کوئی ذمہ داری اٹھانے والا نہیں. ارشاد محمود

امیر ہے یا غریب ہر کوئی ملک سے فرار کی راہیں تلا ش کرتانظر آتاہے۔ حتیٰ کہ خوشحال اور کاروباری خاندان بھی تیزی سے نقل مکانی کررہے ہیں۔ کینیڈا، آسٹریلیا، یورپ اور امریکہ ان کی آخری منزل ہے۔ ہر محفل میں گفتگو کا مرکزی نکتہ یہ ہوتاہے کہ کس طرح بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنایاجائے کیونکہ پاکستان میں گزروبسر مشکل نہیں بلکہ مشکل تر بنادی گئی ہے۔

گزشتہ کئی دہائیوں اور بالخصوص موجودہ اتحادی حکومت نے نچلے اور متوسط طبقہ کے مفادات کو پالیسیاں بناتے وقت بری طرح نظر انداز کیا۔رہی سہی کسر سیلاب نے پوری کردی۔ماہرین کہتے ہیں کہ سیلاب سے پاکستانی معیشت کو دوہزار ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔ابتدائی تخمینہ کے مطابق سیلاب سے تباہ ہونے والے انفراسٹرکچر کی بحالی کے لیے 10 ارب ڈالر درکار ہیں۔40 ہزار خاندان سیلاب سے متاثرہوچکے ہیں۔خیبر پختون خوا، پنجاب اور سندھ میں فصلوں کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ کسانوں، زمین داروں اور عام شہریوں کی زندگی مزید مشکلات کا شکار ہوچکی ہے۔
حکومتی پالیسیوں کے باعث جو چھوٹی موٹی صنعت یا کاروبار ملک میں بچا ہے وہ بھی بند ہوتانظرآرہاہے۔ایران اور افغانستان سے درآمد ہونے والے ٹماٹر اور پیاز پر ٹیکس چھوٹ دے کر اچھا اقدام کیاگیا لیکن اس کے باوجود مارکیٹ سنبھل نہیں رہی۔بھارت سے سستے نرخوںپر آلو، ٹماٹر اور پیاز مل سکتاہے لیکن حکومت کو خوف ہے کہ اس فیصلے کا اسے سیاسی خمیازہ بھگتنا پڑسکتاہے۔ گزشتہ برسوں میں موجود اتحادی حکومت کے لیڈروں نے ہر اس فیصلے کی مخالفت کی جو عمران خان کی حکومت نے کیا ۔بھارت کے ساتھ تجارت کھولنے کے لیے پی ٹی آئی حکومت نے کچھ پیش رفت کی تو پی ڈی ایم نے آسمان سر پر اٹھا لیا ۔کہا یہ غداری اور کشمیر دشمنی ہے۔ طفلانہ نعرے بازی اب ان کے گلے کا طوق بن چکی ہے۔
کسی زمانے میں سرکار اور سرکاری میڈیاجس طرح چاہتاتھا کہ رائے عامہ ہموار کرلیتاتھا لیکن اب یہ ممکن نہیںرہا۔ نوجوان جو آبادی کا ساٹھ فی صد سے زائد ہیں یہ دیکھ کر رنجیدہ ہیں کہ پاکستان کے گرد نواح کے سارے ملک ترقی کرچکے ہیں یا تیزی سے ترقی کی سیڑھیاں چڑھ رہے ہیں۔ امریکہ، اسرائیل، متحدہ عرب امارات اور بھارت کے درمیان ایک کثیر الجہتی اتحاد تشکیل پاچکاہے۔ جو خطے کا سیاسی اور معاشی منطرنامہ ہی بدل دے گا۔ سرمایہ کاری کے لیے بھارت کو کسی کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں وہ خودبخود آرہی ہے۔ بنگلہ دیشں کے جتنے بھی معاشی جائزہ آرہے ہیں وہ سب کے سب حیرت انگیز طور مثبت ہیں۔ علیحدگی کے وقت بنگلہ دیش پاکستان سے ستر گنا زیادہ غریب تھا لیکن آج پنتالیس گنا زیادہ امیر ہے۔
بنگلہ دیش نے آبادی کے پھیلاؤ کو کنٹرول کرنے میں بھی غیرمعمولی کامیابی حاصل کی ۔علیحدگی کے وقت بنگلہ دیش کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی اب یہ سترہ کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ ان کی سالانہ شرح پیدائش 2.3 ہے۔بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ 50 برسوں میں بنگلہ دیش میں پیدائش کی شرح فی خاتون سات بچوں سے کم ہو کر دو اعشاریہ ایک بچے تک پہنچ گئی ہے۔ بلند شرح پیدائش میں کمی، خواتین کی بہتر تعلیم، ملازمت کے مواقع اور صحت کی سہولیات تک رسائی کی بدولت ممکن ہوسکی۔
اس کے برعکس پاکستان آبادی پر کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام رہا۔پاکستان کی سالانہ شرح پیدائش 3.6 بچے فی جوڑے ہے۔اگر یہ رفتار برقرار رہی تو اگلے بیس برسوں میں پاکستان کی آبادی دگنی ہوسکتی ہے۔ دنیا ساری ہمیں سمجھا رہی ہے کہ شرح پیدائش کو سالانہ 2 فیصد تک لائے بغیر آپ ترقی کرسکتے ہیں اور نہ خوشحالی حاصل کرسکتے ہیں۔لیکن ہمارے کانوں پر جوںتک بھی نہیں رینگتی۔
وہ کیا عوامل ہیں جنہوں نے پاکستان کو ترقی نہیں کرنے دی ؟اس موضوع پر بہت کم بحث ہوتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو بااختیار بنانے اور انہیں ترقی کے یکساں مواقع فراہم کو ترجیح نہیں بنایا بلکہ حکومتوں کی ترجیح اس طبقہ کو نچوڑ کر اشرافیہ کی عیاشیوں کا ساماں فراہم کرنا ہے۔ دنیا بھر میں مستحکم سیاسی نظام کے قیام کے لیے اور معاشی ناہمواریوں کو دور کرنے کے لیے خواتین کو بااختیار بنایاجاتاہے۔ عالمی رینکنگ میں پاکستانی خواتین کو حاصل معاشی مواقعو ں کادرجہ 156ممالک میں سے 153 ہے۔ حکومتوں نے اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے ان کی عزت، وقار اور انسانی حقوق کویقینی بنانے کے حوالے سے پرلے درجے کی غفلت برتی۔ریاست نے تعصب اور عدم برداشت کا مظاہرہ کرنے والے عناصر کو لگام دینے کے بجائے انہیں بسا اوقات سیاسی ہتھیار کے طور پر مخالفین کے خلاف استعمال کیا۔خطے کے ممالک بالخصوص پڑوسیوں کے ساتھ دوستانہ سفارتی او ر تجارتی تعلقات قائم کرنے جیسے امور پر حکومتوں نے یا تو سرے سے توجہ ہی نہیں دی یا پھر انہیں ترجیحات میں شامل نہیں کیا۔ وفاقی حکومت نے صوبوں کو ایک ترمیم کے ذریعے انتظامی اختیارات اور مالی وسائل دے تو دیئے لیکن مسلسل ان اختیارات اور مالی وسائل کو واپس سلب کرنے کی تاک میں رہتی ہے۔چنانچہ وفاق اور صوبوں کے درمیان ہر وقت ٹھنی رہتی ہے۔ ابھی تک پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی نہیں بنایا جاسکا اور نہ ہی طاقت ور اداروں کو پارلیمنٹ کی بالادستی تسلیم کرنے پر آمادہ کیا جاسکا۔ سول سوسائٹی کے ادارے جنہیں دنیا میں قوم کا ضمیر قراردیا جاتاہے کا گلہ گھونٹا گیا تاکہ کوئی متبادل نقطہ نظر سامنے نہ آسکے۔
دہائیوں پر مشتمل ناکامیوں اور نالائقیوں کا ملبہ اب سنبھالے سنبھالا نہیں جارہا۔ملک کی لڑکھڑاتی کشتی کو پار لگانے کا کسی کے پاس کوئی فارمولہ ہے اور نہ درکار سیاسی عزم۔سب اندھیر میں ٹومک ٹوئیاں مارہے ہیں۔کوئی ذمہ داری اٹھانے والا نہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں