عمران خان کی گرفتاری، القادر ٹرسٹ ہے کیا؟

اسلام آباد(دھرتی نیوز )سابق وزیراعظم و چئیرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کو قومی احتساب بیورو (نیب) کے احکام نے”القادر ٹرسٹ” کیس میں اسلام آباد سے گرفتار کیا ہے۔ القادر ٹرسٹ کا نام گزشتہ سال پاکستان میں عمران خاں کی حکومت کے خاتمے کے بعد سامنے آیا تھا۔ عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر الزام عائد کیا گیا کہ انھوں نے پراپرٹی کا کاروبار کرنے والی ایک با اثر شخصت سے 50 ارب روپے کی غیر قانونی رقم کو قانونی حیثیت دیتے ہوئے ان کے ٹرسٹ کے لیے اربوں روپے کی اراضی حاصل کی تھی۔
پاکستان کےداخلہ رانا ثنا اللہ کے مطابق پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے منی لانڈرنگ تحقیقات کے بعد مذکورہ شخصیت سے یہ رقم لے کر پاکستان کو واپس کیا تھا تو اس کو عمران خان نے 3 دسمبر 2019 کو کابینہ کے اجلاس میں پیش کیے بخیر منظوری لے لی تھی۔ بی بی سی کے مطابق حکومت کی طرف سے اس وقت یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ پراپرٹی ٹائیکون نے اپنے دیگر غیر قانونی معاملات کو ’کور‘ دینے کے لیے بھی القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کی زمین عمران خان اور ان کی اہلیہ کو دی تھی۔پاکستان میں کرپشن کی تحقیقات کرنے والے ادارےقومی احتساب بیورو نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کے نام پر سینکڑوں کنال اراضی سے متعلق انکوائری کو انویسٹی گیشن میں تبدیل کر دیا اور معاملہ “پراپرٹی ٹائیکون” کے ساتھ مبینہ طور پر پچاس ارب سے زائد کی رقم کو لیگل کور دینے کے بعد منظرعام پر آیا تھا۔نیب کے حکام اس سے قبل اختیارات کے مبینہ غلط استعمال اور برطانیہ سے موصول ہونے والے جرائم کی رقم کی وصولی کے عمل کی انکوائری کر رہا تھا۔اس معاملے کی تحقیقات کرنے والے ایک افسر نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے پاس ناقابل تردید شواہد سامنے آئے تھے، جس کی بنیاد پر اس معاملے میں کی جانے والی انکوائری کو انویسٹی گیشن میں تبدیل کردیا گیا ہے۔نیب کے افسر کے مطابق جب معاملہ انویسٹی گیشن کے مرحلے میں آجاتا ہے تو پھر ملزمان سے براہ راست تفتیش کی جاتی ہے اور ضرورت پڑنے پر انھیں پوچھ گچھ کے لیے گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے۔نیب حکام کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں عمران خان، بشریٰ بی بی بیرسٹر شہزاد اکبر اور ریئل سٹیٹ ڈیویلپر کے خلاف انکوائری کو انویسٹی گیشن میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔عمران خان کے وکیل بیرسٹر گوہر کے مطابق جب ان کو معلوم ہوا کہ القادر ٹرسٹ میں کی جانے والی انکوائری کو انوسٹی گیشن میں تبدیل کردیا گیا ہے تو انھوں نے منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دی تھی، جس میں استدعا کی گئی تھی کہ نیب کو گرفتاری سے روکا جائے۔نیب حکام کے مطابق نیب نے انکوائری شروع کی تو عمران خان کی حکومت کے تقریباً تمام کابینہ ارکان کو طلب کیا تھا جنھوں نے 3 دسمبر 2019 کے اجلاس میں شرکت کی تھی تاہم نیب حکام کے مطابق پی ٹی آئی کے کچھ رہنما نیب کے سامنے پیش ہوئے تھے۔اسلام آباد کے سب رجسٹرار آفس میں ٹرسٹ ڈیڈ کی رجسٹریشن کے چند ماہ کے اندر جہلم میں 460 کنال اراضی خرید کر عمران خان کے قریبی دوست زلفی بخاری کے نام منتقل کر دی گئی اور ٹرسٹ کی تخلیق کے بعد یہ زمین زلفی بخاری نے ٹرسٹ کے نام منتقل کردی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں