مہنگائی سب کا مسئلہ، مقابلہ بھی مل کے کرنا ہے۔۔ جسٹس (ر) منظور گیلانی

کرونا کی وباء اس کے بعد یوکرائن کی جنگ، امریکہ، روس، چین، ایران اور یورپئین یو نئین کی سیاسی اور سفارتی رقابتوں کی وجہ سے ایک دوسرے کے اوپر اقتصادی اور تجارتی پابندیوں نے مہنگاء دنیا بھر کے لئے ایک چیلینج کی حیثیت اختیار کر گئی ہے جس میں پاکستان بھی شامل ہے –
پاکستان میں ان عوامل کے علاوہ بہت سے مقامی مسائل نے مہنگائی باقی دنیا کے مقابلہ میں نا قابل برداشت بنا دی ہے – ان میں انتظامی سطح پر احتساب کے موثر نظام کی عدم موجودگی، سیاسی بحران، زر مبادلہ کے زخائر کے بحران کی وجہ سے در آمدات اور بر آمدات کا بحران، بیرونی قرضوں کی ادائیگی کا بحران، پٹرول کے مہنگا ہونے کی وجہ سے اندرون ملک کرایہ میں اضافہ ہونے کی وجہ سے اس کا بوجھ صارفین پر منتقل ہورہا ہے۔
ان کا زیادہ اثر تو اشیاء در آمدات اور بر آمدات پر پڑنا چاہیے تھا جو ہے بھی مثلآ تعمیر کا کام رک گیا ہے، ڈالر مہنگا ہوگیا ہے، بین الاقوامی پروازوں کے ذریعہ سفر مہنگا ہوگیا ہے، لیکن جو اشیاء اندرون ملک پیدا ہوتی ہیں ان کی قیمتوں میں سوائے پٹرولی مصنوعات کے مہنگا ہونے کی وجہ سے اثر پڑنے کے، ڈالر کا تو کوئی لینا دینا نہیں۔ اندرون ملک پیدا ہونے والے غذاء اجناس بھی چالیس فیصد تک بڑھ گئی ہیں اس کا اثر تو سوائے امرا ء کے ہر ایک پہ پڑ رہا ہے لیکن سب سے زیادہ متاثر غربت کی لکیر اور اس سے نیچے والوں پر پڑ رہا ہے – دھاڑی داروں، عارضی ملازمین، بڑے کارخانے جو بند ہوگئے ہیں میں کام کرنے والے مزدوروں پر سب سے زیادہ اثر پڑتا ہے۔دو وقت کی کیا، ایک وقت کی رو ٹی بھی میسر نہیں ہورہی۔علاج معالجہ، بچوں کو پڑھانا ان لوگوں کے لئے ڈراونہ خواب بن گیا ہے –
اس کی زمہ داری تو حکومت پر پڑتی ہے جس کا تدارک کرنا بنیادی سطح کی انتظامیہ پر ہے۔حکومت کی مجموعی حیثیت اور گرفت مفقود ہوگئی ہے جس وجہ سے مقامی سطح کی انتظامیہ کی گرفت بھی متاثر ہوگئی ہے۔وہ اپنی حد تک اپنی نئیوسنس ویلیو کی وجہ سے گذارا کر لیتی ہے عام آدمی کو انصاف پہنچانے میں قاصر ہے کیونکہ مارکیٹ انتظامیہ بذات خود ایک مافیا ہے۔
شہروں اور قصبوں کے ساتھ ہاوسنگ سو سائیٹیز بننے کی وجہ سے قرب و جوار کی زرعی اراضی زیر تعمیر آگئی ہے جس وجہ سے شہروں اور قصبوں میں سستی اشیاء خورد و نوش، آٹا، چاول، سبزیاں، پھل، دودھ دہی وغیرہ دور پار کے علاقوں سے آتا ہے جو قیمتیں بڑھنے کی ایک خاص وجہ ہے۔
اب دور پار کی زرعی اراضی بھی ہاوسنگ سو سائیٹیز زمینداروں سے ان کی توقعات سے زیادہ قیمت دے کر خرید لیتے ہیں جس کی وجہ سے پیداوار میں کمی آنے لگی ہے جس کی وجہ سے بھی قیمتیں بڑھ گئی ہیں – ان ہاوسنگ سو سائیٹیز میں زرعی فارمنگ اور کچن گارڈنگ کے لئے کوئی شرط نہیں رکھی جاتی، جس کے بجائے کاروباری منہ مانگے داموں پر روز مرہ کی اشیاء بیچتے ہیں – حکومت نے وافر سٹاک سٹور کرنے کے لئے کوء بندوبست نہیں کیا ہے جس سے یا تو سٹاک ضائع ہوجاتا ہے یا درمیانہ دار اس کا فائدہ اٹھا تا ہے – حکومت کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے –
اس کا مقابلہ لوگوں کو خود کرنا پڑے گا جس کے لئے خدا خوفی کی ضرورت ہے، قانون کا خوف تو نہیں رہا۔ اس کی سب سے بڑی زمہ داری منڈی تک اور منڈی سے عام آدمی تک مال پہنچانے والوں کی ہے جو اپنے منافع کی شرع کو کم کرسکتے ہیں۔عمو می طور مشاہدے میں آیا ہے کہ ہر سطح پر منافع کی ریٹ پچیس سے تیس فیصد ہے اس کا حتمی بوجھ عام صارف پر پڑتا ہے۔ اگر دور اندیشی اور خدا خوفی سے کام لیا جائے تو اصل خرچے پر چیزوں کی نوعیت کے اعتبار سے منافع پانچ سے دس فیصد تک رکھا جائے تو اس میں سب کا بھلا ہوگا۔مال کی ترسیل زیادہ ہوگی، عام صارفین میں اضافہ ہوگا جو زیادہ سے زیادہ خر یدیں گے، کاروبار کو فروغ ملنے سے اس طرح آمدن بھی بڑھ جائیگی اور خوشحالی میں بھی اضافہ ہوگا۔ کم منافع رکھنے سے سیل زیادہ ہوگی نتیجتآ مجموعی آمدن میں اضافہ ہوگا۔
جو مال جلدی تلف ہونے والا ہے مثلآ سبزیاں، پھل، آٹا، چاول، دالیں پر دس فیصد تک مناسب ہے لیکن اس کے تلف ہونے کے فوری خدشے کے ساتھ ہی اس کو ایک فیصد تک پہنچا دیں اور اگر پھر بھی سارا مال نہیں نکلتا تو بچا ہوا مال محتاجوں میں بانٹ دیں۔کسی کا تو بھلا ہوگا۔
جو مال پیکنگ میں آتا ہے اس پر معیاد لکھی ہوتی ہے اس معیاد تک پہنچنے کے خدشے سے پہلے بھلے ایک فیصد پر بھی نکل سکتا ہو نکال دیں تاکہ نقصان سے بچ جائیں۔
دیر پا اشیاء مثلآ کپڑے، برتن،عام فر نیچر وغیرہ پر پورا دس فیصد بھی رکھیں تو کوء حرج نہیں ان کے تلف ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا اور وہ ہر عام آدمی کے لئے ناگزیر بھی نہیں ہوتے۔
صارفین کی زمہ داری بنتی ہے کہ سستی چیزیں دیکھ کے ڈھیروں نہ خریدیں تاکہ ہر ایک کو خریدنے کا موقع ملے اور سب کی ضرورتیں بھی پوری ہوں۔
خریدتے وقت چوائس کرنا بھی صارف کی اہم ترین زمہ داری ہے۔ دالوں اور سبزیوں میں سے حسب استطاعت چیز خریدیں – ہمیشہ کے لئے صرف موسمی پھل اور سبزیاں خریدیں – بے موسمی سبزیاں اور پھل مہنگے ہوتے ہیں۔گرمیوں کے موسم میں مالٹا کنوں کے بجائے ہندوانہ خریدیں۔ سردیوں میں آم، کدو، کریلے کے بجائے شلجم، آلو پالک لیں جو موسمی پھل اور سبزیاں ہوتی ہیں۔
جتنا ضرورت ہے اتنا خریدیں اور اتنا پکائیں جو کھا سکیں ضائع نہ ہو – تاہم اگر موسم اجازت دیتا ہو اس کو دوسرے وقت کے لئے ڈھانپ لیں یا کسی کو دے دیں۔
رمضان شریف یا باقی مذہبی یا قومی تہواروں پر دنیا بھر میں کاروباری لوگ قیمتیں پچاس فیصد تک کم کر دیتے ہیں تاکہ سب کو خوشیاں منانے میں شریک کریں – بد قسمتی سے ہمارے ملک میں ایسے موقعوں پر قیمتیں کء گنا بڑھا دی جاتی ہیں جو صاحب حیثیت تو لے لیتے ہیں لیکن متوسط اور غریب طبقہ ان سے محروم رہتا ہے – رمضان کے مہینے میں کھجوریں، پکوڑے، سموسے اور فروٹ چارٹ تو لازمی روایت ہے – اگر ان میں سے بھی چوائس کر لیں تو بہتر ہوگا- ہر روز بدل بدل کے صرف ایک چیز لیں، اس سے بھی مارکیٹ کنٹرول ہو جائیگا۔
خبروں میں سننے میں آرہا ہے کہ رمضان شریف کے احترام میں غرباء کے لئے پنجاب میں آٹا مفت تقسیم کیا جاتا ہے – ایسا کیوں؟ یہ ہر
وقت اور ہر شخص کی ضرورت ہے اس کو اس کی اصل قیمت پر بیچیں تاکہ ہر کوئی لے سکے اور اگر کسی کو استطاعت نہیں ہے اس کی قیمت اس کی استطاعت کے مطابق لیں تاکہ وہ احساس کمتری یا بھکاری ہونے کے داغ سے بچ جائے۔
فی الوقت پاکستان جس بحران کا شکار ہے اس کے اثرات ختم ہونے میں بتدریج دس سال لگیں گے بشرطیکہ حکومت ایکسپورٹس بڑھانے، امپورٹس گھٹانے، حکومتی عیاشیاں ختم کرنے اور لیکیج بند کرنے کے لئے سخت پالیسیاں بنائے اور ان پر عمل کرے۔
فوری طور پر حکومت عوامی مفاد میں چند اقدامات کر کسی حد تک ازالہ کر سکتی ہے جن میں چند ایک یوں ہیں کہ پانچ سال تک سائینٹفک اور ایجو کیشنل پروجیکٹ کے علاوہ سرکاری سطح پر جاری منصوبوں کے علاوہ کوء نیا تعمیری منصوبہ نہ بنائے، سول اور ملٹری سیکٹر میں زیبائش و آرائش، مرمت، فرنیچر، نء تعمیر و ترقی وغیرہ پر اخراجات نہ کرے اور نہ بنائے، اپنے شہروں میں اپنے گھروں میں رہنے والے اعلی سرکاری ملا ز مین کا کرایہ مکان الاؤنس نصف کر دیا جائے، سرکاری ریسٹ ہاؤس میں مفت رئائش کا استحقاق ختم کرے، سرکاری افسر فیلڈ کا دورہ کرنے کے بجائے ای گورننس اور کانفرننسز وڈیو لنک کے زریعہ کریں، تین سٹار سے بڑے ہوٹلوں پر بلوں ادائیگی پر دس فیصد انٹر ٹینمنٹ ٹیکس لگا یا جائے، جو بازار حکومت کے مقررہ اوقات میں بند نہیں ہوتے ان کی بجلی کی ترسیل ٹرانسفارمر سے بند کی جائے ۔ان اقدامات کے محاصل لوگوں کی صحت، تعلیم اور ناگزیر کفالت پر لگائے جائیں –
ہندوستان میں صارفین کی تین کیٹیگریز بناء گئے ہیں، غربت کی لکیر سے نیچے، غربت کی لکیر پر اور اس سے اوپر۔پہلی دو کیٹیگریز کی ان کی استطاعت کے مطابق قیمت مقرر ہے جو سرکاری ڈپؤں سے مقررہ مقدار میں لے سکتے ہیں اور تیسری جو بھی چیز جتنی چاہیں بازاری قیمت پر لے لیں۔ ایران میں بے شمار پابندیوں کے باوجود ہر عام آدمی خاص آدمی کی طرح کی چیز لے سکتا ہے فرق اتنا ہے کہ خاص یا استطاعت رکھنے والا پوری قیمت دے گا اور غریب اپنی استطاعت کے مطابق کوپن دکھا کے لے سکتا ہے اس کی بقیہ قیمت سرکار دیتی ہے۔ اسی طرح کا انتظام یہاں بھی کیا جائے۔
حکومت اگر جاگیرداری اور غیر حاضر زمینداری کا نظام ختم کر کے زمیں ہالی کو دے اور تین سال تک بے کار رہنے والی زمین، اس کو آباد کرنے والے کو دے تو ملک میں اشیائے خورد و نوش کے مسائل ہی حل ہو جائینگے – جب تک یہ نہیں ہوتا ان لوگوں سے کماء پر ٹیکس اور ملکیت رکھنے کا مالیہ کا قانون رائج کرے اور ٹیکس اثتثناء ختم کرے – اس طرح بے زمین، زمین کے مالک اور ملک کی پیداوار کا زریعہ بنیں گے – اسی طرح سماجی مساوات کی تعلیم ھنگامی بنیادوں پر کر کے لوگوں کو توہم پرستی سے نکال کر زیارات سے منسلک جائیدادیں اور چڑھاوے اوقاف کی تحویل میں لیکر بے روز گاروں اور غرباء کے کے لئے روز گار پیدا کرنے کے منصوبے بناکر ان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرے – پانچ لاکھ سے کم مال رکھنے والے دکاندار سے سالانہ ایک ہزار ٹیکس لیا جائے اور اسی طرح زیادہ مال رکھنے والے پر یہ سلیب بڑھاء جائے جس کی بھی حتمی حد مقرر ہو – اس طرح قومی تعمیر میں سب شامل ہونگے -ملک اور اس کے باسیوں کی سب سے بڑی خدمت یہ ہوگی کہ بلا تخصیص قانون کی حکمرانی رائج ہو، مساوات قائم ہو تو نہ کوء بھوکا سوئے گا نہ لاعلاج مرے گا اور نہ ہی بے روز گار رہے گا – اس کا علاج عام لوگوں کے پاس ہے کہ وہ مقامی سطح پر آزمائے ہوے لوگوں اور قومی سطح پر آزماء ہوء جماعت یا قیادت کو چھان پھٹک کے ووٹ دیں، کس لالچ، دباؤ یا دھوکے میں نہ آئیں –

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں