بلدیاتی انتخابات کی بیل منڈ ھے چڑے گی؟پروفیسر محمد فیاض خالدؔ

جس طرح نا چیز اپنے پہلے کالم “کیا بلدیاتی انتخابات کی بیل منڈھے چڑھے گی ” میں ان انتخابات کی اہمیت اجا گر کی تھی جو اکتیس سال کے طویل عرصہ کے بعد جبکہ آزاد کشمیر میں ہر حکومت نے فنڈز نہ ملنے کا بہانہ بنا کر مختلف حیلو ں بہانوں، ایم ایل اے حضرت اپنی کابینہ انتظامیہ اور حساس کیفیت اور ممکنہ منفی نتائج جو سرا سر فریب کہانی کا دوسرا نام تھا اس قدر طویل عرصہ عوام الناس کو اپنے بنیادی حقوق، بنیادی سہولیات جو اُن کو “مقامی حکومتی نظام” کے ذریعہ اُن کی دہلیز پر مل پاتا ہے سے محروم رکھا بلکہ اس نوع کے جملہ وسائل اور فنڈر ملی بھگت سے ہضم کر تے رہے۔ جو کہ ایک دلخراش داستان، اور کرپشن کا بھیانک ریکارڈ بھی ہے۔ اس حساس خطہ میں ایک “مافیا”جو انوکھی کہانیوں کا ریکارڈ کا حامل ہے کے کس طرح اس دوران اس “مافیا”نے عوام الناس کے نام پر کس قدر فنڈز خرد برد کیے اور کمال ڈھٹائی سے جعلی فائلوں کے پیٹ بھر لیے۔ میں نہایت درد مندانہ اپیل کرتا ہوں کہ اس حوالے سے ہر حلقہ، یونین کونسل ہا، ضلع سطع پر جملہ ریکارڈ نہایت غیر جانبداری اور “دیانتدار احتساب”کی بھٹی سے گزارا جائے تو چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔ اس حوالے سے حکومتیں، اسمبلی ممبران اور انتظامیہ اور لوکل سطح سے لے کر اوپر تک “بھیانک مافیا”برابر کا حصہ دار اور مجرم ثابت ہوجا سکتا ہے مگر بشرطیکہ بے لاگ اور بے رحم احتساب ممکن بنایا جائے۔ بہت خوش آئند بات ہے کہ آزاد کشمیر حکومت نے حکومت پاکستان کے مجرمانہ رویہ کہ سیکورٹی فورسز نہ مہیا کیں اور بہانہ عمرانی لانگ مارچ ٹھہرایا بلکہ کمال ڈھٹائی سے آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی قیادت کو کہا جاتا رہا کہ تم اپنے لیڈر سے لانگ مارچ رکواؤ تاکہ ہم “سیکورٹی فورس”بھیجنے کے اہل ہوں۔۔۔۔۔؟ تاریخ شاید ہے کہ پاکستان میں “عمرانی نظام”کو اس قدر نا اہل بزدل اور نابکار “اپوزیشن”ملی اور پھر یہی اپوزیش بلکہ بڑھ کر تیرہ جماعتوں کا جمگھٹ جو موجودہ “حکومتی نظام”کہلا رہا ہے ملا۔۔۔ پاکستان کی ساری تاریخ میں شاید ہی وجود رکھتا ہو۔ عمرانی نظام نے مسئلہ کشمیر کو ٹرمپ تھپکی کی بھینٹ چڑھایا اور مظلوم کشمیریوں کی بندر بانٹ کے لیے آر ایس ایس کے ادنی ٰ کارکن اب حکمران مودی کو 5اگست2019ء برپا کرنے کی کھلی چھٹی دے دی اور کمال ڈھٹائی سے ملت اسلامیہ پاکستان اور آزاد کشمیر میں ممکنہ شدید رد عمل کو روکا اور صرف اور صرف نااہل، نابکار اپوزیشن جو اب حکمران ہے کہ بد ترین سیاسی “نااہلی”سے کشمیر فروشی پر مٹی ڈال دی۔ ورنہ تاریخ شاید ہے کہ کشمیر فروشی تو دور کی بات ہے “شہ رگ پاکستان”کشمیر پر ذرہ بھرغفلت، پہلو تہی، عدم دلچسپی اور مجرمانہ فارمولے پیش کرنے والے کسی بھی حکمران خواہ آمر مطلق پرویز مشرف سے لیکر جنرل ایوب خان تک ہوں عوام الناس کے شدید رد عمل سے نہ بچ پایا۔ لیکن تاریخ نے یہ لیڈر شپ بھی ریکارڈ کی کے مسٹر مودی جیسے غیر حقیقی حکمران کو یہ جراء ت کے ” 5 اگست2019ء ” کا سانحہ خطہ کشمیر میں برپا کر پائے؟؟ میں جہاں خون کے آنسو روتا ہوں نہایت افسوس ملت اسلامیہ پاکستان اور خطہ آزاد کشمیر بالخصوص ہوشمند، دانشور اور لیڈ رشپ کے دعویدار طبقہ پر ہے کہ خطہ کشمیر اس قدر ظلم و ستم، انسانی حقوق کی پامالی اور پورے خطہ مقبوضہ کو “بد ترین جیل”میں بدل دیا گیا لیکن ہماری اس قدر “چپ سادھ”پالیسی اور حد درجہ بے حسی جو ہم سب کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کرتی ہے! معاف کر نا بات پاکستان پر نا اہل اور نابکار براجمان حکومت کے اس فعل سے قدرے دور چلی گئی کہ عمرانی مارچ کا بہانہ بنا کر صرف اس تعصب پر کہ آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے بلدیاتی انتخابات جو اس قدر طویل مدت کے بعد ہونے جا رہے تھے کو نا کام بنانے کی نہایت مجرمانہ کوشش کی جو سراسر قابل مذمت بات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے مرحلے پر مظفرآباد کے اضلاع میں “ن لیگ” کو مار پڑ گئی۔ آزاد کشمیر حکومت، انتظامیہ، الیکشن کمیشن اور جملہ پولنگ عملہ اور بالخصوص عوام الناس مبارکباد کے مستحق ہیں کہ الیکشن مجموعی طور پر پُر امن بنائے اور زبردست ٹرن آؤٹ بھی دکھایا۔ بحر حال سب سے بڑھ کر عدلیہ، سپریم کورٹ مبارکباد کے مستحق ہے کہ ہر حربہ، حیلہ جوئی اور مجرمانہ ہنر مندی کو ناکام بنا دیا اور الیکشن کمیشن کو اخلاقی تعاون سے ہمکنار کیا۔ تاہم بڑا کریڈٹ آزاد کشمیر حکومت کو جاتا ہے کہ عوام الناس کی فلاح و بہبود کو مد نظر رکھا اور “عوامی حکومتوں “کے نظام یعنی “بلدیاتی الیکشن” کو ممکن بنا دیا۔ اب جبکہ لانگ مارچ ختم ہو چکا “جادوئی چھٹری”تبدیل ہو چکی تو “شہبازی نظام”کیا بہانہ گھڑ سکے گا؟ حکومت آزاد کشمیر بقیہ الیکشن کو احسن طریق پر کرائے اور سب سے بڑا اور اہم سوال حکومت سے ہے کہ بلدیاتی نظام جو دیہہ “لوکل کونسل”سے شروع ہو کر ضلع کونسل اور ٹاؤن کمیٹیوں اور کارپوریشن ہا اور میئر حضرات وغیرہ کا حامل ہے کو مکمل قانون سازی کر کے فوری اختیارات اور بجٹ ہا کا حامل بنائے محض الیکشن کرانا ہی کافی نہ ہوں گے بلکہ اصل اختیارات اور ساتھ ہی عوام الناس کی فلاح و بہبود اور جملہ بنیادی حقوق، مفادات کے تحفظ جو جدید تقاضوں اور جدید سہولیات کے ایک تسلسل کا حامل ہو مکمل قانون سازی عمل میں لائی جائے۔ قانون ساز اسمبلی اور بیورو کریسی جو عوام الناس کی فلاح و بہبود کے جملہ کاموں میں “منفی مافیاز”کا روپ دھار چکی ہے۔ الا ماشاء اللہ کہ شاید ان کی تعداد اُنگلیوں کی گنتی۔۔۔۔ کی مثال ہو گی۔ بلدیاتی نظام یعنی مقامی حکومتوں کے لیے مثبت اور جاندار قانون سازی اور عمل درآمد کے لیے جامع کردار اد ا کریں تاکہ عرصہ دراز کے بعد سہی آزاد کشمیر جیسے حساس اور پاکستان بھر میں بڑھ کر شرح خواندگی اور سیاسی سوج بوجھ میں منفرد حیثیت کے حامل عوام الناس کی دہلیز تک بلدیاتی نظام کے تحت جملہ حقوق و مفادات کا تحفظ ممکن ہو سکے۔ حکومت کو بالخصوص ” بیورو کریسی ” پر نظر رکھنا ہو گی۔ جو قانون ساز اسمبلی ممبران کو نت نئی پیچیدگیاں اس حوالے سے لا کر پیش کریں گے کہ اُن سے اختیارات چھن کر “مقامی حکومتوں “کو منتقل ہو رہے ہیں اور ان کی “اجارہ داری”جس پر گزشتہ اکتیس31 سال سے بلا شرکت غیر سے “مختار کل”تھے اور “سیاسی اجارہ داری”بدرجہ اتم قائم تھی کو ایک زبردست جھٹکے اور چیلنج کا سامنا ہو گا۔ چونکہ آزاد کشمیر بہت تعلیم یافتہ بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ خطہ ہے جہاں شرح خواندگی پاکستان کے تمام صوبوں بلکہ اسلام آباد کو مات دے رہی ہے اور بڑھ کر ہے۔ چونکہ آزادکشمیر کی واحد “صنعت” تعلیم کا محکمہ ہے جس کا بجٹ سب سے بڑا بجٹ ہے۔ سکولوں، کالجوں، یونیورسٹی ہا اور میڈیکل کالجز اور انجنیئرنگ کالجز وغیرہ کی بھر مار ہے جس کا مقابلہ پاکستان کا کوئی صوبہ شاید ہی کر پائے۔ لھذا نوجوان اور تعلیم یافتہ قیادت نچلی سطح سے اوپر ضلع تک ابھر کر سامنے آئے گی اور بلا شبہ جہاں “سیاسی جمود”کا خاتمہ ہو گا وہاں صحت مند تبدیلی بھی ممکن ہو گی۔ عوام الناس سے اپیل ہے کہ ہر سطح پر اچھے کردار، اچھی شہرت، اچھے ریکارڈ اور با صلاحیت افراد کا انتخاب کریں جو آپ کے جملہ مسائل کے حل اور مفادات کے تحفظ کے کماحقہ اہل ہوں اور اپنی حیثیت سے بڑھ کر مقامی حکومتوں کے لیے قانون سازی اور بجٹ اور مالی مفادات کے حصول میں بھی بڑھ چڑھ کر خود کو اہل ثابت کر سکیں ورنہ صرف برادری ازم، علاقہ پرستی اور “پارٹی پرستی”کے بت تک محدود نہ رہا جائے بلکہ عوالناس کے وسیع تر مفادات کو اولین ترجیح دی جائے جو بلدیاتی نظام یا “مقامی حکومتوں “کا اصل مقصد ہے۔ با شعور عوام الناس انتخابات کو آسان، سہل اور باہم تعلق اور اتحاد کا ذریعہ بنائیں نہ کی گھر گھر لڑائی کا ذریعہ بنائیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں