انسانی تاریخ و زلزلہ جات:خدشات و اقدامات… پروفیسر امریٹس ڈاکٹر محمد رستم خان

کرہ ارض تقریباً ساڑھے چار ارب سال پہلے معرض وجود میں آیاجبکہ کائنات اس سے بہت قبل وجود میں آ چکی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق کائنات کی عمر 13.77ارب سال ہے۔ تاحال سائنس انسانی ارتقاء یا انسانی تاریخ کے حوالے سے کسی ٹائم فریم کو حتمی شکل نہیں دے سکی۔
افریقہ سے انسانوں کے فاسلز کی طرح کے کچھ فاسلز (Fossils)ملے ہیں۔ یہ انسان نما جاندار تقریباً 02سے 06 ملین سال پہلے زمین پر موجود تھے اور ان کی 15سے 20 مختلف اقسام بتائی جاتی ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ زمین پر سب سے پہلے انسان آدم علیہ السلام اور اماں حوا اترے۔ جن کی نسل سے تمام بنی نوع انسان پیدا ہوئے۔ اسرائیلی یہودیوں کے مطابق آدم علیہ السلام تقریباً 15ہزار سال پہلے زمین پر اترے۔ کچھ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ افریقہ سے ملنے والے یہ انسانی شکل کے فاسل کسی اور مخلوق کے ہیں۔پروفیسرڈاکٹر رفیق صاحب بھی اس طرح کا نظریہ پیش کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات کو پیدا کرنا تھا اس لئے تجربے کے طور پر پہلے انسان ہی کی طرح کی مخلوق کو پیدا کیا اور بعد ازاں انسان کو زمین پر اتارا گیا۔ پروفیسر رفق صاحب کا نظریہ ایک لحاظ سے بہت مناسب لگتا ہے کہ جس طرح زمین کو کائنات سے تقریباً09 ارب سال بعد تخلیق کیا گیا اسی طرح انسان سے قبل انسان ہی کی طرح کی کسی مخلوق کو بنایا گیا ہو گا۔ چونکہ ابتدا میں زمین کا درجہ حرارت بہت زیادہ تھا اور آہستہ آہستہ یہ ٹھنڈی ہوئی اور اس پر انسانی وجود ممکن ہو سکا۔
زمین کی سطح پر تقریباً 71فیصد پانی ہے اور باقی 29فیصد خشکی ہے۔ شروع میں زمین کی سطح پرخشکی کا ایک ہی ٹکڑا (Super Continent) تھا جو آہستہ آہستہ مختلف پلیٹوں میں تقسیم ہونا شروع ہو گیا۔ پلیٹوں کے اس توڑپھوڑ کے عمل کو اور ان کی حرکات کو پلیٹ ٹکٹانکس(Plate Tectonics) کا نام دیا گیا۔ پوری زمین پر اوسطاً 7بڑے، 8درمیانے اور 20 سے زیادہ چھوٹے سائز کی پلیٹیں ہیں۔ یہ پلیٹس کہیں ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراتی ہیں، کہیں ایک دوسرے سے دور ہو رہی ہیں اور کہیں ایک دوسرے کے متوازی(Across) مخالف سمت میں حرکت کرتی ہیں۔ ان میں کچھ پلیٹیں خشکی کی اور کچھ سمندری ہیں۔ دنیا میں ہر سال آنے والے زلزلوں میں 90فیصد زلزلے ٹکٹانک (Tectonic Earthquakes) کہلاتے ہیں۔ بقیہ سب جن میں وہلکینک زلزلہ (Volcanic Earthquake) شہاب ثاقب کے گرنے سے اور لینڈ لائیڈنگ وغیرہ سے آنے والے زلزلے اوسطاً10فی صد ہیں۔ اگر زلزلوں کی تاریخ دیکھی جائے تو یہ کروڑوں سال پرانی ہے۔ زلزلے زمین کی سطح سے لے کر 700کلو میٹر کی گہرائی تک آتے رہے ہیں اور آئندہ بھی آتے رہیں گے بلکہ ان کے تسلسل (Frequency)میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ترکیہ میں حالیہ آنے والے زلزلے جن کی ریکٹر سکیل پر شدت بالترتیب 7.9 اور 7.6تھی ان کی انرجی اناطولین پلیٹ (Anatolian Plate) اور عربین پلیٹ کے درمیان ایک دوسرے کے متوازی مخالف سمت میں حرکت کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ اس طرح کی فالٹ لائن کو Strike Slip Faultکہا جاتا ہے۔ اسی طرح کی فالٹ لائن پاکستان میں انڈین اور یوریشین پلیٹس کے درمیان ہے جو شمالی علاقہ جات سے کوئٹہ اور کراچی سے ہوتے ہوئے بحر ہند تک جاتی ہے۔ ترکیہ میں متذکرہ بالا فالٹ لائن کے ساتھ زیادہ شدت کا زلزلہ 79سال قبل آیا تھا جبکہ چمن فالٹ کے ساتھ 1935 میں ریکٹر سکیل پر 7.7شدت کا زلزلہ آیا تھا جوکوئٹہ اور اس کے گردونواح میں بڑے نقصانات کا موجب بنا۔اس طرح گزشتہ تقریباً85 سالوں کے دوران اس فالٹ کے ساتھ پاکستان میں دوبارہ کوئی بڑا زلزلہ نہیں آیا۔ اسی وجہ سے لوگ اندازہ لگاتے ہیں کہ اب کسی بھی وقت پاکستان میں چمن فالٹ کے ساتھ زیادہ شدت کا زلزلہ آ سکتا ہے۔
یہاں میں وضاحت کرتا چلوں کہ زلزلوں کی پیشن گوئی بھی موسم کی پیشنگوئی کی طرح تین قسم کی ہوتی ہے۔
3) Short Term
2) Medium Term
1) Long Term
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ زلزلہ کے دوران کم تباہی آتی ہے مگر اس کے بعد جسے Short Term Secondary Effects of Earthquakesکہا جاتا ہے مثلاً سونامی، لیکویفیکیشن، لینڈ سلائیڈنگ اور آگ وغیرہ سے زیادہ نقصانات ہوتے ہیں۔ جب زلزلہ آتا ہے تو انرجی لہروں کی صورت میں خارج ہوتی ہے اور یہ لہریں زلزلہ کے مرکز کے قریب زیادہ تباہی کا موجب بنتی ہیں۔ اور جوں جوں مرکز سے دور جاتی ہیں ان کی شدت میں کمی آتی جاتی ہے۔ اگر اس کا مرکز زیادہ گہرائی میں ہو تو کم خطرناک ثابت ہوتیں ہیں۔ اور اگر زمین کے قریب ہو تو زیادہ نقصانات کا مؤجب بنتی ہیں۔ اس کے علاوہ زیادہ گہرائی والے زلزلوں کے آفٹر شاکس بھی کم ہوتے ہیں۔عموماً دس سے ہزاروں سال کے دوران آنے والے زلزلوں کی پیشنگوئی کو Long Term Earthquake Prediction، چندماہ سے چند سالوں تک آنے والے زلزلوں کی پیشنگوئی کو Medium Term Earthquake Prediction اور چند ماہ سے چند گھنٹوں کے اندر آنے والے زلزلوں کی پیشنگوئی کو Short Term Earthquake Prediction کہا جاتا ہے۔

اگر زلزلوں کی پرانی تاریخ دیکھی جائے تو ہمالیہ پہاڑی سلسلہ جس کی لمبائی 3000 کلو میٹر ہے اور پاکستان میں ان کی چوڑائی تقریباً 300 کلو میٹر ہے اور انڈیا میں ان کی چوڑائی100سے200 کلو میٹر تک ہے۔ ہمالیہ کے اس سلسلے میں ہر پانچ سے چھ سالوں کے درمیان کہیں نہ کہیں 7یا اس سے زیادہ شدت کے زلزلے آتے رہتے ہیں۔ مظفرآباد میں 2005ء میں 7.6 شدت کا زلزلہ وقوع پذیر ہوا۔ جبکہ جموں میں 1905ء میں 7.8 کی شدت کا زلزلہ آیا۔ اسی طرح سری نگر میں 100سال پہلے 7 سے زیادہ شدت کے زلزلے آتے رہے ہیں۔ اس لئے لوگوں کا خیال ہے کہ سرینگر کے قریب پھر زیادہ شدت کا زلزلہ آ سکتا ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہاں زیادہ شدت کا زلزلہ ہی آئے۔ اکثر چھوٹے چھوٹے جھٹکوں سے بھی انرجی خارج ہوتی رہتی ہے۔ مثلاً ہر پہلے سکیل سے دوسرے سکیل کا زلزلہ 32گنا زیادہ انرجی خارج کرتا ہے۔ اسی بناء پر لوگ مقبوضہ کشمیر میں Medium Termبڑے زلزلوں کی پیشنگوئی کرتے ہیں۔جیسے چند ماہ قبل اکثر لوگ پریشان تھے کہ جموں کے قریب ریاسی فالٹ کے ساتھ 8یا 8سے زیادہ شدت کا زلزلہ آنے والا ہے۔ چونکہ زلزلوں کی پرانی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ باغ اور جموں کے درمیان 1515ئمیں 7.6شدت کا زلزلہ آیا تھا۔ اس کے بعد اس علاقے میں کوئی بڑا زلزلہ نہیں آیا۔ اسی طرح جموں سے نیپال (کھٹمنڈو) کے درمیان 1505ء میں 7.9شدت کا زلزلہ آیا تھا۔ اس کے بعد اس علاقے میں بھی کوئی قابل ذکر بڑا زلزلہ نہیں آیا۔ اس طرح جہاں زیادہ عرصہ تک زلزلے نہ آئیں اس کو سسمیک گیپ (Seismic Gap) کہتے ہیں۔ انہی سسمیک گیپس کو سامنے رکھ کرسیسمالوجسٹس(Seismologists)درمیانے وقت کے اندر (Medium Term Prediction) آنے والے زلزلوں کی پیشنگوئی کرتے ہیں جو چند ماہ سے چند سالوں کے اندر آ سکتے ہیں۔ جہاں جہاں دریا پہاڑی علاقوں میں بہتے ہیں وہاں زلزلے کے بعد لینڈ سلائیڈنگ سے دریا بند ہو جاتے ہیں اور جب یہ بند ٹوٹتے ہیں تونچلی طرف (Down Stream) طغیانی سے نقصانات ہوتے ہیں۔ اسی طرح دریاؤں کے کنارے دریا سے بنے ہوئے میدانی علاقے (River Terraces)میں لیکویفیکیشن(Liquefication)سے تعمیرات بری طرح متاثر ہوتی ہیں۔ اگر کشمیر اور شمالی علاقہ جات میں کسی وقت زیادہ شدت کا زلزلہ آیا تو اسی طرح کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس لئے لوگوں کو دریا ؤں کے کناروں پر تعمیرات سے گریز کرنا چاہیے۔ اگر زلزلوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے اور اس کے علاوہ بحرہند میں Spreading Rate اور 2005ء کے دوران تھرست شیٹ کی حرکت کو دیکھا جائے تو آئندہ مظفرآباد کے اندر 7 یا اس سے زیادہ مقدار کا زلزلہ 100+20سال بعد آئے گا۔ مگر یہ ضروری نہیں اگر مظفرآباد سے دور بڑی مقدا ر میں انرجی خارج ہو تو اس سے بھی مظفرآباد تھرسٹ کے اوپر تعمیرات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اور بالخصوص فالٹ لائن کے اوپر گھر تباہ ہو سکتے ہیں۔ البتہ یہاں 6سے کم شدت کے زلزلے 16 کلو میٹر سے 60کلو میٹر کی گہرائی پر آتے رہیں گے جس سے اس پٹی میں زیادہ نقصانات ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس لمبی چوڑی پٹی میں بارشوں اور زلزلوں کے دوران لینڈ سلائیڈنگ کے زیادہ خطرات رہیں گے۔ لہذا اس کے لئے ہر سال حکومت کو ایک مخصوص بجٹ مختص کرنا چاہیے تاکہ بارشوں کے دوران ہونے والے نقصانات کا ازالہ کیا جا سکے۔
فالٹ لائنز اکثر علاقوں میں موجود ہوتیں ہیں مگر دوسرے ممالک میں لوگ سیسمک کوڈ کو سامنے رکھ کر تعمیرات کرتے ہیں۔ اگر ہم بھی تعمیرات سیسمک کوڈ کے مطابق فالٹ لائن ((Rupture سے دور سلائیڈنگ سے محفوظ جگہ پر کریں تو پھر ہمیں خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
چند سال قبل دولائی کے قریب ہزارہ کے پہاڑوں میں خشک موسم میں لینڈ سلائیڈنگ ہوئی جو یہ ظاہر کر رہی تھی کہ انڈین پلیٹ میں زیادہ مقدار میں انرجی جمع ہو چکی ہے۔ جو بعد میں کوہ ہندوکش میں اور اس کے علاوہ چیلاس، اٹھمقام، مارگلہ ہلز، گوجر خان اور کالا باغ کے مقامات پر زلزلوں کی صورت میں خارج ہوئی۔ اب کلُیاں کے قریب خشک لیند سلائیڈنگ ظاہر کر رہی ہے کہ جہلم فالٹ جو دریائے جہلم کے ساتھ واقع ہے اس کے مشرق اور شمال مشرق میں بھی Medium Term Earthquakes آ سکتے ہیں۔ کم مدت (Short Term) کے اندر آنے والے زلزلوں سے قبل مندرجہ ذیل تبدیلیاں رونما ہونے لگتی ہیں۔ مثلاً زمین کی سطح میں بسا اوقات Hump سا بننا شروع ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے زمین ہموار نہیں رہتی۔ ہر دفعہ یہ ضروری نہیں مگر اکثر بڑے جھٹکے سے قبل چھوٹے چھوٹے جھٹکے تسلسل کے ساتھ آنے شروع ہو جاتے ہیں جن کو فورشاکس کہا جاتا ہے۔ بعض جگہوں پر ریڈان گیس (Radon Gas) زمین سے خارج ہونے لگتی ہے اس کے علاوہ زمین سے حشرات بھی باہر نکل آتے ہیں۔ جاندار مثلاً گھوڑے اور کتے وغیرہ خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور بھاگ دوڑ شروع کر دیتے ہیں۔ اکثر اوقات بغیر بارش کے چشموں کے پانی میں اضافہ ہونے لگتا ہے یا کمی واقع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اسی طرح میدانی علاقوں میں کنوؤں کے اندر پانی کی سطح میں اضافہ ہو جاتا ہے اور پہاری علاقوں میں فالٹ لائن کے ساتھ خشک موسم میں ہلکی ہلکی لینڈ سلائیڈنگ بھی ہونے لگتی ہے۔ اگر اس طرح کی صورت حال ہو تو ہمیں فوراً کسی بڑے زلزلے سے بچنے کی تیاری کرنی چاہیے۔ا س صورت میں فوراً کسی کھلے میدان میں چلے جانا چاہیے جس کے نیچے پائپ لائنز نہ ہوں اور بجلی کی پاور لائنز بھی نہ ہوں۔ اس کے علاوہ ڈھلوان والی جگہ پر جانے سے گریز کرنی چاہیے۔ دریاؤں اور ندی نالوں کے کناروں پر جانے سے احتیاط کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس صورت حال پر قابو پانے کے لئے حکومت کی طرف سے Early Warning Systemکو بھی بروقت استعمال میں لانا چاہیے۔ شہروں اور دیہاتوں میں لوگوں کی آگاہی کا اہتمام ہونا چاہیے۔ نیز لوگوں کو ٹریننگ دی جانی چاہیے کہ اس صورت حال سے کس طرح نمٹا جا سکتا ہے۔ ہر شہر اور گاؤں کی سطح پر کچھ ایسے افراد تیارکرنے کی ضرورت ہے کہ وہ ایسی صورت حال میں عوام الناس کی رہنمائی کر سکیں۔
دنیا میں ہر سال تقریباً 10لاکھ زلزلے آتے ہیں۔ اسی طرح ریکٹر سکیل پر شدت 2کے تقریباً 6لاکھ زلزلے آتے ہیں جن کو صرف سائنسی آلات سے ریکارڈ کیا جا سکتا ہے۔7سے 7.9شدت کے تقریباً 18زلزلے اور 8سے زیادہ شدت کے صرف 1یا2زلزلے ہر سال پوری دنیا میں وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ ان زلزلوں کو ریکٹر سکیل میں تقسیم کیا گیا ہے جو 1سے 10تک ہے۔ گذشتہ ایک صدی میں 1960ء میں چلی میں سب سے زیادہ شدت کا زلزلہ آیا جس کی ریکٹر سکیل پر شدت 9.5تھی اس کے بعد 1964ء میں الاسکا میں آنے والے زلزلے کی شدت 9.2تھی۔
جہاں زلزلے تباہی کا موجب بنتے ہیں وہاں ان کی کچھ افادیت بھی ہے۔ اگر کسی علاقے میں چھوٹے چھوٹے جھٹکے زیادہ آتے ہوں تو اس طرح انرجی خارج ہوتی رہتی ہے اور بڑے جھٹکے کا خدشہ کم ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ زلزلوں سے زمین کی سطح نرم ہو جاتی ہے اس طرح بارش کا پانی زمین میں بہ آسانی ریچارج (Recharge) ہو جاتا ہے اور فالٹ لائن کے ساتھ زیر زمین سے معدنیات بھی زمین کی سطح پر یا زمین کی سطح کے قریب آ جاتے ہیں۔ زلزلوں کی مثال بارش کی طرح کی ہے اگر بارش باریک برسے گی تو یہ رحمت کی صورت اختیار کرتی ہے اور اگر یہ زور کی برسے تو طغیانی آتی ہے اور ایک زحمت بن جاتی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں