”پھیرن“ کا عالمی دن،اور یکجہتی کا اظہار..عابد صدیق

بھارت کے رزیر تسلط کشمیر کے حصے جسے ہم ”مقبوضہ کشمیر“ کے نام منسوب کرتے ہیں کے کچھ حصوں میں گزشتہ ہفتے اپنی ثقافت کو اجاگر کرنے اور بعض بھارتی انتہا پسند تنظیموں کے اس مطالبے کو رد کرنے کے لیے گزشتہ سالوں کی طرح اس دفعہ بھی” پھِیرن”کا عالمی دن منایا گیا۔مختلف ویب سائٹس پر دستیاب معلومات کے مطابق”پھیرن” اور پُوٹس کشمیری مرد و خواتین کے مخصوص روایتی لباس کا نام ہے۔پھِیرن یا پُوٹس اوپر نیچے پہنے جانے والے دو جُبّوں (گاؤن) پر مشتمل ہوتا ہے جو دنوں ایک ساتھ پہنے جاتے ہیں۔معلومات کا ذخیرہ رکھنے والی ویب سائٹ”وکی پیڈیا“ کے مطابق روایتی کشمیری پھِیرن اور پُوٹس کی لمبائی پاؤں تک ہوتی ہے اور یہ انداز انیسویں صدی عیسوی کے اواخر تک خاصا مقبول رہاہے جو بعد ازاں آہستہ آہستہ کم ہوتا گیا۔ پِھیرن اپنی جدید شکل میں گھٹنوں سے نیچے تک ہی ہوتا ہے جو سُتھن (شلوار کی ایک ڈھیلی قسم) کے ساتھ پہنا جاتا ہے۔ لمبے پھیرن کے ساتھ سُتھن پہننا لازمی نہیں ہوتا، یہ پہننے والے کی مرضی پر منصر ہے کہ وہ طویل پھیرن کے ساتھ روایتی زیر جامہ پہنے کیونکہ روایتی پھیرن کے چاک نہیں ہوتے۔
2018 میں پہلی بارایک ہندو انتہا پسند جماعت بجرنگ دل نے کشمیر کے مخصوص روایتی لباس ’پھیرن‘ پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا۔ بعد میں 2021 میں دیگر انتہا پسند تنظیموں نے بھی اس مطالبے میں شدت پیدا کی۔ ان تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ پھیرن ایک بہت بڑا سکیورٹی رسک ہے جس میں عسکریت پسند ایک جگہ سے دوسری جگہ بم اور گرینیڈ وغیرہ چھپا کر لے جاتے ہیں۔یہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پھلائی جانے والی افواہ تھی اور اس مطالبے نے خطے میں ایک نئی بحث چھیڑ دی۔ مقبوضہ کشمیر کے مقامی میڈیا میں اور پھر سوشل میڈیا پر ایسی تصاویر بھی وائرل ہوئی ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سکیورٹی اہلکار ان افراد کی زیادہ گہری سے تلاشی لے رہے ہیں جو پھیرن پہنے ہوئے ہوتے ہیں۔ان تصاویر کے جائزے سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ان انتہا پسند تنظیموں کے مطالبے کو حکومتی حمایت حاصل ہے اور س میں شک نہیں کہ ایسا مطالبہ انتہا پسند تنظیمیں اپنی مرضی سے نہیں کرتیں بلکہ انہیں ”انتہا پسند“ بھارتی حکومت کی مکمل حمایت دستیاب ہوتی ہے۔خود بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے بھی 2019 میں عین اس وقت جب شہری ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف ملک بھر میں احتجاج ہو رہے تھے تو ایک پبلک جلسے میں اپنے خطاب کے دوران کہا تھا کہ” احتجاج کرنے والوں کو ان کے لباس سے پہچانا جا سکتا ہے”یہ صاف اشارہ ان کشمیریوں کی جانب تھا جو اپنی شناخت برقرار رکھنے کے لیے روایتی لباس ”پھیرن“ پہنتے ہیں۔ حالانکہ ان قوانین کے خلاف اکیلے صرف مسلمان سراپا احتجاج نہیں تھے بلکہ ہندو اور دوسرے لوگ بھی اس مزاحمت کا حصہ تھے۔ چونکہ اس کا ہدف بظاہر مسلمان تھے اس لیے مسلمان زیادہ تعداد میں سڑکوں پر تھے۔ وزیرِ اعظم کی طرف سے کھلا کھلم ایک اقلیت کے خلاف اکثریت کو اکسانا نہایت ہی حیران کن تھا۔کشمیریوں نے بھارتی وزیر اعظم کی اس تقریر پر بھی اپنا سخت رد وعمل دیا تھا اور یہ احتجاج اب تک کسی نا کسی شکل میں جاری ہے۔
”پھیرن“ جسے کشمیر میں ”فیرن“ بھی کہا جاتا ہے جموں و کشمیر کی ثقافت کا اہم ترین حصہ ہے پہلے یہ شاید ویلی تک محدود تھا لیکن اب یہ جموں میں بھی برابر پسند کیا جاتا ہے۔ چناب اور پیر پنجال کے علاقے میں لوگ بلا مذہب اور رنگ و نسل کے تعصب سے اس کا استعمال کرتے ہیں۔ بوڑھے، بچے، نوجوان و عورتیں خوشی سے اسے زیب تن کرتے ہیں۔گرمیوں میں یہ کاٹن کا تیار کیا جاتاہے جبکہ سردیوں کے لیے اونی کپڑے کا بنایا جاتا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے اکثریتی علاقوں میں چونکہ سردی زیادہ پڑتی ہے اس لیے سردیوں میں اس کا استعمال زیادہ بڑھ جاتا ہے کیونکہ یہ گرم اور آرام دہ لباس ہے۔ برف باری اور شدیدسردیوں میں پھیرن کے نیچے کانگڑی استعمال کیا جاتا ہے جواپنی مخصوص حرارت کے باعث شدید سردی میں انسانی جسم کو گرم رکھتی ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے بہت سارے حصے میں سرکاری دفتروں میں بھی پھیرن پہنا جاتا ہے۔ 2018 میں ویلی کے محکمہ تعلیم کے احکام کی جانب سے سرکاری تعلیمی دفتروں میں ”پھیرن“ کے استعمال پر پابندی کا ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا تھا لیکن تھوڑے ہی عرصے کے بعد عوامی مزاحمت کے پیش نظر حکومت کو یہ نوٹیفکیشن واپس کرنا پڑا۔
مقامی میڈیا کے مطابق سرینگر کے تاریخی لال چوک میں ” گھنٹہ گھر” کے سامنے گزشتہ بدھ کو”انٹرنیشنل پھیرن ڈے“ منایا گیا یہ دن گذشتہ کئی سالوں سے منا یا جاتا ہے۔اس تقریب میں کئی لوگوں جن میں سماجی کارکن، خواتین،سیاسی جماعتوں کے کارکن شامل تھے روایتی پھیرن پہن کر جمع ہوئے اور انٹرنیشنل پھیرن ڈے منایا۔لچسپ بات یہ دیکھنے میں آئی کہ ان افراد میں نہ صرف کشمیری بلکہ بیرون وادی کے لوگ بھی شامل تھے جو اس بات کا اظہار تھا کہ ”پھیرن“ پورے کشمیر میں یکساں مقبول ہے۔ان افراد نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈ بھی اٹھا رکھے تھے جن پر اپنے کلچر کی حمایت اور بھارتی انتہا پسند تنظیموں کے پروپگینڈا کے خلاف نعرے درج تھے۔ یہ”پھیرن“ کے ساتھ ساتھ کشمیر کے مختلف حصوں میں بسنے والوں کی یکجہتی کا بھی مظہر اور یکجہتی کی ایک بہترین مثال بھی تھا۔ سوشل میڈیا پر بھی دنیا بھر میں بسنے والے کشمیریوں نے اپنی”پھیرن“ پہنے تصاویر شئیر کر کے بھارتی نفرت انگیزی کا جواب دیا اور ایک دوسرے کے ساتھ یکجہتی قائم کرنے اور اپنی ثقافت کے ساتھ جڑے رہنے کا پیغام دیاجو یقیناً قابل تحسین اقدام ہے۔ہمیں اپنی شناخت کو قائم کرنے کے لیے اس طرح کے تہواروں میں اپنا زیادہ سے زیادہ حصہ ڈالنا چائیے۔”پھیرن“ واقعی کشمیری شناخت بن چکی ہے اور دنیا بھر میں اس کی مانگ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں