مفاہمت کی راہ نکالیں…ارشاد محمود

عمران خان کے لاہور کے جلسہ نے ایک بارپھر ثابت کیا ہے کہ مقدمات،قاتلانہ حملے اور کردار کشی کی بدترین مہم کے باوجود وہ آج بھی غیر معمولی طور پر مقبول ہیں۔ ایسا لگتاہے کہ عمران خان کو کامیاب کرکے لوگ ستر برس کی محرومیوں، غصے اور مقتدرطبقات سے اپنی ناراضی کا اظہار کرنا چاہتے ہیں۔وہ اس گھوڑے کو شکست سے دوچار کرنا چاہتے ہیںجس پر مقتدر حلقے شرط لگائے ہوئے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہورہاہے کہ وفاقی حکومت او ر دیگر اسٹیک ہولڈر عمران خان کے راستہ میں کانٹے بو رہے ہیں لیکن عوام ہیں کہ غول درغول ان کے جلسوں میں شرکت کرتے ہیں۔ پولیس ان کے گھر داخل ہونا چاہتی ہے تو پیر وجوان راستے کی دیوار بن جاتے ہیں۔ دہشت گردحملوں کی اطلاعات کے باوجود لوگوں کا دیوانہ وار عمران خان کے جلسے میں شریک ہونا اس امر کی غمازی کرتاہے کہ پاکستانی عوام خوف اور دہشت کے آسیب سے آزاد ہوچکے ہیں۔
سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد یہ منظر پہلی بار دیکھنے کو ملا کہ ملک کی مقبول سیاسی جماعت اور اس کی لیڈرشپ کو دوسیٹوں پر کھڑی وفاقی حکومت دیوار کے ساتھ لگائے ہوئے ہے۔پنجاب کی پولیس سابق وزیراعظم کے گھر کے اندر داخل ہوکر توڑپھوڑ کرتی ہے۔ الیکشن کمیشن پنجاب اور خیبر پختون خوا میں الیکشن ملتوی کرانے کی وفاقی حکومت کی کوششوںمیں سرگرم حصہ دار بن گیا بلکہ ایک جماعت کے خلاف پارٹی بن چکا ہے۔
میری نسل کے لوگوں نے سانحہ مشرقی پاکستان کی کہانیاںمحض کتابوں اور رسالوں میں پڑھی ہیں۔آنکھوں دیکھا حال اب دیکھ رہے ہیں۔تاریخی کتب میں لکھا ہے کہ الیکشن میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہونے والی جماعت کو اس وقت کے حکمران ٹولے نے اقتدار دینے سے انکارکردیاتھا۔ردعمل میں ناراض اور بے زار بنگالیوں نے طبل جنگ بجادیا۔ سرحد پار دشمن تاک میں تھااور اس نے موقع کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اندرونی خلفشار نے محمد علی جناح کے پاکستان کو دولخت کردیا۔وہ پاکستان جس کی خاطر دس لاکھ لوگوں نے جانیں قربان کیں۔ ایک کروڑ بے گھر ہوئے۔
پاکستان آج پھر دو راہے پر کھڑا ہے۔ ایک طرف عوام کے جذبات ہیں۔دوسری طرف ضد، حسداور طاقت کا گھمنڈ ہے جوطاقت ور طبقات کو زمینی حقائق تسلیم کرنے نہیں دیتا۔حالانکہ مقتدر قوتوں کے لاڈلے اعجاز الحق اور چودھری پرویز الہٰی نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا ہے۔انہوں نے عوام کی آنکھوں میںاترا ہواخون دیکھا تو اپنی سیاست اور ناک بچانے کی خاطر پی ٹی آئی کے ہمرکاب ہوگئے۔ عمران خان کی محبت میں وہ تحریک انصاف میں شامل نہیں ہوئے بلکہ انہوںنے عوام کے تیور پڑھ لیے ہیں۔ سیاستدان جو ہوئے۔ افسوس!
کل تلک جو قوتیں سیاستدانوں کے مابین مصالحت کرالیا کرتی تھیں وہ بوجوہ چپ ہیں۔ دہائیوں سے دبیز پردوں کے پیچھے جو کھیل کھیلا جاتاتھا اب چوکوںچوراہوں میں اس کاچرچا ہوتا ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کے پے درپے غیر رسمی انٹرویوز اور کھلے ڈھلے تبصروں نے سارے نظام کی قلعی کھول دی ہے۔ اپنی ناکامیوں اور زیادتیوںکا ملبہ جنرل صاحب نے بڑی سادگی سے اپنے ماتحت کمانڈروں پر ڈال کر اپنے ہاتھ جھاڑ لیے ہیں۔ ان کے انٹرویوز نے سیاستدانوں، ججوں، صحافیوں اور خود ان کے ساتھیوں کو شرمندہ کیا ہے۔چنانچہ ممتاز ناول نگار محمد حنیف نے بی بی سی کے لیے ایک کالم میں جنرل باجوہ سے استفسار کیا کہ وہ خاموش ہونے کا کیا لیں گے؟
عالم یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے حامی امریکہ ، کینیڈا، آسڑیلیا، برطانیہ اور یورپی ممالک میں حکومت پاکستان کے خلاف احتجاجی مظاہرے کررہے ہیں۔ جوں جوں پی ٹی آئی کے گرد ریاستی سطح پر گھیرا تنگ کیا جارہاہے تارکین وطن کے غم وغصے میں اضافہ ہوتا جارہاہے۔ ممتاز امریکی شخصیات نے بیانات جاری کیے ہیں جن پر سرکاری حلقوں میں کافی لے دے ہوئی لیکن یہ سلسلہ تھمتا ہوا نظر نہیں آتا۔انسانی حقوق کی پامالی ،سیاسی کارکنان کی گرفتاریاں، انہیں تشدد کا نشانہ بنانا، گھروں پر چھاپے مارنا اور سیاسی مخاصمت کی بنیاد پر مخالفین کو ہراساں کرنا آج کی دنیا میں کسی ملک کا داخلی مسئلہ تصور نہیں کیا جاتا۔ کئی ممالک پولیس کے ان افسران کو ویزے تک جاری نہیں کرتے جو شہریوں پر تشدد میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ انسانی حقوق کی پامالیوں کے الزام میں کسی بھی شخص پر دنیا کے کسی بھی ملک میں مقدمہ قائم کیاجاسکتاہے۔سیاسی درجہ حرارت میں کمی نہ ہوئی تو لندن اور نیویارک میں ہماری پولیس پر مقدمات قائم ہونا شروع ہوجائیں گے۔
اوورسیز پاکستانیوں میں پی ٹی آئی کو غیر معمولی پذیرائی حاصل ہے۔ یہ لوگ بے خوف اور آسودہ حال ہیں۔ پاکستان کی روایتی اور فرسودہ سیاست گری سے تنگ بھی ہیں ۔بیرون ملک یہ شہری پاکستان کے سفیر کے نام سے جانے جاتے ہیں لیکن اب رفتہ رفتہ یہ انسانی حقوق کے عالمی اداروں، میڈیا اور ارکان پارلیمنٹ کو حکومت کی طرف سے پی ٹی آئی کے ساتھ روا رکھے سلوک کی طرف متوجہ کررہے ہیں۔ اگر حکومت نے ہاتھ ہولا نہ رکھا تو ان ممالک میں جاری مظاہروں کی تعداد اور حجم میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ مغرب افغانستان میں فوجی ناکامی کا ذمہ دار پاکستان کو گردانتاہے۔ اس کے ادارے پاکستان کے خلاف خار کھائے بیٹھے ہیں ۔ موقع ملا تو وہ معاف نہیںکریں گے۔لہٰذا ہوش کے ناخن لیں۔

حالیہ دنوں ملک کے معتبر سماجی رہنماؤں، سینئر صحافیوںاور کئی سرکردہ رہنماؤں نے عمران خان کو اپنے نقطہ نظر میں لچک پیدا کرنے اور سیاسی مخالفین کے ساتھ مکالمے پر آمادہ کرنے کی شاندارکوشش کی۔یہ لوگ باقی سیاستدانوں سے بھی ملے ہیں اور کچھ اور سے ملنے والے ہیں۔ ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لیے مل جل کر کوششیں کی جانی چاہئیں اور اس پس منظر میں یہ ایک اچھی کاوش ہے۔
ایک بڑی جماعت کے لیڈر کے طور پرعمران خان کی زیادہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مذاکرات کے بند دروازے کھولیں۔ خود مذاکرات میں نہیں بیٹھناچاہتے تو اپنی پارٹی کی سینئر لیڈرشپ پر اعتماد کریں۔ جھگڑے سے جو حاصل ہونا تھا وہ ہوچکا۔ اب مکالمے کا وقت ہے تاکہ شفاف الیکشن اور پرامن انتقال اقتدار کی راہ ہموار کی جاسکے۔
سول سوسائٹی کے رہنماؤں نے جو بیڑا اٹھایا ہے اسے ادھورا نہ چھوڑاجائے۔ انشا اللہ مفاہمت کی کوئی راہ نکل آئے گی ۔ پاکستان دوبارہ جمہوریت اور سیاسی استحکام کی پٹڑی پر چڑھ جائے گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں