آذاد کشمیر میں پی ٹی آئی کہاں گئی ؟ ….سعید الرحمن صدیقی

 آذاد کشمیر میں پاکستان تحریک انصاف کی عمارت جسے بڑی محنت اور سرمایہ کاری سے راجہ فاروق حیدر خان کے سخت گیر بیانئے کے بعد بنا کر انکی حکومت قائم کی گئی تھی بالآخر بنیادیں کھوکھلی ہونے کے باعث اپنی ہی نالائقوں کے باعث دھڑام سے زمین بوس ہو کر ریزہ ریزہ ہو چکی ہے پی ٹی آئی آذاد کشمیر کی پارلیمانی حیثیت اس وقت اور کھل کر سامنے آگئی جب پارٹی سربراہ عمران خان کی سخت ھدایت پر آذاد کشمیر کے خصوصی اجلاس میں 33 پی ٹی آئی ممبران اسمبلی میں سے  سات اراکین ہی لاہور پہنچے جس اجلاس میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے نومنتخب وزیر اعظم ازاد کشمیر چودھری انوار الحق سے اعلان برات کرتے ہوئے پی ٹی ازاد کشمیر کو اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے کی ھدایت کی گئی اور عمران خان نے سردار تنویر الیاس کو پارٹی صدارت سے نکال کر سردار قیوم نیازی کو پی ٹی آئی آذاد کشمیر کا سربراہ جبکہ خواجہ فاروق احمد کو قائد حزب اختلاف نامزد کر دیا اس طرح سے مختصر عرصہ میں دو وزرائے اعظم کی تبدیلی عدلیہ اور اداروں سے لڑائی اور پی ٹی آئی آذاد کشمیر کے باہمی انتشار نے پی ٹی آئی آذاد کشمیر اپنے انجام کو پہنچ گئی سردار تنویر الیاس جن پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے پی ٹی آئی آذاد کشمیر بنانے کے لیے بھاری سرمایہ کاری کی جسکی تصدیق انکے والد اور بھائی نے سنٹورس تنازعہ کے موقع پر کی تنویر الیاس کی وہ ساری سرمایہ کاری بھی ضائع گئی نہ وہ وزیر اعظم رہے نہ ممبر اسمبلی اور نہ پارٹی صدارت انکے پاس رہی  انسان کو اتنی ہی چھلانگیں مارنی چاہئے جتنا اس کا قد ہو لیکن تنویر الیاس وزیر اعظم اور دولت کے نشے اور  چاپلوسی ٹولے نے اس قدر انکی مت مار دی تھی کہ ہیرو بننے کے شوق میں بلاخر ہر طرف سے زیرو ہو گئے اس لیے عقلمند کہتے ہیں اتنے ہی پاوں پھیلاؤ جتنی چادر ہے تنویر الیاس کو خود سوچنا چاہئے تھا سیاست میں انکا کونسا مشاھدہ اور طویل جدوجہد ہے پیسے سے گو کہ انہوں نے سب کچھ خرید لیا لیکن عقل نہ خرید سکنے کے باعث سب کچھ جتنی تیزی سے خریدا اتنی تیزی سے گنوا بھی دیا تنویر الیاس صاحب کو سردار عبدالقیوم خان نیازی کے بعد ازاد کشمیر میں بڑے مواقف حالات ملے تھے کیونکہ سردار عبدالقیوم نیازی نہ صرف اپنی جماعت میں غیر مقبول بلکہ سنارٹی بھی بائی پاس کر کہ وزیر اعظم بنائے گئے تھے وہ وزیر اعظم تو حادثاتی طور پر بن گئے لیکن ایم ایل اے سطح کی انکی سوچ ہی رہی آذاد کشمیر میں مغل برادری کو ان سے بڑی امیدیں وابستہ ہوگئی انہوں نے پہلا کام تحریک آذادی کے نام پر ادارے کشمیر لبریشن سیل پر ایسا شب خون مارا کے پرانے سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے گوکہ سابقہ حکومتیں بھی کشمیر سیل کی صوبیددی آسامیاں اور وسائل اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتی تھی لیکن اس بار تو انہوں نے تقریبا تمام صوبیددئ آسامیوں پر اپنے ہی حلقے کے سیاسی بے روزگاروں کو لگا دیا  جس پر میڈیا میں شور ہوا تو قیوم نیازی صاحب نے اپنے احکامات واپس لئےاور اپنے بھائی کو اکاموڈیٹ کیا خیر بات تنویر الیاس کی ہو رہی تھی کہ انہیں وزیر اعظم بننے کے بعد مواقف حالات ملے لیکن انہوں نے حالات زبردستی خراب کئے اپنی ہی جماعت کے سابق وزیر اعظم سردار قیوم نیازی بیرسٹر سلطان خواجہ فاروق انوار الحق کے خلاف کھلے اور درپردہ جنگ اپنے محسن ماجد خان ( جو تنویر الیاس کو وزیر اعظم بنانے میں ماسٹر مائنڈ سمجھے جاتے تھے)کو چارج شیٹ کرکہ وزارت واپس لینے سے نہیں چوکے بیروکریسی پر سنگینی کرپشن کے چارجز لگائے اور کچھ بیوروکریٹس کو اپنے کچھ چاپلوس مشیروں لے کان بھرنے پر شواہد کے بغیر کلیدی عہدوں کے حصول پر بھاری رشوت کے الزامات عائد کئے۔میڈیا کی تذلیل اور بے عزتی کو فخر محسوس کرنے لگے وہ خفیہ ادارے جن پر اپوزیشن الزام لگاتی رہی کہ تنویر الیاس آذاد کشمیر کی سیاست میں انکی دریافت ہیں بات بات پر انکی تضحیک اور للکارنے لگے ازاد کشمیر کی عدلیہ کی توہین پر کھلے عام بیان بازی کی گئی تو تنویر الیاس صاحب کا بوری بستر گول ہونے کا سبب بن گئی دلچسپ بات یہ ہے کہ تنویر الیاس کو بھڑکانے والا مفاد پرست ٹولا توہین عدالت کے بعد تنویر الیاس کے زوال کی شروع ہوتے ہی سب سے پہلے برق رفتاری سے بھاگا۔تنویر الیاس اکیلے ہی رہ گئے عدالت سے ناہلی اور جماعتی مرکزی قیادت پر سنگین الزام تراشی کے بعد ازاد کشمیر کی پارٹی قیادت سے بھی ہاتھ دھونا پڑ گئے 

نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے 

رہے دل میں ہمارے یہ رنج و الم نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے

تنویر الیاس کی غلطیاں یا بے وقوفیاں اپنی جگہ لیکن اس ساری صورتحال میں آذاد کشمیر اسمبلی کے ممبران کا کردار بھی باعث افسوس رہا محض اقتدار کی خاطر منتخب وزیر اعظم جسے آذاد کشمیر کے سب سے بالادست آئینی ادارے اسمبلی کے قائد ایوان تھے انکی اسطرح سے بے توقیری پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین رکھنے والے کسی بھی سیاستدان کے مفاد میں نہیں گو کہ اس عمل سے کچھ سیاستدانوں کو ذاتی مفاد ضرور حاصل ہوا ہے لیکن وقت بڑا بے رحم ہے جو غلط روایات ڈالی گئی ہیں وہ  سیاستدانوں کو کاٹنی بھی خود پڑیں گی

آذاد کشمیر کی پارلیمانی تاریخ میں یہ پہلی مثال ہے کوئی وزیر اعظم توہین عدالت کا نہ صرف مرتکب ہوا ہو بلکہ عدالت سے سزا یافتہ بھی ہو جو تنویر الیاس صاحب کی لاابالی طبیعت کا نتیجہ تھا آذاد کشمیر کی عدلیہ کو آئین اور قانون کی بالادستی کیلئے یہی کرنا چاہیے تھے یہی وجہ ہے کہ عوامی سطح پر اس فیصلہ کی حمایت دیکھی گئی میری یہ رائے سردار خالد ابراہیم مرحوم کے توہین عدالت کی چارج شیٹ کے تاریخی واقعہ کے تناظر میں لکھ رہا ہوں کہ جب چیف جسٹس سپریم کورٹ وقت ریاض اختر چوھدری نے سردار خالد ابراہیم کو پہلی بار توہین عدالت کے نوٹس بیجھے تو اس وقت شدید عوامی ردعمل کے باعث یہ نوٹس واپس لے لیا گیا تھا بعد ازاں چیف جسٹس سپریم کورٹ وقت چوھدری ابراہیم ضیا دور میں دوسری بار سردار خالد ابراہیم کو توہین عدالت کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن سابق وزیر اعظم سردار تنویر الیاس کے توہین عدالت اور خالد ابراہیم کے توہین عدالت کا موازنہ اس وجہ سے نہیں کیا جاسکتا کہ ایک تو تنویر الیاس سربراہ ریاست تھے دوسرا انہوں نے عدالت کے سامنے خود اعتراف جرم کر کہ اپنی طرف سے بھی توہین عدالت کو تسلیم کر لیا تھا اگر اس سطح پر عدلیہ کو بے توقیر کرنے کی رویت چل پڑی تو آذاد کشمیر میں قانون کی بالادستی کہاں رہ جائی گی؟ یہی وجہ ہے کہ تنویر الیاس کی سزا اور نااہلی پر انکی اپنی پارٹی اور انکے ممبران اسمبلی نے ان کا ساتھ نہیں دیا آذاد کشمیر کے ایک بڑے اور قدرے پس ماندہ حلقے سے چوھدری انوار الحق وزیر اعظم بن چکے ہیں اور انکی کابینہ میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ بھی شامل ہے چودھری انوار الحق دلیر اور کھرے سیاستدان سمجھے جاتے ہیں اور انکے سابقہ ریکارڈ میں کرپشن کے بھی چارجز نہیں انوار الحق عزت نفس پر ڈٹنے والی شخصیت ہیں اور انکو اپوزیشن کی کھلی حمایت کے بعد بہت سازگار ماحول بھی مل گیا ہے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ اچھی کارکردگی دکھائیں گے وزیر اعظم بننے کے بعد انکی جانب سے پروٹوکول نہ لینے کو بھی عوامی سطح پر سراہا جا رہا ہے لیکن عوام ظاہری اقدامات کے ساتھ عملی اقدامات بھی دیکھنا چاہتے ہیں بہر حال آذاد کشمیر میں نومولود جماعت پاکستان تحریک انصاف کی حقیقت بھی عوام کے سامنے بہت کھل کر سامنے آگئی کہ اسکی جڑیں عوام میں نہیں ہیں سات ممبران اسمبلی میں سے پانچ ان مہاجر حلقوں سے ہیں جنکا سیاسی مستقبل پاکستان کے حلقوں سے جڑا ہوا ہے اور آذاد کشمیر سے منتخب ہونے والے دو ممبران کو قائد حزب اختلاف اور صدر جماعت کے عہدے کی اکاموڈیشن انکے پاوں کی زنجیر بنی جبکہ دوسری طرف انہیں سیاسی مستقبل نہیں نظر اریا تھا پھر کہاں گیا وہ نظریہ اور کمٹمنٹ جسکا پرچار عمران خان ملک بھر میں کر رہے ہیں ؟حقیقت میں یہ ساری لچھے دار باتیں عوام کو بے وقوف بنانے کی سوا کچھ نظر نہیں آتی کیا ہی اچھا ہوتا پی ٹی آئی بیساکھیوں پر کھڑی ہونے کی بجائے ازاد کشمیر میں عوامی سطح پر منظم جماعت کی طرح کھڑی ہوتی آج اس بحران سے پی ٹی آئی کے گراس روٹ سطح کے ورکرز میدان عمل میں آکر  نکالتے لیکن جب قیادتیں مسلط کی جائیں تو عارضی کامیابی تو مل سکتی ہے دیرپا نہیں پیپلز پارٹی ن لیگ سے لاکھ اختلاف ہوں لیکن آذاد کشمیر میں انکی تنظیم اور ورکرز نچلی سطح تک دیکھے جا سکتے ہیں اور ان دو جماعتوں کے علاوہ مسلم کانفرنس جے کے پی پی اور جماعت اسلامی کا ووٹ بنک بہرحال موجود ہے یہی کسی بھی عوامی جماعت کا خاصہ ہے پی ٹی آئی اگر ازاد کشمیر میں مستقبل میں اگر اپنی بقا چاہتی ہے تو اسے عمران خان کی پاکستان مقبولیت دیکھ کر خوش ہونے کی بجائے آذاد کشمیر میں جماعت کو منظم کرنا ہوگا اور نچلی سطح سے کارکنان کو آگے لانا ہوگا جسکی توقع نہیں 

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں