی ہے۔ مگر اس شہر میں دن یا رات کو شائد ہی کوئی ایسی تقریب ہو، جس میں اپ کو یہ خاتون نظر نہ ائے۔ یہ آپ کو یہاں کے ریستورانوں پر اسی طرح عام لوگوں کے ساتھ بیٹھ کرکھانا کھاتی ہوئی نظر ائیں گی۔ان کے ساتھ کوئی سیکورٹی نہیں ہوتی۔ ممکن ہے کبھی ایک سٹاف ممبر یا فیملی ممبر ساتھ ہو۔ ریستوران پر بیٹھے ہوئے اکثر لوگ اس خاتون کو جانتے ہیں۔ مگر سب کو ان کی پرائیویسی کا احترام ہے۔ کوئی ہاتھ ملانے کی کوشش نہیں کر رہا۔ کوئی تصویر بنوانے کو نہیں کہہ رہا۔ وہ خاتون اب مئیر نہیں رہی، اور سیاست سے کنارہ کش ہو چکی ہیں۔ لیکن جو بات اس وقت میں اپنے دوست کو بتا رہا تھا وہ محض ایک مقبول عوامی شخصیت یا شہر کی مئیر کی بات نہیں ہے۔ اس ملک کے بیشتر منتخب لوگ ایسے ہی ہیں۔ پارلیمنٹ کے ممبران اکیلے مختلف تقریبات میں شرکت کرتے ہیں۔ یہ لوگ آپ کو سب ویز اور پبلک ٹرانزٹ سسٹم پر اکیلے سفر کرتے ہوئے ہوئے ملیں گے۔ گروسری سٹورز پر شاپنگ کرتے ہوئے ملیں گے۔ ان کی جان کا کوئی خطرہ نہیں۔ نہ ہی عوام بلا وجہ ان کا وقت ضائع کرنے کی کوئی کوشش کرتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے تمام کام خود اپنے ہاتھوں سے کرتے ہیں۔ یہ اپنی گاڑی خود ڈراہیو کرتے ہیں۔اپنا کھانا خود پکاتے ہیں۔ اپنے کپڑے خود دھوتے ہیں۔ جہاں لائن لگی ہو وہاں لائن میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔ اس طرح ان کا رہنا سہنا، اور طرز زندگی عام ادمی کی طرح ہے۔ عام آدمی بھی ان کو کوئی پیر، فقیر یا دیوتا نہیں، عام آدمی ہی سمجھتا ہے۔ اور عام آدمی کی طرح ان سے برتاو کرتا ہے۔ اس کا اگر تقابل کیا جائے تو ہمارے ہاں صورت حال کتنی افسوس ناک ہے۔ ہمارا سماج کتنے برے طریقے سے وی آئی پی ازم کا شکار ہے۔ ہرطر ف وی آئی پی ازم کی دیکھی ان دیکھی زنجریں ہیں۔ یہ سلسلہ پھیل کر ایک باقاعدہ روگ بن چکا ہے۔ سماج کی ہر پرت میں وی آئی پی ازم کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ ایک گھر سے لیکر اقتدار کے ایوانوں تک اپ کو وی۔آئی۔پی ازم کی مختلف شکلیں نظر ائیں گی۔ یہ روگ اتنا گہرا ہو چکا ہے کہ ہر خاص و عام سماج سے ایک خاص اہمیت کا تقاضا کرتا ہے۔ اسکی وجہ سے سماج میں ایک خاص شکل اختیار کر چکا ہے، جس میں کوئی اپنی باری کا انتظار نہیں کرنا چاہتا۔ لائن میں کھڑا ہونا توہین امیز تصور کیا جاتا ہے۔ یہ تو عام آدمی کی بات ہے۔ وہ لوگ جو کسی خاص حثیت کے حامل ہیں۔ عوام کے منتخب نمائیدے ہیں۔ کسی سرکاری عہدے پر فائز ہیں۔ دولت یا طاقت رکھتے ہیں۔ ان کی ایک ایک حرکت سے وی آئی پی ازم جھلکتا ہے۔ یہ وی آئی پی ازم ایک باقاعدہ نظام بن چکا ہے۔ اس نظام کے اندر طبقاتی نا ہمواری ہے۔ سماجی نا انصافی ہے۔ رشوت اورسفارش ہے۔ طبقاتی ناہمواری کی وجہ سے سماج میں دو قسم کے لوگ پیدا ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن کے پاس بہت کچھ ہے۔ دوسرے وہ جن کے پاس کچھ بھی نہیں۔ جن کے پاس کچھ بھی نہیں وہ سماجی اور معاشی نہ انصافی کا شکار ہیں۔ یہ عام لوگ ہیں۔ ان عام لوگوں کا کوئی کام رشوت اورسفارش کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ ان لوگوں کو زندہ رہنے کے لیے ہمہ وقت ویآئی پی لوگوں کی ضرورت رہتی ہے۔ یہ اگر بیمار ہو جائیں تو ہسپتال میں بستر کے لیے سفارش کی ضرورت پڑتی ہے۔ بچی کے جہیز کے لیے کسی صاحب ثروت کی حاجت ہوتی ہے۔ بچے کو نوکر رکھوانے کے لیے بھی سفارش کی ضرورت ہے۔ ان کو اپنی عزت نفس کو محفوظ رکھنے کے لیے بھی کسی وی آئی پی کا سایہ چاہیے ہوتا ہے۔ گاوں کی پنچاہت سے لیکر تھانے اور کچہری تک۔ قدم قدم پر کوئی نہ کوئی وی آئی پی کھڑا ہوتا ہے۔ جس کی آشیر باد کے بغیر عام آدمی کا کوئی کام ہو ہی نہیں سکتا۔ یہاں تک کے عام آدمی ان کے بغیر اپنے گھر کی چار دیواری میں عزت اور سکون سے نہیں رہ سکتا ہے۔ وہ کسی کی غنڈہ گردی کا شکار ہو گا۔ کسی کی نا جائز تجاوزات کا شکار ہو گا۔ کوئی اس کی زمین پر قابض ہو گا۔ کوئی اس کی عزت پر حملہ کر ے گا۔ سماج میں صرف سماجی اور معاشی نہ انصافی ہی نہیں، خوف بھی ہے۔ خوف کی ایک خاص کفیت ہے۔ وی آئی پی کلچربنیادی طور پر ان چیزوں پر ہی کھڑا ہے۔ اگر سماج سے طبقاتی تضادات ختم ہو جائیں۔ سماجی انصاف ہو۔ ظلم و جبر کا خاتمہ ہو۔ قانون کی حکمرانی ہو۔ عام ادمی کو اپنے کام کراونے کے لیے سفارش اور رشوت کی ضرورت نہ پڑے تو اس کے ساتھ ہی وی آئی۔پی کا کردار ختم ہو جاتا ہے۔اور وی آئی پی کلچر بدل جاتا ہے۔ وی آئی پی ازم دم توڑ دیتا ہے۔ جب تک سماج میں معاشی ناہمواری ہے۔ اونچ نیچ کے سماجی تصوارات ہیں تب تک وی۔آئی۔پی ازم موجود رہے گا۔عام لوگ مصائب کا شکار رہیں گے۔مراعات یافتہ طبقہ وی۔آئی۔پی ازم کے تحت مذید مراعات لیتا رہے گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں