تین نسلوں کی کہانی ..افضل ضیائی (ڈی جی ریٹائرڈ برقیات)

میں ان دنوں راولاکوٹ بطور ایگزیکٹو انجنیئر تعینات تھا ۔ دفتر بیٹھا تھا ۔بزر ھوئی، کریڈل اٹھایا ،پی اے لائن پہ تھا .
سر ! سپرانٹینڈنگ انجنیئر سردار الیاس خاں صاحب لائن پہ ہیں ۔۔سر بات کریں ..سپرانٹنڈنگ انجنیئر یوں گویا ہوئے .
ایکسین صاحب ! غازئی ملت (سردار ابراھیم خاں صاحب) نے ہم دونوں کو ساڑھے دس بجے ملاقات کے لیے بلایا ہے تو آپ میری طرف آ جائیے گا یہیں سے ان کی رہائش پہ چلیں گے ۔میں نے ۔۔۔۔جی کہا۔۔اور کال آف ہو گئی ۔کوئی پندرہ منٹ گزرے ہوں گے کہ الیاس صاحب پھر لائن پہ تھے کہنے لگے ۔ایکسئین صاحب ہماری ملاقات ساڑھے دس بجے ہے اور ساڑھے دس سے مراد ساڑھے دس ہی ہے ۔میں ہنسا اور ایس ای صاحب سے کہا ۔۔۔جی بلکل میں وقت مقررہ پہ پہنچ جاوں گا ۔آپ فکر نہ کیجئے ۔
تھوڑی دیر گزری پھر بزر ھوئی پی اے نے کہا ۔۔سر ایس ای صاحب لائن پہ ھیں بات کیجئے ۔
ایس ای صاحب کہنے لگے ،ضیائی صاحب آپ آ جائیے گا میرے دفتر سے ھم اکٹھے ھی نکلیں گے اور ھمیں ٹھیک دس بج کر پچیس منٹ پہ غازئ ملت کے ڈرائنگ روم کے اندر بیٹھا ھونا چاھیئے ۔میری آواز سے میرے چہرے پہ بکھری مسکان کو شائید ایس ای صاحب نے بھانپ لیا تھا ۔کہنے لگے ۔۔ضیائی صاحب آپکو پتہ نہیں ۔۔۔غازئ ملت وقت کے بہت پابند ھیں ۔
خیر میں نے ایس ای صاحب کو یقین دلایا کہ جناب میں وقت کی پابندی کروں گا ۔
ھم ایس ای آفس سے اکٹھے روانہ ہوئے اور دس بج کر بیس منٹ پہ غازی ملت کے ڈرائینگ روم میں پہنچ گئے ۔ڈرائنگ روم کا دروازہ جو دوسرے کمرے میں اندر کی طرف کھلتا تھا اور جس طرف سے غازی ملت نے آنا تھا اس کے اوپر دیوار پہ وال کلاک نصب تھا اب ہمارا دھیان کلاک اور اس دروازے کی طرف ہی تھا ۔میں سوئی کی ٹک ٹک اور اندرونی دروازے کی طرف سے کسی بھی متوقع چاپ کی آواز کی طرف متوجہ تھا.ٹھیک دس بج کر تیس منٹ پہ غازی ملت نائٹ گائون پہنے اندر سے برآمد ہوئے ، اسی لمحے میری ایس ای صاحب سے آنکھیں چار ہوئیں گویا وہ کہہ رہے ہوں ۔۔ضیائی صاحب ! میں نہ کہتا تھا ۔جناب غازی ملت سلام کہتے ہوئے صوفے پہ تشریف فرما ہو گئے ۔
غازی ملت کی روشن اور ہوشیار آنکھوں نے میرا ٹھیک طریقے سے جائزہ لیا ۔ایس ای صاحب ان کی مجھ پہ توجہ کو بھانپ گئے میرا تعارف کروایا اور انہیں بتایا کہ ہمارے ایکسیئن صاحب بھمبر سے ہیں ۔غازی ملت کے چہرے پہ مشفقانہ مسکراہٹ اپنی بہار دکھلا رھی تھی ۔بھمبر کاذکر سنتے ھی انکی آنکھوں کی چمک اور بڑھ گئی. انہوں نے بھمبر کے لوگوں کی بہت تعریف کی اور یہ بھی بتایا کہ ایک بار جموں کی طرف سے آتے ہوئے بھمبر سے میرپور کی طرف سفر کے لیئے بھمبر کی کسی بڑی شخصیت نے انہیں سفر کے لیئے گھوڑی کا انتظام کر کے دیا تھا ۔غازی ملت کی اصول پرستی کے درجنوں واقعات زبان ذد عام ہیں ۔اللہ انکی مغفرت کرے ۔
یہی نہیں یہ اصول پرستی اور دیگر انسانی اوصاف کی کہانی اس سے آگے بھی سفر کر رہی ہے ۔آئیے ان کی اگلی نسل کا بھی ایک واقعہ آپ سے شئر کرتے ہیں ۔
غازی ملت سردار ابراہیم خان جن دنوں فوت ہوئے ان دنوں بھی راقم کی پوسٹنگ راولاکوٹ ہی تھی۔غازی ملت کا جنازہ صابر شہید سٹیڈیم لے جانے کے لئے تیار تھا۔فاصلہ زیادہ ہو نے کی وجہ سے کسی طرف سےجنازہ گاڑی میں لے جانے کی تجویز پیش کی گی۔ ایس ڈی او برقیات ہیڈ کوارٹر غازئی ملت کے زیادہ عقیدت مند تھے ان کے توسط سے محکمہ برقیات کی ھنڈای گاڑی میں سرخ قالین بچھا کر اوپر تابوت رکھ دیا گیا۔گاڑی چلنے کو تیار تھی کہ اتنے میں کسی طرف سے سردار خالد ابراہیم خان آ گئے انہوں نے گاڑی کی سبز نمبر پلیٹ سے شناخت کی کہ گاڑی سرکاری ہے۔انہوں نے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئےتابوت گاڑی سے اتروا دیا۔۔انہیں یہ قبول نہ تھا کہ ان کے والد گرامی کا جنازہ لے جانے کے لئے سرکاری گاڑی استعمال کی جائے۔یہ تھی سردار خالد ابراھیم خاں کی دیانتداری اور اصول پسندی۔۔۔ہم ان جیسے عظیم المرتبت اور صاحب کردار لوگ اب کہاں تلاش کریں گے۔۔اللہ ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا کرے ۔آمین
کچھ تو پرل ویلی کی خوبصورتی نے مجھے اسیر کیئے رکھا اور کچھ میرا رزق میرے رب نے پربت کے ان پہاڑوں پر بکھیر رکھا تھا جس کی وجہ سے 2019 میں ایک بار پھر مجھے راولاکوٹ بطور سپر انٹینڈنگ انجنیئر تعینات کر دیا گیا ۔یہاں محکمہ میں خالی آسامیوں کے خلاف بھرتی کے لیئے اخبار میں اشتہار دیا گیا ۔ محکمہ نے درخواستیں کیا طلب کیں بے روزگارنوجوانوں نے سیاسی راہنماوں کے گھروں اور دفتروں کے طواف شروع کر دیئے ۔ راولاکوٹ سرکل پانچ ڈویژنوں پہ مشتمل ہے، حکومت اور اپوزیشن کے ممبران اسمبلی نے اپنے اپنےپسندیدہ ووٹرز کی تقرریوں کے لیئے کسی میرٹ اور معیار کا لحاظ رکھے بغیر محکمہ پہ دباو بڑھانا شروع کر دیا ۔پونچھ کے دس سے زائد حلقوں میں صرف سردار حسن ابراہیم خان (جو سردار خالد ابراھیم خان کے بیٹے اور غازی ملت کے پوتے ہیں ) جو ممبر اسمبلی تھے نے راقم سے ٹیلی فون پہ حسن خلق سے بات کی اور کہا ایس ای صاحب ممبران اسمبلی اور سیاسی لیڈر میرٹ کا لحاظ رکھے بغیر اپنے ووٹرز کو بھرتی کرنے کے لیئے دباو ڈالتے رہتے ھیں ۔میں کسی کی سفارش نہیں کروں گا ۔اور آپ سے مجھے توقع ہے کہ آپ بھی کسی قسم کے دباو میں آئے بغیر میرٹ کو فالو کریں گے ۔
کہاں تک سنو گے ۔۔۔کہاں تک سناوں !!

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں