آہ۔۔میڈم سائرہ سید۔۔۔عنبرین کرن بٹ (راولاکوٹ)

تپتی ریت میں اگا وہ شجرکہ چھاؤں پائے کوئی ہر بیل اور بوٹا یہ چاہے کہ اسے واپس لائے کوئی
ڈوبتی کشتیوں کی سمت بدل کر ساحل تک لایا جس نے وہ خود ڈوب چلا ہے، ہائے اسے بچائے کوئی
مزین نور سے چشم ہے، بزم بھی نکھری ہے مانند گل ہم بھی جلائیں چراغ اپنے حصے کا، اور روشنی پائے کوئی
خار چن لیے،کٹھن راہوں کو سہل کیا جس نے ایسے معمار کے زخم دیکھے، اسے سراہے کوئی
خزاں رت کو بدلا تن تنہا، بہاروں میں جس نے لحد اس کی بھی پھولوں سے سجائے کوئی
وہ ستمبر کی ایک خوشگوار روشن صبح تھی۔ معمول کے مطابق زندگی اپنے سفر پر رواں دواں تھی۔سب لوگ اپنے روزمرہ کے معاملات نمٹانے کی تیاریوں میں مشغول تھے۔ایک طرف تو یہ دن کچھ لوگوں کے لیے خوشی، مسرت اور کامیابی کی بہار لے کے آیا تھا۔ مگر دوسری طرف اسی دن کچھ لوگ غمگین دلوں اور افسردہ چہروں کے ساتھ آہ و فغاں اورگریہ و زاری کر رہے تھے۔ دکھ تو ان کا حقیقتا بہت بڑا تھا۔مگر رب العالمین کی رضا کے سامنے سارے دلائل اور بے چارگیاں بے معنی ہو جاتی ہیں۔تمہید اور تاویل صدمے اور دکھ کے سامنے اپنی حثیت کھو بیٹھتی ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ دنیا بھر کے دکھ ایک طرف اور کسی کا موت کی آغوش میں چلے جانے کا درد ایک طرف۔ آپ اگر کبھی اس اذیت سے دوچار ہوئے ہوں تو میری اس بات سے ضرور اتفاق کریں گے کہ کسی بھی قسم کے مصائب سے ہمت نہ ہارنے والا شخص موت جیسی تلخ حقیقت کے ہاتھوں مسل دیا جاتا ہے۔باکمال حوصلے اور بے انتہا ہمت کے باوجود انسان خود کو لوگوں کی بھیڑ میں بھی تنہا اوربے بس محسوس کرتا ہے۔
الفاظ کی ترکیب اور ترتیب سے آپ پڑھی جانے والی تحریر کے مرکز سے بخوبی واقف ہو چکے ہوں گے۔بس انتظار اس ہستی کے نام کا ہو گا۔جس سے جڑے تعلق کی بے لوث محبت نے مجھے یہ تحریر لکھنے کے قابل بنایا۔ میرے لرزتے ہاتھ اور درد میں ڈوبے الفاظ وہ نام لکھنے سے کافی حد تک کترا بھی رہے ہیں۔ مگر قارئین کرام کے تجسس کو کم کرنے کی غرض سے مناسب ہے کہ اس عظیم شخصیت کے نام سے پردہ ہٹا لیا جائے۔
کشمیر ایجوکیشن فاؤنڈیشن اور پرل ویلی پبلک اسکول راولاکوٹ کے نام کو جہاں تک جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ وہیں پہ میڈم سائرہ سید کا نام بھی کسی کے لیے ان سنا نہیں ہو گا۔اگرچہ اس فاؤنڈیشن کو جنرل رحیم خان صاحب اور ان کے بھائیوں نے قائم کیا تھا، مگر اس کی کارکردگی اور کامیابی کی تاریخ میں میڈم سائرہ سید کا نام بھی ہمشہ سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ جنھوں نے اپنی زندگی کے پچیس بہترین سال اس فاؤنڈیشن کو دئیے۔بچوں کی تعلم و تربیت سے لے کے اساتذہ کی تدریسی تربیت تک آپ نے انتھک محنت کی۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے اس فاؤنڈیشن کے انتظامی امور کو بھی بہت احسن طریقے سے سر انجام دیا۔پیشہ وارانہ طور پر وہ ایک محنتی، فرض شناس، منظم،بااصول او رقابل خاتون تھی۔ان کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں نے ہی ان کے کیر ئیرکو چار چاند لگائے۔
میڈم سائرہ سید ۶۹۹۱ء میں پرل ویلی پبلک اسکول میں بطور معلمہ تدریس کے شعبے سے منسلک ہوئی۔تقریبا ۳۱ سال وہ اسی ادارے میں پہلے معلمہ اورپھر نائب پرنسپل کے عہدے پر فائز رہیں۔۹۰۰۲ء میں آپ کو اسی فاؤنڈیشن کے قائم کردہ ادارے کالج آف ایجوکیشن (روات، بسالی)میں ادارہ ہذا کی ڈائریکٹر تعینات کیا گیا۔ جہاں انھوں نے بے شمار خواتین کوتدریسی تربیت دینے کے کام کو مزید ترقی دی۔ ۳۱۹۱میں انھیں کشمیر ایجوکیشن فاؤنڈیشن ہیڈ آفس میں ڈائریکٹر آف ایویلیوایشن اینڈ کونسیلینگ مقرر کیا گیا۔اس عہدے کی وساطت سے انھوں نے فاؤنڈیشن کے تمام اسکولوں اور کالج آف ایجوکیشن کی ایویلیوایشن کا باقاعدہ نظام متعارف کروایا۔جو ان کے پیشہ وارانہ کیر ئیر میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ۹۱۰۲ ء میں انھیں فاؤنڈیشن کی ایکٹینگ چیف ایگزیکٹو آفیسرکی خدمات سرانجام دینے کا موقع ملا۔بعد ازاں فروری، ۱۲۰۲ میں انھیں کشمیر ایجوکیشن فاؤنڈیشن میں پہلی خاتون چیف ایگزیکٹو آفیسر کے منصب پر فائز ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ جو ان کی زندگی میں قابل رشک بات تھی۔ شاید اللہ تعالی کی طرف سے یہ ان کی اپنے کام سے لگن کا ثمر تھا۔ مگر افسوس اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔زندگی نے ان سے وفا نہ کیا اور ۱۲۰۲ میں ہی کرونا کے وبائی مرض میں مبتلا ہوگئی۔ان کی بیماری کی خبر جنگل میں آگ کی ظرح پھیلی تھی۔ہر چند پھیلی اداسی اور ہر چشم تر کے پیچھے خاموش سسکیاں اور ان گنت دعائیں تھیں۔ ہر وہ انسان جو اپنی زندگی میں چند پل کو ہی ان سے ملا تھا، ان کی صحت یابی کو لیے دعا گو تھا۔
میرا ان سے تعلق کوئی ۹ سال رہا۔ جس میں وہ ایک منتظم کی حثیت سے ہی میرے سامنے رہی۔ ان کی ذات میں جو چیز مجھے ان کی طرف راغب کرتی تھی وہ ان کا غیر تفرقانہ رویہ تھا۔وہ انفرادی قابلیت کے علاوہ کسی انسان کو خاندان اور ذات کے معیار سے نہیں دیکھتی تھی۔میرا کافی دفعہ ان سے کچھ موضوعات پر تبادلہ خیال بھی ہوا کرتا تھا، بالخصوص جب میرا قیا م ہاسٹل میں تھا۔ جہاں ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ کردار سازی سے لے کر کھانا پکانے تک وہ ہر بات سیکھانے کے لیے ہر وقت تیار رہتی تھی۔ ان کی ایک من بھاتی عادت یہ بھی تھی کہ وہ کبھی بھی پیشہ وارانہ اور ذاتی زندگی کو ایک جیسا نہیں رکھتی تھی۔ اسکول کے کام کے اوقات کار کے علاوہ کبھی کام سے متعلق بات نہیں کرتی تھی۔ بلکہ بہت خوشگوار ماحول میں عام انداز میں بات چیت کیا کرتی تھی۔ان کی شخصیت میں عجیب قسم کاکھچاؤ تھا۔ بارعب، پر اعتماد ہر خوف و ڈر سے عاری۔بہت منفرد اور مخصوص انداز، نہ کبھی زوال آیا، نہ کبھی شکست مانی۔مجھے کیا شایدکبھی کسی کو شائبہ تک بھی نہ ہوا ہو کہ ان کی زندگی میں بھی کسی قسم کے کوئی مسائل تھے۔ بہت نڈر اور بہادر خاتون تھی۔ مگر ہر ذی روح کو آخر لقمہ اجل بننا ہے۔ اور ہر انسان کو اپنے خالق حقیقی سے ملنے کی خاطر موت کا مزہ چکھنا ہے۔جلد یا بادیر ازلی منزل کی طرف گامزن ہونا ہے۔
میڈم سائرہ سیدنے بھی اپنا رخت سفر یونہی باندھا۔اللہ تعالی سے بہت سی دعاؤں اور التجاؤں کے باوجود وہ شفایاب نہ ہو سکی۔ اللہ تعالی نے ان سے جو کام لینا تھا وہ تقریبا مکمل ہو چکا تھا۔ اب اللہ تعالی نے ان کی خدمات کے صلے کے طور پر انھیں راحت و سکون سے ٖابدی نیند سلانا ہی بہتر سمجھا ہو گا۔مگر وہ اپنے پیچھے ہزاروں ایسے کامیاب لوگ چھوڑ گئی، جو تاقیامت ان کے لیے صدقہ جاریہ بنے رہیں گے۔ ان کی خدمات کا رب کی طرف سے یہی صلہ ملا ہے۔ کہ ان سے محبت کرنے والے ان کو اپنی دعاؤں میں ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ انشاء اللہ
امید ہے اس تحریر کو پڑھنے والے سب لوگ بھی ان کی خدمات کو سرہاتے ہوئے ان کی مغفرت اور جنت الفردوس میں اعلی مقام کے حصول کے لیے ان کو اپنی مخصوص دعاؤں میں شامل رکھیں گے۔ انشاء اللہ

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں