پندرہویں ترمیم ناگزیر ہے ..جسٹس (ر)منظور حسین گیلانی

آزاد کشمیر آئین کی تیرویں ترمیم کے بعد آزاد جموں و کشمیر کونسل کے قانون سازی اور انتظامی اختیارات بلترتیب وزیر اعظم پاکستان اور حکومت آزاد کشمیر کو منتقل ہو گئے ہیں لیکن کونسل کے ممبران اور بیروکریسی بغیر کسی زمہ داری ، اختیار اور کام کاج کے صورت سابق کے طور بدستور تنخواہوں اور مراعات سے مستفید ہورہے ہیں. کونسل نئی آئینی صورت کے مطابق قانون سازی کے لئے وزیر اعظم پاکستان کے لئے ایک مشاورتی علامت کے طور موجود ہے جن کی عملی طور کوئی حیثیت اور افادیت نہیں .
یہ حکومت پاکستان اور حکومت آزاد کشمیر کی حکومتی بد انتظامی اور نا اہلی کا واضع ثبوت ہے کہ اتنے بڑے اخراجات کے ساتھ ایک ادارے کے مکمل غیر فعال اور بلا ضرورت ہونے کے باوجود وہ ادارہ موجود ہے – جبکہ اس کے اختیارات کے ختم کئے جانے کے بعد پہلے سے زیادہ بہتر طور کام کاج ہورہا ہے – اس کے باوجود ان لوگوں پر ماہوار کروڑوں روپے ضائع کرنے کی کیا جوازیت ہے ؟ اس فالتو افرادی قوت سے کام نہ لینا ان کی اہلیت کو زنگ آلود کرنا اور ان پر آزاد کشمیر کے بجٹ سے کروڑوں روپے خرچ کرنا قومی خزانے کی مجرمانہ خیانت ہے اور کوئ اس کا نوٹس نہیں لیتا یہ حیرانگی کی بات ہے –
ہونا تو یہ چاھئے تھا کہ تیرویں ترمیم کے ساتھ ہی ان سب لوگوں اور ان اثاثوں کے بارے میں بھی آئین میں ہی کوئی طریقہ کار Mechanism وضع ہونا چاہیے تھا جیسے کسی ادارے کے خا تمے کے ساتھ اس کے مستقل ملا مین کی نوکری کو تحفظ دیتے ہوئے حکومت کے دوسرے محکموں میں تبدیل یا ضم کیا جاتا یا ان کو گولڈن شیک ہینڈ کے اصولوں کے مطابق باعزت طور فارغ کیا جاتا تاکہ وہ کسی دوسرے جگہ کام آتے یا کوئی اور بہتر کام کاج کے لئے فارغ ہوتے اور آزاد کشمیر کی مونگ پھلی جیسے خزانے پر یہ بوجھ مسلسل نہ پڑا رہتا-
مجھے دو روز قبل وزیر اعظم آزاد کشمیر کی بے بسی پر ہنسی آئ کہ “ میں نے آج تک کونسل کے کسی ملازم کا منہ تک نہیں دیکھا”- لیکن اس کے باوجود وزیر اعظم کی منظوری سے ہی آزاد کشمیر کے خزانے سے ان پر کروڑوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں جبکہ یہ ایک لمحہ فکریہ ہوتا اور اس آئینی اور قانونی خلاء پر کوئی غور و خوز کر کے اس کا احسن حل تلاش کیا جاتا –
آزاد کشمیر کونسل ، آزاد کشمیر کے آئین کے تحت آزاد کشمیر کا ہی ادارہ ہے اور اس کے ملازمین آزاد کشمیر کی سول سروس کا حصہ ہیں جن کی تقرری صرف ریاستی باشندوں میں سے کی جاسکتی ہے لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ کونسل کا جو بھی انچارج منسٹر یا سیکریٹری تعینات ہوا اس نے اپنے حلقے ، علاقے یا جاننے والوں کی منسٹیرئل سٹاف میں بھرتی کرکے قانون کی بھی خلاف ورزی کی اور ریاستی خزانے پر بھی بوجھ بڑھایا –
کونسل میں اسوقت براہ راست ، ڈیپو ٹیشن اور عارضی طور تعینات ملازمین کی بہت بڑی کھیپ ہے جن کے علاوہ چھ منتخب ممبران بھی ہیں – یہ سب لوگ بغیر کوئ کام کاج کرنے تنخواہ بھی لے رہے ہیں اور مراعات بھی – ان کے کام کاج سے الگ ہونے کے بعد آزاد کشمیر حکومت آزادانہ طور کام بھی کررہی ہے اور کام ہوتا ہوا نظر بھی آرہا ہے – اس کے ہوتے ہوئے آزاد کشمیر حکومت کوحکومت پاکستان کے خلاف جو شکایت ہوا کرتی تھیں وہ بھی ختم ہوگئ ہے اور نظام بھی بہتر چل رہا ہے –
وزیر اعظم آزاد کشمیر محترم تنویر الیاس کا یہ بیان بجا ہے کہ “ میں نے آج تک کونسل کے کسی ملازم کی شکل تک نہیں دیکھی “- کیونکہ تیرویں آئینی ترممیم کے بعد ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں رہی لہذا حکومتی کاروبار کے سلسلے میں ان کے نظر آنے کا کوئی موقع ہی نہیں رہا – جس امر کا وزیر اعظم کو نوٹس لینا چاھئے تھا وہ ان کی تنخواہ ، مراعات ، لاجسٹک اور متفرق اخراجات پر اٹھنے والے کروڑوں روپے ہیں جو وزیر اعظم کی منظوری سے جاری کئے جاتے ہیں – اس کا فی الفور حل تو یہ ہے کہ کونسل کے اندر جو عارضی ملازمین ہیں ان کو فوری طور فارغ کر دینا چاھئے- جو ڈیپو ٹیشن پہ ہیں ان کو ان کے آبائی حکومتوں اور محکموں کو واپس کر دینا چاھئے – جو مستقل ملازمین ہیں ان میں سے جو ریاستی باشندے ہیں ان کو آزاد کشمیر حکومت میں ان کے گریڈ کی ہم پلہ آسامیوں پر معہ پوسٹ اور بجٹ منتقل کر دینا چاھئے اور باقی ملاز مین کو منسٹریُ کشمیر افئیرس کے سر پلس پول میں منتقل کردینا چاہیے – حکو مت آزاد کشمیر ، حکومت پاکستان اور ان سے متعلق لوگوں کو کونسل کے مالی اور انتظامی اختیارات کے خاتمے کے بعد حکومت پاکستان کے ساتھ کونسل کی بد عملی کی وجہ سے جو کشیدگی رہتی تھی اس خوشگوار تجربے کے بعد یہ عمل کر گذرنا چاھئے تاکہ بد مز گی کی اس آخری علامت کو بھی بطریق احسن انجام تک پہنچایا جائے –
جہاں تک منتخب ممبران کو نسل کا تعلق ہے ان کی اگر کوئی افادیت ہے ( جس کا تعین تیرویں آئینی ترممیم کے بعد کے حالات کی روشنی میں کیا جا سکتا ہے ) تو ان کے لئے وہ سہو لیات فراہم کی جائیں جو ان کے فرائض کی انجام دہی کے لئے ناگزیر ہو ں اگر ان کی کوئ افادیت نہیں ہے تو آزاد کشمیر کے آئین میں پندرہویں ترمیم کر کے موجودہ ممبران کی مدت ختم ہونے کے بعد کونسل کی حیثیت کو ختم کر کے وزیر اعظم پاکستان کو دئے گئے قانون سازی کے اختیارات پاکستان کی پارلیمنٹ کو دئے جائیں جو آئینی طور قانون ساز ادارہ ہے ، وزیر اعظم قانون ساز ادارہ نہیں ہے – اس کے لئے پندرہویں ترمیم نا گزیر ہے –
اس کے لئے پاکستان کے آئین میں ترمیم کر کے آزاد کشمیر کے باشندوں کو پارلیمنٹ پاکستان میں نمائندگی دی جاکر سیاسی اور آئینی منافقت کی وہ چادر اٹھا پھینک دی جائے جو مسئلہ کشمیر کے نام پر کشمیر اور پاکستان کے لو گوں کو دھوکا دیا جارہا ہے – حکومت پاکستان جو کچھ عملی طور کرتی اور آزاد کشمیر کے لوگ سہتے ہیں اسے آئین کے زریعہ منظبط کیا جائے – یہ نمائیندگی بلواسط ہو یا بلا واسطہ ، یہ دور رس سیاسی اور سفارتی حالات کی روشنی میں طے کیا جا سکتا ہے لیکن یہ فراڈ اب مزید نہیں چل سکتا – جہاں تک کونسل کے اثاثوں کا تعلق ہے وہ آزاد کشمیر حکومت کی ملکیت ہیں – ان کو اپنی تحویل میں لیکر آزاد کشمیر کے لوگوں کے بہتر استمعال میں لایا جائے

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں