پہلی تعلیمی کانفرنس” _ ایک نیک فال ۔۔پروفیسر عائشہ یوسف

“سدھن ایجوکیشنل کانفرنس اور کیپٹن حسین خان شہید کالج کی تعلیمی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اپنی نوعیت کی پہلی بھرپور سہہ روزہ تعلیمی کانفرنس کا انعقاد تابندہ روایات کے مسکن ؛ ضلع پونچھ راولاکوٹ میں کیا گیا ۔88 برس پہلے پلندری سے تعلق رکھنے والےکرنل خان محمد خان (بابائے پونچھ) نے اپنے ساتھیوں کی معیت میں اس پر پیچ سفر کا آغاز کیااور 1934 میں اس غیرسرکاری فلاحی تنظیم کا سنگ بنیاد رکھ دیا۔ابتداء میں تنظیم کا نام مسلم ایجوکیشنل کانفرنس رکھا گیا لیکن ” مسلم” نام کی وجہ سے ڈوگرہ حکمران تنظیم کی رجسٹریشن میں رکاوٹ بننےلگے اور اسے اپنا دشمن تصور کرنے لگے۔ اس اعتراض کے سبب مقامی قبائل کے مشترکہ فیصلے پر تنظیم کا نام سدھن ایجوکیشنل کانفرنس رکھا گیا جو تمام قبائل کی فلاح و بہبود کی یکساں طور پر ضامن ہو۔اس کے منشور اور مقاصد میں معاشرے سے قبیح رسوم و رواج کاخاتمہ، شعورکی بیداری ، نشے کی لعنت کا سدباب ، کھیلوں جیسی صحت مندانہ سرگرمیوں کو فروغ دینا اور طلبہ کو قرض حسنہ اور اسکالرشپ دینا شامل تھا چنانچہ یہ قافلہ ولولہ تازہ کے ہمراہ زمانے کے سردو گرم سہتے اس جری و شجاع قافلہ سالار کی قیادت میں آگے سے آگے بڑھتا رہا۔ جوکبھی بزم عیش و نشاط سے گزرا تو کہیں مقامات آہ و فغاں سے گزرا مگر اس کے پایہ استقلال میں جنبش نہ آئی اور اس اصلاحی بیڑے کا ڈول ڈالنے والے کرنل خان محمد خان بابائے پونچھ کہلائے۔
لگ بھگ ایک صدی ہونے کو ہے ۔ اس دوران میں کئی بڑی بڑی ہستیوں نے اس رفاہی ادارے کی سربراہی سنبھالی اور کئی درد دل رکھنے والے رقیق القلب مخیر حضرات اس کی داد رسی کو آگے بڑھے ۔آج کل میجر(ر) محمد مشتاق خان صاحب بحیثیت صدر ؛ جو مختلف رفاہی و فلاحی سرگرمیوں کا حصہ بنے رہتے ہیں ؛ جب کہ پروفیسر ڈاکٹرمحمد نسیم خان صاحب بہ طور چیئرمین تعلیمی کمیٹی نہایت خوش اسلوبی و تن دہی سے نہ صرف یہ کہ ادائیگی فرائض میں مشغول ہیں بلکہ راولاکوٹ میں اتنے بڑے پیمانے پر اس تعلیمی کانفرنس کے منعقد کیے جانے کی منصوبہ سازی انہی کے ذہن رسا کی اختراع ہے اور ہر آنکھ نے دیکھا کہ ان پروگراموں کو بڑی مہارت اور خوبی سے منظر عام پر لانے کے لیے شبانہ روز کاوشوں میں ان کا سب سے اہم حصہ ہے۔با ایں ہمہ سارا وقت کسی نمایاں مقام پہ متمکن ہونے کی بجائے “نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ” کی عملی صورت بنے کھڑے رہے اور تمام امور کی نگرانی کا ازخود جائزہ لیتے رہے۔
22 اگست 2022 کی روشن صبح راولاکوٹ کی پہلی سب سے بڑی تعلیمی نشست کا آغاز بڑے تزک و احتشام سے ہوتا ہے۔اسکالرز ، پروفیسرز ، ڈاکٹرز، کالجز اور جامعہ کے طلباء و طالبات اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے متعلق مہمانان گرامی کی آمد کا سلسلہ؛ گلف ایمپائر مارکی راولاکوٹ کے احاطہ میں؛ علی الصبح شروع ہو جاتا ہے- مگر تقریب کا آغاز ایک گھنٹہ تاخیر سے ہوتا ہے کہ ہم روایت پرست لوگ اپنی روایتوں کو عزیز از جان رکھتے ہیں لہٰذا نو بجےکی بجائے دس بجے صبح خدائے بزرگ وبرتر کے پاک نام سے تقریب کا آغاز کیا جاتا ہے اور پھر واجد کامران صاحب بڑی خوش الحانی سے نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قدموں میں گلہائے عقیدت نچھاور کرتے ہیں۔ اس کے بعد حاضرین محفل کے لہو گرمانے کو پاکستان اور آزاد جموں وکشمیر کے قومی ترانے بالترتیب بجائے جاتے ہیں اور سب لوگ احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
اسی اثناء میں پروفیسر ڈاکٹر محمد نسیم خان (جو گزشتہ 37 برسوں تک ملک اوربیرون ملک شعبہ تدریس سے منسلک رہے،سائنس اور ٹیکنالوجی پاکستان کی طرف سے ایوارڈ یافتہ، کئی ایم اے ،ایم فل اور پی ایچ ڈی اسکالرز کے نگران ) اسٹیج پر ابھرتے ہیں اور خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے اپنی شیریں سخنی سے حاضرین کے دل موہ لیتے ہیں ۔ ان کے بعد سدھن ایجوکیشنل کانفرنس(ایک مٹھی آٹا ) خواتین ونگ (یوتھ) کی جنرل سیکرٹری انیقہ مونا صاحبہ خواتین کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنا کلام پیش کرتی ہیں اور اپنی خوش گفتاری سے ماحول کو مزید عطر بیز بنا دیتی ہیں۔

اس کے بعد پروفیسر ڈاکٹر شاہد جو comsats University Islamabad سے منسلک ہیں اورجن کی ایماء پر کئی احباب اس تقریب میں شرکت کے لیے اسلام آباد سے تشریف لائے ؛ نے اسٹیج پہ میزبانی کے فرائض سنبھال لیے اور شاہزیب شبیر خان کو اس پروگرام کی غرض و غایت بیان کرنے اور باقاعدہ آغاز کرنے کے لیے مدعو کیا۔
علاوہ بریں پروفیسرز اور ڈاکٹرز یکے بعد دیگرے آتے رہے ، اپنے اپنے مقالے پڑھتے ہوئے حاضرین محفل کو فکر انگیز سنہری خیالات سے فیض یاب کرتے رپے۔
چوں کہ وقت تیزی سے گزرتا جا رہا ہے۔لمحات کی اڑان نہایت تیز ہے اور دنیا انقلابات زمانہ کی زد پر ہے لہٰذا پروفیسر ڈاکٹر سہیل اصغر نے آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے موضوع پر اپنے جدید اور انوکھے تجربات و خیالات سے متعارف کرایا اور قریب قریب سبھی کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا:
“محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی”
تو ائیر مارشل مسعود اختر صاحب نے ائیر فورس سے متعلق دلچسپ معلومات سےنوجوانوں کو بہرہ مند فرمایا۔
عدنان آمین صاحب نے آرکیٹیکچراور تعمیرات کے شعبے میں ہونے والی جدت اور تنوع سے روشناس کرایا کہ انجنئیرز کو عہد جدید سے ہم آہنگ ہونے کے لیے مزید سیکھنے کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔اور پروفیسر ڈاکٹر ندیم جاوید block chain and digital currency کی بابت سمجھاتے ہوئے ناظرین کو گویا کسی جادو نگر میں لے اترے کہ دور استقبال کسی نظر فریب سحر کی کارفرمائی ہی تو ہے۔
اسی دوران میں جب نماز اور کھانے کے لیے وقفہ ہوا تو کھانے کے بعد حسب سابق ہال میں بیٹھنے والوں کی تعداد کم اور کرسیوں کی زیادہ محسوس ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔البتہ مائیک پر موجود ڈاکٹر شاہد کی کہنہ مشقی ،جچے تلے الفاظ اور مسحور کن انداز بیاں نے تادم آخر سننے والوں کی توجہ نہ صرف اپنی جانب مبذول کیے رکھی بل کہ ماحول پہ اپنی گرفت مضبوط بنائے رکھی ۔

ایک گھنٹے کے توقف کے بعد مزید مقررین نے خطاب کیا ۔نائلہ چوہان صاحبہ (ر) سفارت کار نے معاشرے میں خواتین کے کردار کو سراہتے ہوئے پیغام دیا کہ انہیں اپنا مقام بنانے کے لیے مزید محنت کرنا ہوگی۔ جب کہ میجر جنرل ڈاکٹر افتخار حسین نے خواتین میں بڑھتے ہوئے چھاتی کے کینسر کی علامات، تشخیص اور علاج سے متعلق نہایت اہم معلومات سے روشناس کرایا ۔ ان کی باتوں سے لگا کہ جانے انجانے ہم علاج کی طرف رغبت نہیں رکھتے ۔ ہم مشرقیت کے دلدادہ لوگ غم ،ڈر اور خوف کے سودائی بھی ہیں اور سوداگر بھی لہٰذا کسی امید کی بات سوچ ہی نہیں پاتے۔حسین شہید کالج کے پروفیسر ڈاکٹر محمد خان نے کیرئیر کاونسلنگ کی افادیت و اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ طلباء کو اداروں میں مستقبل کی طرف درست سمت دکھلانے کی ازحد ضرورت ہے۔
سردار محمد صدیق خان(ر) سیکرٹری آزاد کشمیر، سابق صدر سدھن ایجوکیشنل کانفرنس (اس تنظیم کے احیاء،فعالیت اور تنظیم نو کا سہرا انہی کے سر ہے۔) انہوں نے اپنے خطاب میں بابائے پونچھ کے مشن اور “مٹھی بھر آٹا” کی اسکیم کے تحت شعور کی بیداری کو موضوع بنایا جس کے تحت خواتین کو زیور تعلیم سے آراستہ کر کے سماج کا مفید رکن بنانے کی حکمت عملی اپنائی گئی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ ضلع بھر کی شرح خواندگی سب سے زیادہ ہے۔
ڈاکٹر خالد محمود، امیر جماعت اسلامی، نے نوجوانوں کو اسلاف کے کارناموں سے روشناس کرانے کی ترغیب دی ، تو مولانا سعید یوسف صاحب نے اپنی زندگیوں کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت پر زور دیا مبادا ہم مذہبی منافرت ، فرقہ بندی اور مسالک میں الجھ کے رہ جائیں گویا :

فرقہ بندی ہے کہیں تو کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

سردار فاروق خان اور ان کی اہلیہ ڈاکٹر ریحانہ کوثرجو اس تنظیم کے سب سے بڑے ڈونرز اور روح رواں ہیں ؛ تقریب میں شرکت کے لیے خاص طور سے پاکستان تشریف لائے ۔ انہوں نے تعلیم کے فروغ ، ایم فل اور پی ایچ ڈی اسکالرز کی تعداد میں روز افزوں اضافے کو بےحد سراہا نیز خوشی و طمانیت کا اظہار کیا ۔
سب سے آخر میں بابا ئے پونچھ کرنل خان محمد خان (مرحوم) کے گھرانے کے چشم و چراغ ڈاکٹر نجیب نقی نے شرکائے بزم کے لیے شکرگزاری کے جذبات پیش کیے اور اپنے عزائم کا اعادہ بھی کیا۔ تقریب کے اختتامی حصے میں نہایت معتبر اور اہم اشخاص کی دستاربندی کی گئی۔ جو ان کی توصیف و
توقیر کی علامت ٹھہری۔

ازاں بعد تمام شرکاء کو بہ طور تحسین سرٹیفکیٹ اور شیلڈز پیش کی گئیں۔

تعلیمی کانفرنس کے دوسرے روز سدھن ایجوکیشنل کانفرنس کی زیرِ نگرانی روٹس اسکول سسٹم کی انتظامیہ اور اخفاء آئی اسپتال کے تعاون سے دو روزہ آئی کیمپ 23 اور 24 اگست 2022 کو ڈسٹرکٹ کمپلیکس راولاکوٹ میں لگایا گیا۔ اس میڈیکل کیمپ میں شامل ماہر ڈاکٹرز اور معاون عملے نے انتہائی جاں فشانی سے مریضوں کا معائنہ کیا ۔ منتظمین کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد وشمار کے مطابق مردانہ او پی ڈیز میں 717 جب کہ خواتین او پی ڈیز میں 623 مریضوں کا معائنہ کیا گیا ۔ یوں کل 1340 مریضوں کا معائنہ ہوا۔علاوہ ازیں مفت ادویات تقسیم کی گئیں۔ 518 مریضوں کو مفت عینکیں مہیا کی گئیں۔ 715 مریضوں کے لیے خصوصی شیشے کی عینکوں کی بکنگ کی گئی۔ 240 مریضوں میں موتیا بند مرض کی تشخیص ہوئی جن میں سے 25 مریضوں کو مکمل علاج کے لیے اسپتال ریفر کیا گیا۔ رپورٹ کے موافق دینی مدارس اور اسکولوں کے طلباء کی آنکھوں کی بینائی کے لیے اسکرین بھی کی گئی اور ان میں سے اکثر کے لیے ادویات اور عینکوں کی مفت فراہمی کو ممکن بنایا گیا۔دوسرے دن کے اختتامی سیشن میں میڈیکل ٹیم کے عملے کو سدھن ایجوکیشنل کانفرنس کی جانب سے ان کے جذبہ و جنون اور پیشہ وارانہ مہارت کو سراہتے ہوئے تعریفی اسناد اور شیلڈز پیش کی گئیں۔

دوسرے روز کی شام 23 اگست 2022 کورات 8 بجے، بمقام ڈسٹرکٹ کمپلیکس راولاکوٹ، شعرو سخن کے رسیا احباب کے لیےایک ادبی نشست کا اہتمام بھی کیا گیا۔ اس محفل شعر و ادب کے صدر جناب اسرار ایوب تھے کہ “آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے” انہی پہ صادق آتا ہے ۔جو آزاد کشمیر سے باہر بھی اپنی خاص پہچان رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی شہرت کا سکہ بٹھا چکے ہیں۔ آزاد کشمیر کے نامور شعراء ہوں یا ابھرتے ہوئے نومشق شاعر سبھی اس محفل مشاعرہ کی رونق بنے ۔
تقریب شعر و سخن کے آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سب سے پہلے جناب وسیم اعظم نے اپنے اشعار پیش کیے۔ اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے راولاکوٹ کے ابھرتے ہوئے نوجوان شعراء کو اپنا اپنا کلام پیش کرنے کے لیے اسٹیج پر مدعو کیا ۔ یوں عبدالصبور شیدائی، اسامہ فاروق،کیف حسین زبیری،عدیل گیلانی،زوہیب نوری،شکیلہ تبسم،انیقہ مونا اور عمران کمال ، حمید کامران، لیاقت شعلان، مشاہد کاظمی، فاروق حسین صابر نے اپنے اپنےکلام اور افکار تازہ سے تماشائیوں کو خوب خوب محظوظ کیا ۔
مقامی شعراء کے کلام کے بعد مہمانان اعزاز نے اپنا خوب صورت کلام حاضرین کی سماعتوں کی نذر کیا۔مہمانان اعزاز میں جناب صابر حسین صابر، جناب ڈاکٹر ماجد محمود، جناب عبدالبصیر تاجور اور جناب زبیرالحسین زبیری شامل تھے ۔ شعراء نے ڈرامائی انداز خطابت اور جادو بیانی سے تماشائیوں کے دل جیت لیے ۔ ڈاکٹر ماجد محمود:
کہانی پھر ادھوری رہ گئی ہے
ہمارے بیچ دوری رہ گئی ہے
مجھے کچھ سال پیچھے لوٹنا ہے
میری اک شے ضروری رہ گئی ہے

عبدالبصیر تاجور:
شاید میرے مزاج سے تو آشنا نہیں
لے سکتا ہوں میں چھین کے میں مانگتا نہیں
سب سے بنا کے رکھنے والے دور سے سلام
اس پر بھروسہ ہی نہیں جس میں انا نہیں

ان کے بعد صاحبان شام نے اپنا انتخاب کلام پیش کرکے سماعتوں کو مسحور اور تماشائیوں کو محظوظ کیا۔صاحبان شام میں جناب شہباز گردیزی، جناب اعجاز نعمانی اور جناب محمد یامین شامل تھے ۔
اعجاز نعمانی:

حسن اور اتنی فراوانی کے ساتھ
دیکھتا رہتا ہوں میں حیرانی کے ساتھ

تقریب شعروسخن کے آخری حصے میں مہمانان خاص نے اپنے پر اثر اور پرلطف کلام سے حاضرین محفل کے دلوں کو چھو لیا ۔جن میں آزاد کشمیر کے نہایت مستند ، معتبر اور نامور شعراء جناب احمد عطاء اللہ، جناب ناز مظفر آبادی اور جناب مخلص وجدانی شامل تھے ۔
ناز مظفر آبادی :

کسی کے واسطے جو لڑ رہے ہیں آپس میں
ہے کون حق پہ ،کسے عقل سے بعید کہیں
مقام فکر ہے یاران نکتہ داں کے لیے
کسے ہلاک لکھیں اور کسے شہید کہیں

سب سے آخر میں جناب اسرار ایوب کو دعوت کلام دی گئی۔ ان کے آتے ہی ہال تالیوں سے گونج اٹھا اور تماشائیوں نے کھڑے ہو کر پذیرائی دی ۔اسرار ایوب مخصوص لب و لہجہ کے شاعر ہیں جو ایک توانا فکر اور نظریہ رکھتے ہیں۔انہوں نے نہ صرف اپنے دلنشیں اور اچھوتے انداز سے حاضرین محفل کو محظوظ کیا بل کہ ایک خاص پیغام بھی دیا۔حاضرین محفل کی جانب سے ان پہ داد ودہش کے ڈونگرے برسائے گئے ۔اسرار ایوب:

اس سے پہلے کبھی ایسی نہ ہوئی تاریکی
رات اے دوست تیرے خط بھی جلائے ہم نے
صرف اس واسطے ہم عشق میں ناکام ہوئے
عقل سے کام لیا دل کے بجائے ہم نے

ہال تالیوں سے گونجتا رہا ، ماحول زعفران زار بنا رہااور
یہ محفل رات گئے تک جاری رہی۔ آخر شب تمام ہوئی اور حاضرین محفل نے ثابت کر دیا کہ طعام کی بجائے کلام کی اہمیت زیادہ ہے کہ اس محفل میں ایسی کسی طمع کا عمل دخل ہی نہیں تھا۔ اس محفل مشاعرہ میں سیاست، عشق ، طنزو مزاح ، مسائل اور عہد جدید کا انسان جیسے موضوعات سے معاشرتی اصلاح کا پیغام دیا گیا۔

سہہ روزہ تعلیمی کانفرنس کی نشرو اشاعت کے لیے کشمیر دھرتی نیوز اور پریس کلب کا تعاون حاصل کیا گیا ۔عابد صدیق صاحب سدھن ایجوکیشنل کانفرنس کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
انہوں نے بحسن وخوبی اور نہایت چابکدستی سے پروگرام کی ترسیل کو یقینی بنایا ۔مشاعرہ کی کامیابی میں ریڈنگ زون راولاکوٹ اوع ضلعی انتظامیہ راولاکوٹ کا بطور خاص تعاون کامیابی کا ضامن بنا۔
اس سہہ روزہ تعلیمی کانفرنس نے اس تنظیم کی تاریخ، مقاصد اور آئندہ کے لیے لائحہ عمل کو اجاگر کیا۔ ہم سب کو فکر لازم ہے ۔۔۔۔۔۔سوچنا ، سمجھنا اور پرکھنا ہو گا ۔ اس تنظیم کے لیے معاون کردار ادا کرنا ہوگا ۔ کیا ہمارے اعلا تعلیم یافتہ افراد معاشرے کے لیے سود مند ہیں ؟ کیا ہم اپنے معاشرے سے نشہ ختم کر پائے ہیں؟ کیا ہم ہر روز برے رسوم ورواج کی دلدل میں دھنس کر نفسیاتی دباؤ کا شکار نہیں بن رہے ؟ کیا ہماری بیٹیاں پڑھنے کے بعد بھی معاشرے سے اپنے وجود کی اہمیت منوا سکی ہیں؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان سب سوالوں کا جواب :

“دلی ہنوز دور است”

12 سال بعد جب ہم اس تنظیم کے صدسالہ جشن کی تیاریاں کر رہے ہوں گے تو لازم ہے کہ ان سوالات کے جواب ہمارے پاس ہوں۔۔۔۔۔ ان شاءاللہ

50% LikesVS
50% Dislikes

پہلی تعلیمی کانفرنس” _ ایک نیک فال ۔۔پروفیسر عائشہ یوسف” ایک تبصرہ

  1. اللہ غریق رحمت فرمائے، سردار محمد حبیب خان کے دورَ صدارت میں مجھے بھی اس تنظیم کے پلیٹ فارم
    سے کام کرنے کا اعزاز نصیب رہا ہے۔ لیکن کارروائی ہذا پڑھ کر حیرت ہوئی کہ اس تنظیم کے کنونشن میں خالص علمی و ادبی پروگرام بھی جگہ پا سکتے ہیں۔ روایات کی ڈھنڈ میں جس نے بھی یہ بٹـہ مارا ہے، اپس کے حوصلے ہیں زیاد۔ تنظیم کے جملہ ذمہ داران کو ناچیز سلام پیش کرتا ہے ۔ گر قبول اُفتد۔۔۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں