وزیر اعظم سردار تنویر الیاس، توہین عدالت کے مرتکب۔۔۔جسٹس (ر) منظور گیلانی

وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس صاحب زور خطابت میں اعلی عدلیہ کے بارے میں کچھ ایسی باتیں کہہ گئے جو عدلیہ کو بحیثیت مجموعی سکینڈلائز کرنے کے مترادف سمجھتے ہوئے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ آزاد کشمیر نے ان کو توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے سے پہلے 10 اپریل کے حکم کے تحت عدالت میں بلا کے اپنی پوزیشن واضع کرنے کے لئے 11 اپریلء 2023 کے لیے طلب کیا گیا۔ وزیر اعظم نے سوشل میڈیا کے بیانات کے مطابق رات گئے اپنے ان ہی الفاظ کو دوبارہ دہرانے کے علاوہ دونوں عدالتوں میں پیش نہ ہونے کا اعلان بھی کیا لیکن صبح تڑکے بہتر سوچ آنے پر پیش ہونے کا اعلان بھی کیا۔وہ پیش بھی ہوئے اور اپنے الفاظ پر معافی بھی مانگی۔”انت بھلا سو بھلا“ اس کے بعد عمومی طور عدالتیں معافی قبول کرکے در گذر کر دیتی ہیں۔ چونکہ اس معاملہ میں توہین عدالت کا نوٹس بھی جاری نہیں ہوا تھا، مزید کارروائی ڈراپ کی جاسکتی تھی۔
لیکن عدالت کا ایک بڑا بنچ ان کے پیش ہو کران کے بیان کے بارے میں وضاحت سے مطمئین نہیں ہوا جس کی پاداش میں آئین کی دفعہ 45 کے تحت ان کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیکر تا برخاست عدالت توہین عدالت کی سزا دینے کے علاوہ ممبر اسمبلی کا عہدہ رکھنے کا نااہل قرار دینے کے علاوہ اس کو دوسال تک کوئی بھی پبلک عہدہ رکھنے سے بھی نا اہل قرار دیا۔
جس بیان کی بنیاد پر وزیر اعظم کو نا اہل قرار دیا گیا اس میں کچھ معاملات میں حکم امتنائی مسلسل جاری رکھنے کی وجہ سے حکومت کا نظم و نسق متاثر ہورہاہے، اربوں روپے کا سعودی ڈویلپمنٹ فنڈ کے کسی منصوبہ پر پانچ ارب روپے ضائع ہورہے ہیں، تمباکو کی کمپنوں کو 5/6 ارب پر سٹے جاری ہوئے ہیں جو ریاست کا نقصان ہورہا ہے، جو رقم عدلیہ کو دی گئی تھی اس کے عوض اپنے لوگوں کو نوکریاں دی گئیں وغیرہ۔
یہ واقعات اگر درست ہیں تو بحثیت وزیر اعظم ان کے تحفظات حق بجانب ہیں کیونکہ وہ عوامی نمائندے ہیں، عوام کو جواب دہ ہیں اور عوام کی نظروں میں ان کی غلطی کی وجہ سے نہیں، بلکہ عدالتی معاملات کی وجہ سے بے وقار اور تضیک کا نشانہ بنتے ہیں۔وزیر اعظم ریاست کے سب اداروں کی اچھی کاردگی کے لئے تحسین کے مستحق اور بری کے لئے تنقید اور تضیحک کے زمہ دار اور جواب دہ ہوتے ہیں۔ لیکن جس فورم پر اور جس انداز میں ان کا اظہار کیا گیا وہ بادی النظر میں توہین آمیز تو ہیں۔ اس کے لئے مناسب طریقہ عدالت کو درخواست کے زریعہ توجہ دلانا چاہیے تھا اگر اس کے باوجود نہ ہوتا سپریم کورٹ میں اپیل ہوسکتی تھی۔ کسی غیر متعلقہ فورم پر عدالت کے بارے میں اس طرح کی گفتگو وزیر اعظم کے منصب سے بھی مطابقت نہیں رکھتی اور عدالت کے وقار کو بھی مجروح کرتی ہے۔
جہاں تک تو ہین عدالت میں سزا اور دوسال کے لئے کسی بھی پبلک عہدہ سے نا اہل قرار دینے کے حکم کا تعلق ہے اس میں فیصلہ کے ملاحظہ سے لگتا ہے کہ وزیر اعظم کے وکیل نے انتہائی اہم واقعاتی اور آئینی پہلوں کو عدالت کے روبرو پیش نہیں کر سکے کیونکہ یہ ڈسکس نہیں ہوئے وگرنہ فیصلہ ممکن ہے یہ نہ ہوتا۔مثلآ۔
۱- 10/4 کے عدالتی حکم کے تحت بڑاواضع طور لکھا تھا کہ تنویر الیاس کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس دینے کی بجائے ان کو اصالتآ عدالت میں پیش ہوکر اپنی پوزیشن واضع کرنے کا حکم دیا جاتا ہے،توہین عدالت کی کارروائی کا نہیں تھا۔ اگر عدالت انکی وضاحت سے مطمئن نہ ہوتی جیسا کہ نہیں ہوئی، تو توہین عدالت ایکٹ 1995 کے تحت چارج شیٹ مرتب کر کے دیئے گئے طریقہ کار کے مطابق ٹرائل ہوتا جس کی بنیاد پر سزا یا بریت ہو سکتی تھی جو اس کے مطابق نہیں ہوئی۔
2- سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کو آئین کی دفعہ 45 کے تحت اپنی توہین کی سزا کے حدود کی تعریف اور تعین کرنے کا اختیار حاصل ہے، لیکن سزا کا اختیار اور ٹرائل کا طریقہ کار اسی دفعہ کی ذیلی دفعہ (3) کے تحت توہین عدالت کے قانون کا قانون سال 1995 میں بنایا گیا ہے۔ دفعہ 45(3) یوں ہے;
-The exercise of the
3 power conferred on a Court by this Article may be regulated by law and, subject to law, by rules made by the Court.”
اس کے تحت توہین عدالت کے ٹرائل کا طریقہ کار اور سزا مقرر کی گئی ہے، آئین کے تحت کوئی سزا مقرر نہیں کی گئی ہے جبکہ اس کیس میں سزا آئین کی دفعہ 45 کے تحت دی گئی ہے، میرے خیال میں وزیر اعظم کے وکیل اس آئینی اور قانونی صورت حال کو عدالت کے سامنے نہیں رکھ سکے ورنہ فیصلے میں اس کو یقینآ ڈسکس کیا گیا ہوتا۔ یہ طریقہ کار آئین کی دفعہ (19)4کے تحت Fair trial and Due process کی تعریف میں نہیں آتا ہے کیونکہ توہین عدالت کے 1995 کے قانون کے مطابق کاروائی نہیں ہوئی ہے جو Fair trial and Due process کے خلاف ہے – دفعہ (19) 4کے الفاظ یوں ہیں:

Right to fair trial 19]2
– For the determination of his civil rights and obligations or in any criminal charge against him, a person shall be entitled to a fair trial and due process.

3- آئین کی دفعہ(c) (2)24 کے تحت کوئی بھی عوامی نمائیدہ اس وقت نا اہل قرار دیا جاسکتا ہے جب اس کو دوسال سے زیادہ سزا ہوئی ہو اور اس مدت کو پانچ سال گذر گئے ہوں – اس کیس میں تا برخواست عدالت کے سزا ہوئی ہے جو مقررہ دو سال کی مدت کے چند لمحوں کے برابر بھی نہیں ہوتی، اس لئے بادی النظر میں یہ ڈسکوالیفکیشن کی زد میں نہیں آتی۔ متعلقہ دفعہ یوں ہے؛
(c) he has been on
conviction for any offence sentenced to transportation for any term or imprisonment for a term of not less than two years unless a period of five years has elapsed since his release;
4- قطع نظر پیرا بالا کے، آئین کی دفعہ 25(2) کے تحت صرف سپیکر اسمبلی کے ریفرنس پر سوائے الیکشن کمیشن کے کوئی عدالت کسی ممبر کو ڈس کوالیفائی نہیں کر سکتی –
میرے خیال میں یہ سپریم کورٹ میں اپیل کے لئے Fittest case ہے جس پر کوئی Authoritative فیصلہ کی ضرورت ہے۔
ایک غلط فہمی کو رفع کرنے کے لئے یہ لکھنا مناسب ہوگا کہ آئین کی دفعہ 15 کے تحت سردار تنویر الیاس اس وقت تک وزارت عظمی کے فرائض دینے کے اہل ہونگے جب تک ان کا جانشین منتخب نہیں ہوتا تاہم صدر ریاست دفعہ 17(1) کے تحت یہ ذمہ داریاں ادا کرنے کا کہہ سکتے ہیں، گوکہ یہ بھی ایک رسمی سا انتظام ہوگا لیکن آئین کا تقاضا یہی ہے۔
بد قسمتی سے ماضی قریب میں پاکستانی سپریم کورٹ نے مختلف اداروں، سیاست دانوں اور مختلف با اثر افراد کی ملی بھگت سے عوامی نمائندگی کے قانون اور وزرائے اعظم کی برطرفیوں کی بد ترین مثالیں قائم کر کے نہ صرف اس عہدے کو بے وقار اور بے حیثیت بنا دیا ہے بلکہ پورا نظام تلپٹ کر دیا ہے۔ اسی لئے عوام کے نزدیک عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ سب سے زیاد نا پسندیدہ ادارے بن گئے ہیں۔ وزیر اعظم عوام کا نمائندہ اعلی ہوتا ہے اور ریاست کے سب اداروں کی توقیر کی علامت اور ضامن ہوتا ہے۔اس کی بے توقیری سے سار ا نظام، عہدے اور ادارے بے توقیر ہوجاتے ہیں اور طاقت کا مر کز ایسے ادارے بنتے ہیں جن کی نہ عوامی حیثیت ہوتی ہے اور نہ ادراک۔ اس کی اپنی زمہ داری بنتی ہے کہ یہ ان خوبیوں کا اپنے کردار اور طرز عمل سے مظاہرہ کرے اور ریاستی ادارے ریاست میں ہم آہنگی اور حفظ مراتب کا تحفظ کریں، وگرنہ لاقانونیت اور طوائف الملوکی ریاست کا مقدر بن جائیگی۔
اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل اور فوری سماعت کی درخواست کسی ابتدائی اعتراض کے بعد خارج/ واپس کی گئی جس کی دو بارہ د ائری پر جمعرات کو سماعت ہوئی۔ اپیل سماعت کے لئے قبول کی گئی البتہ ہائی کورٹ کے حکم کی معطلی کے خلاف درخواست مختصر حکم کے تحت خارج کردی گئی جس کی تفصیلی وجوہات بعد از یں آنی ہیں۔ گوکہ ہائی کورٹ کے حکم کی ظاہری صورت میں معطل کرنے کی کئی آئینی، قانونی، ریاستی اور حکومتی سٹرکچر، اس کے حکومت، عوام اور سماج پر اثرات وجوہات موجود تھیں،لیکن عبوری ریلف جس کو سٹے آرڈر کہتے ہیں وہ عدالت کا صوابدیدی اختیار ہے جو عدالت اپنی وزڈم کے مطابق ہی استمعال کرتی ہے، یہ کوئی قابل اعتراض یا موضوع بحث بنانے کی وجہ نہیں بنتی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں