روزنامہ کشمیر دھرتی۔۔12 سال کا مشکل سفر..عابد صدیق (چیف ایڈیٹر)

ازل سے زمانہ ایک ہی رفتار سے چلتا ہے اور اس کے گذر جانے کا بھی ایک ہی طریقہ ہے،دن اور رات کے اوقات بھی ایک ہی جیسے ہوتے ہیں بس موسمیاتی تبدیلیاں،بدلتے حالات اور زندگی کے نشیب و فراز ان کے مزاج بدل دیتے ہیں،دن اور رات کی طرح سب شامیں بھی ایک ہی جیسی ہوتی ہیں لیکن بعض شامیں کسی خاص وجہ تسمیہ سے یاد گار بن جاتی ہیں۔ ان ہی شاموں میں سے ہی ایک شام کی یادیں یاد گار بن گئی ہیں،سردیوں کا ”سرد“موسم تھا،کسی اور وجہ سے شہر میں ہی رکنا پڑا۔اخبار نکالنے کا جنون تو ہمیشہ رہا لیکن یہ کب ممکن ہو گا یہ سوچ کر پھر سو جاتا تھا۔”دھرتی“ کے نام سے بڑا پیار تھا اور سوچا بھی یہی تھا کہ اگر اخبار نکالا بھی تو نام ”دھرتی“ہی ہو گا۔بس ایک شام چند دوستوں سے مشاورت کی اورروز نامہ”دھرتی“کے اجراء کا فیصلہ کیا گیا۔مشاورت سے ہی اوراس کی اشاعت کی تاریخ 24 اکتوبر 2010مقرر کی گئی۔کسی ایسے”بنجر“ شہر سے ”روزنامہ“ کا اجراء کرنا جہاں بے شمار مسائل ہوں،مارکیٹ چھوٹی،وسائل بھی کم ہوں انتہائی مشکل کام تھا لیکن مضبوط ارادے،اور ٹیم ورک مشکلیں آسان تو کر دیتے ہیں البتہ ختم کرنے میں شاید وقت درکار ہوتا ہے۔ اخبار کی اشاعت کے لیے ایک اچھی ٹیم کا ہونا ضروری ہے۔ہمارے پاس ٹیم کہاں سے آتی،جس شہر سے کبھی اخبار نکلا ہی نہ ہو وہاں اخبار کی پیچیدگیوں کو سمجھنے والے کہاں سے آئیں گے۔ ہم نے کوشش کی کہ ایک اچھی ٹیم کے ساتھ میدان میں آئیں تو کچھ دیرنہ ساتھیوں کے تعاون سے نیم پیشہ ورانہ ٹیم میسر آسکی۔ٹیم ممبران میں کئی ایسے تھے جو اس شعبہ میں پہلے کام کر چکے تھے اور کچھ بعض سچے جذبے سے کرنا چاہتے تھے۔یوں اکتوبر 2010 کے اوائل میں شہر سے منسلک ہاوسنگ اسکیم میں کرائے کی ایک عمارت میں دفتر لیا اور کچھ”مخیر“حضرات کے تعاون سے کمپیوٹر اور فرنیچر خرید لیا۔آفس تو سیٹ ہو گیا لیکن اگلہ مرحلہ اخبار کی تیاری،اس کی پرنٹنگ،سرکولیشن اور مارکٹنگ تھی۔سب سے زیادہ مسائل آئی ٹی کے شعبہ کے تھے کیونکہ ہمارے پاس اس شعبہ میں جو لوگ تھے وہ ماہر تو تھے،جذبہ بھی تھا لیکن اخبار کی صنعت سے ناآشناء تھے۔ان میں امجد حسین امجد،طلعت حنیف،کامران اور پھر رضوان عارف قابل ذکر ہیں۔نیوز کا شعبہ قدرے بہتر تھا۔میں بذات خود اور میرے بعض ساتھی جن میں اعجاز قمر قابل ذکر ہیں مختلف اخبارات میں شعبہ نیوز میں کام کر چکے تھے یوں کچھ”اتا پتا“ تھا لیکن اصل مسلہ شعبہ ”آئی ٹی“ کا تھا۔آئی ٹی کے شعبہ سے سب سے کم وقت میں کسی نے حوصلہ ہارا تو وہ طلعت حنیف تھے۔طلعت نے کام شروع کرنے کے دو دن کے بعد ہی”کورا“جواب دے دیا کہ یہ کام میرے بس کا نہیں اور واقعی ان حالات میں کہ جب ہمیں پتہ ہی نہ ہو کہ اخبار تیار کیسے ہو گا،کون سا سافٹ وئیر استعمال ہو گا،ایک مشکل کام تھا۔آئی ٹی کے شعبہ میں آنے والا دوسرا ممبر کامران تھا جس نے تو یہ انکشاف کر کے خود ہمیں بھی حیران کر دیا کہ ”میں نے زندگی میں کبھی کوئی اخبار پڑھا ہی نہیں“نہ یہ پتہ ہے کہ اخبار ہوتا کیا ہے،کتنے صفحے ہوتے ہیں لیکن ایک بات حوصلے والی کی کہ ”ہم کر لیں گے سب کچھ،کام چھوڑ کر نہیں جائیں گے،گئے تو سب اگھٹے ہی جائیں گے“۔اور رضوان تھا کہ سادہ طبعیت اور لمبا قد،وہ بہت عرصے تک خبروں کی ترسیل کرنے والی معروف نیو ز ایجنسی”ثناء“ کے بارے میں یہ سمجھتا رہا کہ یہ کوئی خاتون ہے جواسلام آباد سے ہمارے لیے خبریں تیار کر کے ای میل کرتی ہے اور اس کے بارے میں فکر مند بھی تھا کہ وہ کتنا کام کرتی ہے لیکن آفس نہیں آتی۔شاذیب ہم نے مظفراباد سے مستعار لیا تھا لیکن گذشتہ دس سالوں سے ہمارے ساتھ ہے اور اب بطور انچارج آئی ٹی سیکشن کام کر رہا ہے۔ عمر خیام کی ”آنی جانی“ لگی رہی لیکن اب وہ مستقل طور پر ہماری ڈیجیٹل میڈیا کا حصہ ہے۔نیوز کا شعبہ اعجاز قمر کے حوالے کیا گیا جو پہلے بھی اس شعبہ میں کام کر چکے تھے۔ان سے میری شناسائی کوئی 1996 کے عشرے سے تھی مجھے ان کی صلاحیتوں کا کوئی خاص اندازہ نہ تھا لیکن اتناپتہ تھا کہ وہ جو بھی کام کرتے ہیں تو مہارت سے کرتے ہیں اور ان کی زندگی میں ٹھہراؤ ہے جو میری زندگی میں نہیں تھا۔یہ فیصلہ بہت درست ثابت ہوا کہ وہ آج تک”دھرتی“کی ٹیم کا حصہ ہیں اور بلا شبہ اخبار کو اس مقام تک پہنچانے میں ان کا بڑا کردارہے۔اب مارکیٹنگ کا مرحلہ تھا اس کے لیے سہیل خان کا انتخاب کیا گیا۔وہ پہلے درس و تدریس سے وابستہ رہے۔مارکیٹنگ کا انہیں کو ئی خاص تجربہ نہ تھا لیکن اس شعبہ میں کام کرنے والوں کی جو خوبیاں ہوتی ہیں وہ ان میں قدرے پائی جاتی تھیں۔ان ہی خوبیوں کے باعث وہ بھی آج تک ہماری ٹیم کا حصہ ہیں۔کچھ عرصہ پہلے ان کے ساتھ ایک حادثہ پیش آیا لیکن اب وہ صحت یاب ہیں اور اب دوبارہ اپنے کام میں مگن ہیں۔انہوں نے بھی”دھرتی“کو اس مقام تک پہنچانے میں بڑا کردار ادا کیا۔جب کوشش کے باوجود اخبار کی تیاری میں مشکلات نے کم ہونے کا نام نہ لیا تو ہم نے آئی ٹی کے اسٹاف ممبران میں سے بعض کو دیگر اخبارات کے دفاتر میں بھیجا تا کہ بنیادی تربیت حاصل کر سکیں۔یوں 11سال پہلے 24 اکتوبر 2010 کو روز نامہ”دھرتی“کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔ ابتداء میں ایک مہینے تک تو سارا سٹاف اٹھارہ گھنٹے کام کرتا تھا تب اخبار تیار ہوتا تھا لیکن بتدریج کام سیکھتے گئے اور بہتری آتی گئی۔بعد میں ہماری ٹیم میں اور لوگ بھی شامل ہوگئے،جن میں شاہ زیب علی،حارث قدیر،سردار منظور،ساجد انور قریشی، انیق احمد، اسراراعظم، خرم خالق، شفقت اسلم، محمداخلاق،محمد مشتاق، امجد علی چوہدری، فیضان قیوم، احسان الحق،عمر خیام شامل ہیں۔کچھ چھوڑ کر چلے گئے کچھ ابھی تک ہمارے ساتھ ہیں لیکن کام رکا نہیں بلکہ مزید بہتری آتی گئی۔ہمیں خوشی ہے کہ ہمیں چھوڑ کر جانے والے بہتر رزق کی تلاش اور زندگی میں آگے بڑھنے کی لگن لیکر گئے، رضوان عارف اور طلعت حنیف آئی ٹی کے شعبہ میں ہی سعودی عرب چلے گے۔طلعت حنیف کا دل وہاں بھی نہ لگا اور واپس آگے، اب اپنا کاروبار کرتے ہیں۔ سردار منظور صدارتی سیکرٹریٹ میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں، محمد کامران آئی ٹی سے جڑا اپنا کاروبار کر رہے ہیں جو کہ اس کی دیرینہ خواہش تھی، ساجد انور قریشی جو کہ اس وقت سی اے کے طالب علم تھے آجکل ایک قومی سطح کی آڈٹ کمپنی کے ساتھ منسلک ہیں، حارث قدیر ایک لمبے عرصہ تک شعبہ آئی ٹی کے انچارج بھی رہے اور بطور سب ایڈیٹر کام کیا پھر ”روزنامہ مجادلہ“ کے نام سے اپنا اخبار شائع کیاجس کے وہ چیف ایڈیٹرتھے،جو بوجوہ اب نہیں شائع ہو رہا۔ امجد حسین امجد ہمارے پہلے دن کے ساتھی تھے اور وہ ہماری ہی خواہش پر راولپنڈی سے اپنا کاروبار ترک کرکے راولاکوٹ آئے، ہمارے ساتھ زیادہ عرصہ آئی ٹی کے شعبہ میں وابستہ تو نہ رہے لیکن بطور نمائندہ خصوصی طویل عرصہ تک بہتر طریقہ سے اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ اسرار اعظم نے بطور اکاؤنٹینٹ ہمیں جوائن کیا وہ آج کل اپنا کاروبار کرتے ہیں، انیق احمد بھی بطور اکاؤنٹینٹ کچھ عرصہ ہمارے ساتھ رہے اور آج کل جامعہ پونچھ میں بطور اسسٹنٹ اسٹیٹ آفیسر تعینات ہیں۔ امجد حسین چوہدری بھی اب ہمارے ساتھ نہیں رہے لیکن ایک عرصے تک ہمارے ساتھ کام کیا۔یوں ہمارے ادارے سے وابستہ رہنے والے سبھی ہی سٹاف ممبران زیادہ کامیاب و کامران ہیں جس سے ہمیں فخریہ یہ کہنا پڑتا ہے کہ”دھرتی“ایک اخبار ہی نہیں اکیڈمی ثابت ہوا جس نے بے شمار لوگوں کی صلاحیتوں کو اجاگر کیا اور انہیں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا۔ متعدد جامعات کی طالبات نے ہناے ساتھ انٹرن شپ کیا۔11 سال اخبار کی صنعت میں کوئی زیادہ عرصہ
نہیں ہوتا لیکن ان9 سالوں میں روز مہ”دھرتی“نے جومقام پایا وہ بہت کم اخبارات کو حاصل ہوا۔اخبار کا معیار پسند کیا گیا اور خبروں،تحقیقاتی رپورٹس،فیچر،تجزیے اور مضامین میں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ہم نے شروع سے جو پالیسی اپنائی اس پر قائم رہے اور سرخرو بھی ہوئے۔اس میں شک نہیں کہ یہ سب کچھ ایک ٹیم ورک کی صورت میں ہی میسر آسکا۔بطور خاص ادارہ ان کالم نگاروں کا شکر گذار ہے جن کے کالموں کی تواتر کے ساتھ اشاعت نے اخبار کے معیار کو بلند کیا۔جن میں خاص طور پر معروف کام نگار و ادیب ارشاد محمود،سردار کبیر خان(ابوظہبی)،افتخار گیلانی(نیودہلی)، شجاعت بخاری (مرحوم)(سری نگر)،جسٹس (ر)منظورحسین گیلانی،سردار بشیر سدوزئی (کراچی)، سردار نذر محمد خان(مرحوم)،ڈاکٹر محمدصغیر خان،بیرسٹر حمید بھاشانی(کنیڈا)، سردار عبدالخالق وصی ایڈووکیٹ،، جمیل احمد، سردار حیات خان (ایڈووکیٹ)سردار پرویز (ناروے) حبیب حسین شاہ ایڈووکیٹ(مرحوم)،راحت فاروق ایڈووکیٹ، سید اسد ہمدانی، حاجی زاہد حسین،راجہ افضل کیانی (ایڈووکیٹ)، خواجہ شریف،پروفیسر عائشہ یوسف،شامل ہیں،ادارہ ان کا شکرگزار ہے کہ انہوں نے تواتر کے ساتھ ”دھرتی“ کے لیے کالم لکھے جنہیں قارئین نے بے پناہ پسند کیا۔مجموعی طور پر پوری ٹیم نے دن رات محنت کر کے جو پودہ لگایا تھا وہ آج 11سال کا ہو چکا ہے۔اب یقینا یہ پودہ پھل بھی دے گا۔
قارئین!ہماری پہلے دن سے جو پالیسی چلی آرہی ہے اس پر آج بھی قائم ہیں،کسی دباؤ میں آئے بغیر خبروں کی اشاعت غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنا،غیرجانبدارانہ رپورٹنگ،اداروں میں کرپشن کی نشاندہی،اور عوامی مسائل کو ایوان اقتدار تک پہنچانے کی پو ری کوشش کی گئی جس کے لیے آپ قارئین کا بھی تعاون کا حاصل رہا اور ابھی بھی اشد ضرورت ہے تا کہ نہ صرف اس پالیسی پر عمل پیرا ہوا جا سکے بلکہ مزید بہتری بھی لائی جا سکے۔ ”دھرتی“ کے نام کا بھی بڑا مسلہ بنا رہا،قانونی جنگ لڑی اور اب بوجوہ اس کا نام ”کشمیر دھرتی“ رکھنا پڑا لیکن پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
ہم نے اس شہر بے آواز سے پہلا اخبار شائع کر کے ایک شمع روشن کر دی ہے اور اس روشن شمع کی نہ بجھتی آگ نے مزید روشنی پھیلائی،یہی وجہ ہے کہ2010 میں پورے ڈویژن میں ایک ”دھرتی“ ہی شائع ہوتا تھا آ ج چھ مزید اخبارات شائع ہوتے ہیں۔ مقابلے کی فضاء پیدا ہونے سے معیار بھی بلند ہو رہا ہے اور روز گار کے مواقع بھی میسر آرہے ہیں ۔امید ہے کہ قارئین ماضی کی طرح بھر پور تعاون کریں گے تا کہ یہ سلسلہ چلتا رہے اور غریب کی آواز ایوان اقتدار تک پہنچتی رہے۔ روزنامہ”کشمیر دھرتی“کو پڑھنے والوں کی بڑی تعداد بیرون ملک مقیم ہے جو آن لائن اخبار پڑھتی ہے۔ اخبار کی ویب سائٹ کو بھی جدید طرز پر ڈیزائن کروایا گیا ہے۔ا دارہ بیرون ملک مقیم کشمیریوں کے تعاون کا بھی شکر گذار ہے،یقیناان کے تعاون کے بغیر آگے بڑھنا مشکل کام تھااور یہ ان ہی کے تعاون کا نتیجہ ہے کہ ریاستی اخبارات میں روزنامہ”دھرتی“ واحد اخبار ہے جس کی حالیہ آن لائن ریڈر شپ دیگر اخبارات سے کہیں زیادہ ہے، ساؤتھ ایشیاء کے کئی تحقیقاتی ادارے اپنی تحقیقاتی رپورٹس مرتب کرتے وقت روزنامہ”دھرتی“سے مستفید ہوتے ہیں جبکہ آن لائن انٹرن شپ بھی کروائی جاتی ہے،ادارہ ان تمام سرکاری اور نیم سرکاری ادارہ جات،کمرشل ادارہ جات اور سیاسی و سماجی تنظیمات اور تاجر حضرات کا شکر گذار ہے جنہوں
نے ہر مشکل وقت میں ”دھرتی“کے ساتھ تعاون کیا جس کی وجہ سے’’کشمیر دھرتی“ایک تن آور درخت بنا۔ہمارے حوصلے سازشوں کے باوجود بلند ہیں اور ہم نے تہیہ کر رکھا ہے کہ روز نامہ ”کشمیردھرتی“ بہت جلد ریاست کشمیر کا ایک بڑا اخباربن کر ابھرے گا۔ہمارا ادارہ اب ڈیجیٹل میڈیا کی طرف جا رہا ہے جس پر کام شروع کر دیا گیا ہے، ہمارا فیس بک پیچ، یوٹیوب چینل بھی بہت پسند کیے جاتے ہیں۔گذشتہ سالوں میں وبائی امراض کے پھیلے جانے اور دیگر مسائل کی وجہ سے اخباری صنعت کو بھی شدید نقصان پہنچا ہم بھی اس زد میں آئے لیکن کوشش ہے کہ دوبارہ سرخرو ہو سکیں لیکن اس کے لیے ہمیں قارئین کے تعاون کی اشد ضرورت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں