پاکستانی حکمران اور آئین کی پامالی ۔۔۔۔۔۔راجہ خالد محمود ایڈووکیٹ سپریم کورٹ

پاکستان اپنے قیام کے فوری بعد ہی مسائل کے گرداب میں دھنستا چلا گیا، اس کی اہم وجہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی 11ستمبر 1948ء کو رحلت ہے۔ دوسری اہم وجہ یہ کہ پاکستان اپنے قیام سے لے کر تقریباً نو سال تک سرزمین بے آئین رہااور انگریز دور کے 1935 کے انڈیا ایکٹ پر ہی چلتا رہا، جو 1956ء کے آئین کے نافذ العمل ہونے تک لاگو رہا۔ 1956ء کے آئین کینفاذتک پاکستان میں اقتدارکیلئے میوزیکل چیئرکا کھیل جاری رہا اور ان 9 برسوں میں سات وزرائے اعظم تبدیل ہوئے، دو دستور ساز اسمبلیاں اپنی مدت پوری نہ کر سکیں۔ پہلی دستور ساز اسمبلی کو ایک اپاہج، ذہنی معذور گورنر جنرل ملک غلام محمد نے مورخہ 24اکتوبر 1954کو برخاست کردیا۔ سپیکر/ صدر دستور ساز اسمبلی مولوی تمیز الدین نے اس اقدام کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا، سندھ ہائی کورٹ نے گورنر کے حکم کو ULTRA VIRES قرار دیتیہوئے مولوی تمیز الدین کی پٹیشن کو منظور کرلیا چنانچہ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو گورنمنٹ نے فیڈرل کورٹ کے روبرو چیلنج کردیا۔
یہاں سے ہماری عدالتی بدبختی کا آغاز ہوتا ہے جب فیڈرل کورٹ جس کے سربراہ چیف جسٹس منیر تھے، نے وفاقی حکومت کی اپیل منظور کرتے وقت آسٹرین جیوریسٹ HANS KELSON کی تھیوری DOCTRINE OF NECESSITY کا سہارالیا اور گورنر جنرل کے اسمبلی کو برخاست کرنے کے حکم کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دیڈالا۔ مذکورہ فیصلے میں صرف ایک اختلافی نوٹ مشہور زمانہ منصف جسٹس الون روبرٹ کارنیلئس نے لکھا اور انہوں نے سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ بحال رکھا۔ 1956 کے دستور کو نافذ ہوئے ابھی دو سال ہوئے تھے کہ اکتوبر 1958ء میں میجر جنرل اسکندر مرزا نے ملک میں مارشل لا نافذ کردیا۔ جنرل ایوب خان کو پہلا چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کردیا۔ دو سو کیس کی صورت میں معاملہ ایک بار پھر جب فیڈرل کورٹ پہنچا تو جسٹس منیر نے دوبارہ نظریہ ضرورت کی بنیاد پرنظریہ قانون و انصاف کو دفن کر دیا۔ جسٹس منیر کے اس جرم کی سزا آج تک پارلیمینٹ، عدلیہ اور عوام بھگت رہی ہے۔ ایوب خان نے 1962ء کو ملک کو ایک دستور دیا لیکن ڈکٹیٹر شپ، ناانصافی اور ایک متوازن آئین نہ ہونے کی وجہ سے ملک دو لخت ہوگیا۔ پاکستان کو 1973 میں ایک متوازن وفاقی پارلیمانی آئین ملالیکن 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیا الحق نے مارشل لا لگا کر آئین معطل کر دیا۔ نصرت بھٹو کیس میں نظریہ ضرورت پھر زندہ ہوا اور بعد ازاں آٹھویں ترمیم کے ذریعے اس کا حلیہ بگاڑ دیا گیا۔
12 اکتوبر 1999 کو جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں آئین ایک بار پھر مضروب ہوا اور ان کے اس اقدام کو اس بار چیف جسٹس ارشاد حسن خان نے نہ صرف جوازبخشا بلکہ انہیں 3 سال کے اندر انتخابات کروانے حتیٰ کہ دستور کو AMEND کرنے کا اختیار بھی دے ڈالا۔ جنرل مشرف نے آئین پاکستان پر ایک اور ضرب 3 نومبر 2007 کو لگائی،جب ایمر جنسی نافذ کرتے ہوئے اعلیٰ عدلیہ کے 60 سے زائد ججوں کو ان کے گھروں میں نظر بند کردیا۔ ملٹری ڈکٹیٹر تو ایک طرف ہمارے سول حکمرانوں نے بھی آئین کو بازیچ? اطفال بنانے سے گریز نہ کیا۔ عمران خان کے دور میں بھی آئین اور قانون مسلسل بے توقیر ہوتا رہا اور جب ان کی نااہلی اور کرپشن کا بوجھ ریاست نے اٹھانے سے

انکار کردیا اور دستور کے آرٹیکل 95 کو استعمال کرتے ہوئے انہیں گھر کا راستہ دکھانے کی کوشش کی تو آئین کے واضح MANDATE کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر سات دنوں کے اندر ووٹنگ نہ کرکے آئین کا مذاق اڑایا گیا اور جب تین اپریل کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونا تھی اس روز اجلاس کی صدارت کرنے والے ڈپٹی اسپیکر نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے آئین کو عملاً معطل کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کا مشورہ دے دیا جنہوں نے اس مشورے کو حکم کا درجہ دیتے ہوئے اس کی بجاآوری کی۔ ڈپٹی اسپیکر کیاس اقدام پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے ازخود نوٹس لیا اور اپنے فیصلہ میں ڈپٹی اسپیکر کے اقدام کو ماورائے آئین قرار دیا۔ جب عمران خان ایک دستوری طریقے سے اقتدار سے باہر ہوئے تو انہوں نے پاکستان کے اداروں کو بدنام کرنے کابیڑا اٹھا لیا اور ایک بے بنیاد سائفر کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ امریکہ نے مجھے اقتدار سے نکالنے کی سازش کی ہے۔
پاک آرمی کو سیاست اور حکومت کے معاملات میں دخل اندازی کی دعوت دی اور اکسایا گیا۔کیا موصوف کا یہ کہنا اور ایسی ترغیب دینا تعزیرات پاکستان کی دفعہ 131 کے تحت جرم نہیں؟ اسی طرح جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف بھیجے گئے ریفرنس کو سپریم کورٹ نے غیر آئینی قرار دیکر رد کردیا۔غرض عمران خان کے دور میں ریاست مدینہ کے متبرک اور مقدس تصور کو بدنام کیا گیا، قانون کی بے توقیری اور آئین کی پامالی ہی نظر آئی اور ایک بڑا نقصان یہ ہوا کہ نوجوان نسل کو بدتمیز، گالم گلوچ، تشدد، عدم برداشت اور دلیل کا جواب دلیل کی بجائے گالی سکھا دیا۔ جس خرابی کا ازالہ شاید جلد نہ ہو سکے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں