بلدیاتی نظام، آمدہ الیکشن، توقعات اور چیلنجز.. بابر منہاس

افلاطون نے کہا تھا کہ “اچھی حکومت اچھے شہری بناتے ہیں اور کسی فرد کی تباہی کا سبب بننے والے عناصر ہی ریاستوں کے زوال کا سبب بنتے ہیں “یوں وہ فرد اور ریاست دونوں کو اہم قرار دیتے ہیں۔ حکومتوں کی مختلف اقسام ہیں اس میں سب سے قدیم بادشاہت ہے جو فرد واحد کی مطلق العنان حکومت ہوتی ہے۔ اشرافیہ کی حکومت جس میں مخصوص طبقے کے چند افراد کو بعض امتیازی صفات کے باعث حکومت کرنے کا حق ہوتاہے اور جمہوریت ایسی حکومت کو کہا جاتا ہے جس میں ہر شخص کو حکومتی معاملات میں شرکت کا حق حاصل ہے۔ تنظیمی ڈھانچے کے کے اعتبار سے پوری دنیا میں تین قسم کی حکومتیں ہیں وفاقی یا مرکزی حکومت، صوبائی یا ریجنل حکومتیں اور مقامی حکومتیں (Local Governments)۔ موضوع کی مناسبت سے مضمون کو مقامی حکومتوں کے نظام، اہمیت، افادیت، آزاد کشمیر میں آمدہ بلدیاتی الیکشن، بلدیاتی اداروں، عوامی توقعات اوردرپیش چیلنجز تک ہی محدود رکھتے ہیں۔ مقامی حکومت کو جمہوریت کی بنیاد، نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی، سماجی خدمات کی فراہمی اور حکمرانی کا مستعد، موثر اور باخبر نظام سمجھا جاتا ہے۔ بحثیت مجموعی پاکستان میں مقامی حکومتوں کے ساتھ جمہوری ادوار میں بھی منصفانہ سلوک نہیں ہوا۔ آزاد کشمیر میں پہلے لوکل گورنمنٹ الیکشن1979ء دوسرے 1983ء تیسرے 1987ء اور چوتھے 1991ء میں ہوئے تھے۔ اسکے بعد تقریباً اکتیس سال کے تعطل کے بعدپانچویں لوکل گورنمنٹ الیکشن مرحلہ وائز 27نومبر، 03اور08 دسمبر2022ء کو بالترتیب مظفرآباد، پونچھ اور میرپور ڈویژن میں ہونگے۔
ان انتخابات سے قبل آزادکشمیر میں 1953ء میں “دیہات سدھار(Village Aid)”کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا گیا جس میں ویلج کونسل قائم کی گئی تھیں اس نظام کے تحت بنیادی سہولیات کی فراہمی اور انفراسٹرکچر کی تعمیر کی بنیاد رکھی گئی۔ بعد ازاں جنرل ایوب خان کے دور حکومت میں بنیادی جمہوریتوں (Basic Democracies)کا نظام متعارف کروا کر ضلع و یونین کونسلوں کے انتخابات کروائے گئے۔1978ء میں محکمہ لوکل گورنمنٹ ودیہی ترقی کے قیام کے بعد سے الیکشن کمیشن لوکل باڈیز کے تحت چار الیکشن کروائے گئے اور پھر ایک طویل تعطل کے بعدیہ الیکشن ہونے جارہے ہیں۔
آزاد کشمیر میں جولائی2021ء کے جنرل الیکشن کے دوران 2,817,090 رجسٹرڈ ووٹرز تھے جبکہ موجودہ لوکل گورنمنٹ الیکشن میں 2,948,002(انتیس لاکھ اڑتالیس ہزار دو)مرد و خواتین ووٹرز حصہ مجموعی طور رپر7957پولنگ بوتھ اور 5377پولنگ سٹیشنز کے ذریعہ سے اپنے رائے ووٹ کے ذریعہ دینگے۔آزادکشمیر میں پہلی مرتبہ لوکل گورنمنٹ کے الیکشن چیف الیکشن کمشنر کے ادارہ کے ماتحت ہورہے ہیں قبل ازیں چاروں الیکشن، الیکشن کمشنر لوکل باڈیز کے تحت ہوئے تھے۔ ان انتخابات کیلئے مردانہ پولنگ سٹیشن کی تعداد 1813، خواتین پولنک سٹیشن کی تعداد 1728اور مشترکہ پولنگ سٹیشن کی تعداد 1836مقرر کی گئی ہے۔ ووٹرز کی یہ تعداد جنرل الیکشن منعقدہ جولائی 2021ء سے 130,912ووٹرز زیادہ ہے۔ یہ الیکشن جماعتی بنیادوں پر ہو رہے ہیں جس میں قومی اور علاقی سطح کی جماعتیں بشمول آزاد کے10556امیدوران انتخابات میں بھرپور حصہ لے رہی ہیں جبکہ 56امیدوران بلامقابلہ منتخب ہوچکے ہیں۔ لوکل گورنمنٹ کے ادارہ جاتی نظام (Institutional Arrangements) میں آزادکشمیر میں 10ضلع کونسل، 278یونین کونسل،05میونسپل کارپوریشن،14میونسپل کمیٹیزاور12ٹاؤن کمیٹیز کے ادارے موجود ہیں۔ منتخب ہوکر آنیوالی لوکل گورنمنٹ کے نمائندگان کے ساتھ محکمہ لوکل گورنمنٹ ودیہی ترقی اور لوکل گورنمنٹ بورڈ کے 2500سے زائد ملازمین بھی اسی نظام کے حصہ بنیں گے اور فیصلہ سازی میں منتخب نمائندگان کی معاونت کرینگے۔ جس کے تحت پورے آزادکشمیر سے ضلع کونسل کے 278ممبران براہ راست(Direct)منتخب ہونگے اور 70ممبران (35خواتین اور 35نوجوان)بالواسطہ (Indirect)منتخب ہونگے۔ یوں پورے آزادکشمیرمیں ضلع کونسل کے ممبران کی مجموعی تعداد 348ہوگی۔ یونین کونسل کے چیئرمینز 278ہونگے۔ پورے آزادکشمیرمیں دیہی اور شہری علاقوں کے اندر 2616وارڈزممبران (2349دیہی اور 263شہری)اور اس تناسب پربالواسطہ منتخب ہونے والے خواتین اور نوجوانوں کی تعداد 618(309خواتین اور 309نوجوان)ہوگی یوں 3234ممبران منتخب ہوکر مقامی حکومتوں کا حصہ بنیں گے۔بحثیت مجموعی پورے آزادکشمیرمیں بشمول ضلع کونسل کے ممبران کے یہ تعداد 3582(3234ممبران وارڈز اور348ضلع کونسل)ممبران منتخب ہوکر لوکل گورنمنٹ سسٹم کا حصہ بنیں گے۔
قارئین کے لئے یہ بات بھی دلچسپی کا باعث ہوگی کہ ان الیکشن کے لئے جو حد بندی (Delimitations)کی گئی اُس پر مقامی لوگوں کی طرف سے اعتراضات اٹھائے گئے اور مختلف عدالتوں میں بھی اس حوالہ سے مقدمات بھی نمٹائے گئے۔ اس حد بندی کے لئے دیہی علاقوں میں وارڈکی تشکیل کیلئے 1500تا2000کی آبادی رکھی گئی، ٹاؤن کمیٹی کیلئے 2000تا 3000کی آبادی، میونسپل کمیٹیز کے اندر3000تا4000کی آبادی اور میونسپل کارپوریشن میں 3500تا5000کی آبادی پر مشتمل وارڈز بنائی گئیں۔آبادی کے ان سلیب(Slabs)کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ لوکل گورنمنٹ سسٹم کے بنیادی یونٹ “وارڈ”پر بالغ آبادی براہ راست اپنا مقامی نمائندہ منتخب کرسکتی ہے۔لوکل گورنمنٹ الیکشن کے لئے قبل ازیں ووٹرز کی عمر 21سال مقرر تھی جوکہ ترمیم کرتے ہوئے جنرل الیکشن کے مطابق 18سال کی گئی ہے۔ ان الیکشن کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ پہلی مرتبہ آزادکشمیر میں براہ راست منتخب ہوکر آنے والے مرد و خواتین کے ساتھ بالواسطہ طور پر دیہی اور شہری اداروں میں بحثیت مجموعی 344خواتین اور 344ہی نوجوان بھی اس سسٹم کا حصہ بنیں گے۔
پاکستان کے تمام صوبوں میں 2001ء کے Local Government Ordinanceکے تحت بلدیاتی انتخابات کروائے گئے تھے جس کے تحت حقیقی معنو ں میں اختیارات منتخب نمائندگان کو منتقل کیے گئے تھے لیکن ازاں بعد اس تسلسل کو بھی جاری نہ رکھا جاسکا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم اور مداخلت پر پنجاب، سندھ، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں الیکشن تو کروائے گئے لیکن حقیقی معنوں میں اختیارات نچلی سطح پر کسی صوبے میں بھی منتقل نہیں کیے گئے۔ آزادکشمیر کے موجودہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے اور کئی قانونی پیچیدگیوں کو دور کرنے میں سپریم کورٹ آف آزادکشمیر نے بھی کلیدی کردار ادا کیا ہے جس کی بدولت الیکشن کمیشن کیلئے ان انتخابات کو قابل عمل بنانا ممکن ہوا۔ پنجاب، خیبر پختونخواہ، سندھ اور بلوچستان کے بلدیاتی نظام میں مختص نشستوں پر خواتین اور نوجوانوں کے علاؤہ مزدور، کسان، اقلیتی آبادیوں اور شیڈول کاسٹ کا کوٹہ بھی رکھا گیا ہے۔اسکے علاؤہ پنجاب اور خیبر بختونخواہ میں پرائمری ہیلتھ، پرائمری ایجوکیشن،زراعت،سوشل ویلفیئر، کھیل، شہری دفاع، ٹرانسپورٹ، پبلک ہیلتھ انجنیئرنگ، آرٹس کلچر، ٹورازم، میونسپل اداروں اور محکمہ لوکل گورنمنٹ کے اداروں اورSubjectکو Devolveکرکے لوکل گورنمنٹ سسٹم کا حصہ بنایا گیاہے اور ضلعی سطح پر متعلقہ اتھارٹیز بنائی گئی ہیں۔ آزادکشمیر لوکل گورنمنٹ کے شیڈول IIIِIV,اورVمیں یونین کونسل، ضلع کونسل،میونسپل کارپوریشن،میونسپل کمیٹی اور ٹاؤن کمیٹیز کے فنکشن دئیے گئے ہیں۔ اُن میں سے متعدد انجام دہی کیلئے باضابطہ محکمہ جات اضلاع کی سطح پر موجود ہیں جن کے ساتھ کوآرڈینیشن کا قابل عمل طریقہ کار وضع کرنا ہوگا۔ لوکل گورنمنٹ سسٹم کو بااختیار بنانے کے لئے حکومت پنجاب نے پنجاب لوکل گورنمنٹ فنانس کمیشن بنا رکھا ہے جو کہ صوبائی وزیر خزانہ کی سربراہی میں کام کرتا ہے جس کے دیگر ممبران میں وزیر لوکل گورنمنٹ، صوبائی اسمبلی کے چار ممبران (جن میں دو ممبران کی نامزدگی قائد ایوان اور دو ممبران کی اپوزیشن لیڈ رکرتا ہے) سیکرٹری خزانہ و منصوبہ بندی و ترقیات، لوکل گورنمنٹ سسٹم سے چارماہرین(جن میں ایک خاتون ہو)اور لوکل گورنمنٹ ڈویژن کے نو سربراہان کوبھی اس کمیشن کا حصہ بنایا گیا ہے۔ اسکے علاؤہ یہ فنانس کمیشن ہرسال لوکل گورنمنٹ ایکٹ پنجاب کی بذیل دوپرویژن کے مطابق سفارشات حکومت پنجاب کو دیتا ہے۔
i. The size of provincial allocable amount in accordance with the principles set out in the section 130
of the Act
ii.The share of individual local governments from the provincial allocable amounts in accordance with principles set out in section 131 of the
Act.
پنجاب نے لوکل گورنمنٹ کے لئے صوبہ کے General Revenue Receiptsسے پہلے دو سال کے لئے کم از کم 26فیصد کا اور آخری دو سال کیلئے 28فیصد Allocable Fundsکا پرویژن لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے اندر رکھا ہے۔ اسProvincialشیئر کے علاؤہ ہر لوکل گورنمنٹ کی اپنی آمدن بھی اس فنڈ کا حصہ بنتی ہے اور پھر بحثیت مجموعی انفرادی اداروں کا بجٹ مرتب کیا جاتا ہے۔کسی بھی لوکل گورنمنٹ کے ادارے کے لئے فنڈز اور گرانٹ دینے کا بھی ایکٹ میں جامع طریقہ کار وضع کررکھا ہے۔ جیسا کہ اُس لوکل گورنمنٹ کی سروس سٹینڈرڈ کو برقرار رکھنے کیلئے کم از کم درکارہ فنڈز، اُس علاقہ کی پسماندگی اور غربت، لوکل گورنمنٹ کے ادارہ کی لوکل ٹیکسز، فیس اور دیگر ذرائع سے حاصل کردہ آمدن، اخراجات کے لئے فنانشل اور پروکیورمنٹ رولز پر بہتر عملدرآمد،جدت پسندی، شفافیت اور متلعقہ لوکل گورنمنٹ کے ادارے میں پبلک سروس کے معیاری ہونے سے Provincialشیئر سے حصہ کو مشروط رکھا گیا ہے۔ اسکے علاؤہ عوامی شراکت داری اور کمیونٹیز کے کردار کو بڑھانے کیلئے Bottom up Planning & the Community Ownership Incentive Systemتجویز کیا گیاہے۔جس کے تحت لوکل گورنمنٹ اپنی حدود کے اندر کمیونٹیز کو بذریعہ کمیونٹی بیسڈ آرگنائزیشن(CBO)کسی بھی منظور شدہ انفرادی سکیم کی مالیت کا 75فیصد بطور گرانٹ دیتی ہے اور بقیہ 25فیصد مستفید ہونیوالی کمیونٹی خود ادا کرتی ہے۔خیبر پختونخواہ میں ویلج کونسل، نیبرہوڈ کونسل (Neighbourhood Council)اور تحصیل کونسل کے تحت بلدیاتی نمائندگان کام کررہے ہیں جبکہ ضلع کونسل کےTierکو ختم کیا گیا ہے۔بدقسمتی سے آزادکشمیر میں اسبارہ میں نہ تو آل پارٹیز کانفرنس ہوئی اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت نے ہوم ورک کرکے کوئی جامع ورکنگ پیپر یا ڈرافٹ ایکٹ تجویز کیا ہو۔ عملاً جب حد بندیاں ہورہی تھیں اُس وقت تمام سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر دیگر صوبوں اور ساؤتھ ایشیائی ممالک کے لوکل گورنمنٹ سسٹم کا جائزہ لے کر اس نظام کو مضبوط، موثر، جدید اور عوام دوست بنانے کے لئے مشترکہ تجاویز کے تحت آزادکشمیر لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں قابل عمل ترامیم کروانی جاہئیے تھیں جو کہ نہ ہوسکیں۔
جہاں تقریباًبتیس سال بعد اس نظام کے دوبارہ فعال ہونے پر عوام الناس میں جوش و خروش ہے وہیں پر اس نظام کے لئے بیشمار چیلنجز بھی ہیں۔ آزادکشمیر میں جو افراد 1970ء سے اس سے قبل پیدا ہوئے ہیں انہوں نے تو بلدیاتی نظام کے تحت ووٹ ڈالے ہوئے ہیں تاہم 1971ء کے بعدپیدا ہونیوالے کسی بھی شہری نے بلدیاتی انتخابات میں ووٹ نہیں ڈالے۔یوں 53سال سے کم عمر افراد آزادکشمیر میں پہلی بار اس عمل میں شریک ہونگے۔سیاسی موبلائزیشن کے عمل کے ذریعہ سے 29لاکھ سے زائد رجسٹرڈ ووٹرز کو پولنگ بوتھ تک نکال کر لانا اور ٹرن آؤٹ کو 60فیصد سے اوپر لے جانا جبکہ آزاد کشمیر کے شمالی اضلاع میں برف باری اور سردی کی شدت میں بے پناہ اضافہ ہوچُکا ہے سب سے اولین چیلنج ہونا چائیے۔ عوامی توقعات پر پورا اُترنا، عوامی معاملات میں شفافیت کے معیار کو قائم رکھنا، حکومتی اداروں کے ملازمین کے ساتھ مل کر نظام کے اندر مثبت تبدیلیاں لانا، بلدیاتی اداروں کے آمدن میں اضافہ کرنا اور ان کو مالیاتی خود مختاری کے منزل پر پہنچانا، موجودہ سٹیٹس کو(Statusquo)کو ختم کرنا اور پرانے نظام کو چیلنج کیے بغیر خاموشی سے عوامی حمایت اور تائید حاصل کرتے ہوئے ادارہ جاتی اصلاحات اور عوامی شراکت داری کو بڑھانا بنیادی چیلنجز ہونگے۔ بلدیاتی نظام کے بارہ میں درکارہ ضروری تربیت حاصل کرنا متعدد جگہوں پر بغیر سرکاری عمارات کے کام شروع کرنا، سیاسی اشرافیہ کا حصہ نہ بننا۔مزید برآں سوشل موبلائزیشن، مصالحت، تربیت اور شعور و آگہی بیداری میں پارٹی مفادات سے بالا ہوکر ریاستی مفادات کے لئے اپنائیت کا کردار ادا کرنا بھی عوامی مفاد میں ہوگا۔
ناقدین اس نظام کے فعال ہونے کو شفافیت، جوابدہی، بنیادی عوامی مسائل کے حل اور موجودہ پی آر او کلچر کے خاتمہ کے تناظر میں بھی دیکھ رہے ہیں۔پوری دنیا میں بلدیاتی ادارے جمہوری نظام کی نرسریاں ہیں جن کے ذریعہ نئی قیادت اُبھرتی ہے اور مرکزی و صوبائی دھارے میں شامل ہوتی ہے۔ جمہوریت کی ان نرسریوں کی جتنی حوصلہ افزائی ہوگی اتنی ہی جمہوری روایات مضبوط ہونگی اورباصلاحیت اور ویژنری قیادت سامنے آنے کے امکانات بڑھیں گے۔ پاکستان اور آزادکشمیر کے منظر نامے پر نظر آنے والے بہترین سیاستدانوں کی ابتدائی تربیت بحثیت بلدیاتی نمائندگان ہی ہوئی اور بعد ازاں انہوں نے صوبائی و قومی سطح پر اپنا نام بنایا۔
پارلیمانی جمہوری نظام میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور پارلیمانی ایوانوں کا کام اپنی اپنی سطح پر قانون سازی اور پالیسی سازی سمیت دیگر امور ہوتے ہیں۔ سڑکوں، گلیوں اور راستوں کی تعمیر، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ،سیوریج، آب رسانی، مقامی مارکیٹس کا جائزہ، اشیاء کی دستیابی، پرائس کنٹرول اور تعلیم و صحت سمیت متعدد امور کلی یا جزوی سطح پر بلدیاتی اداروں کے ذمہ ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ جنگلات کی حفاظت، نئی شجرکاری، مقامی سطح کے ماحولیاتی چیلنجز، ایمرجنسی رسپانس، آلودگی سے بچاؤ، ماحول دوست توانائی کے ذرائع اور کلائمیٹ چینج جیسے مسائل سے بھی ان اداروں کی بدولت بخوبی اور بہتر انداز میں نمٹا جاسکتا ہے۔ تیرہوین آئینی ترمیم کے بعد بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ریاستی حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ان انتخابات کابھی ایک آئینی شیڈول تیار کیا جائے۔ آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات کیلئے لوکل کونسل کا دورانیہ چار سال رکھا گیا ہے۔ اگر ہوسکے تو سینٹ آف پاکستان کی طرز پر اس میں ترامیم کی جائیں اور ہر دو سال بعد ہر بلدیاتی ایوان میں نصف ارکان عوام کے ووٹوں سے آتے رہیں جس کی بدولت بلدیاتی اداروں کوہی نہیں بلکہ تمام قومی اور ریاستی جماعتوں کو نیا خون بھی ملتا رہے گااور نئی لیڈر شپ کی تربیت بھی ساتھ ساتھ جاری رہیگی۔تمام تر مشکلات پیچیدگیوں اور چیلنجز کے باوجود جملہ سیاسی جماعتوں کا اس عمل کا حصہ بننا اور بلدیاتی انتخابات کا پرامن، شفاف اور غیر جانبدرانہ انعقاد ہو جانا ایک اہم سنگ میل ہوگا۔ موجودہ حکومت اور بالخصوص وزیر اعظم آزادکشمیر کی جانب سے بلدیاتی انتخابات کے لئے بروقت فنڈز کی فراہمی اور الیکشن کمیشن کا تمام انتظامات کو بروقت مکمل کرلینا بھی قابل ستائش ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں