چٹکا…تجارت،بہتر معیشت…ڈ اکٹر محمد صغیر خان

تجارت پیشہ بھی ہے اور پیسہ بھی تو ساتھ ہی عبادت بھی۔ یہ یقینا ریاضت بھی ہے کہ اس کے لئے ہر ایک کو ٹھک کرنا اور نچلوں بیٹھنا پڑتا ہے، تب کہیں جاکر یہ بیل منڈھے چڑھتی ہے ورنہ عمومی طور پر ’تولے کُتے ہڈجات‘ والی کیفیت ہوتی ہے۔ تجارت، جو بھی ہو، جیسی بھی ہو یہ زندگی کا لازمہ ہے کہ اشیائے ضروریہ کی بہم رسانی کاروبار کے باعث ہی ممکن ہے۔ تجارت اپنے وقت، حالات اور انداز کے مطابق منڈھ قدیم یعنی ازل سے جاری و ساری ہے اور بلاشبہ ابد تک جاری رہے گی۔ ابتداًء تجارت ’جنس کے بدلے جنس‘ کی صورت کی جاتی تھی۔ پھر سونے چاندی کے سکے اور کرنسی سے ہوتی کریڈٹ کارڈ تک گئی۔ اب اس کی ترقی یافتہ صورت ”ای۔کامرس“ کی شکل میں بپا ہو رہی ہے۔ یہ سب عمومی معاشرتی تبدیلیوں اور سائنسی و علمی ترقی کا اظہار ہے کہ دیگر تمام شعبہ ہائے زیست کی طرح تجارت کے اطوار بھی بدلتے جا رہے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ادل بدل جو بھی ہو تجارت فی نفسہٖ تجارت ہے کہ جسے بہرحال جاری رہنا ہے۔ تجارت کو اسلام میں خاص اہمیت حاصل ہے، یہی وجہ ہے کہ کہا بتایا گیا کہ ”دنیا کا نصف رزق تجارت میں ہے“ اور یہ کہ ”ایماندار اور پورا ناپ تول کرنے والا تاجر صحالین اور شہداء کے مقام کا حامل ہوتا ہے“۔ تجارت کی اہمیت اس امر سے بھی واضح کہ نبیﷺ دو جہاں نے بھی تجارت کی رواہ اپنائی اور اتبداًء حضرت خدیجہؓ کا مال بغرض فروخت لے کر سفر پر گئے۔
تجارت کی اہمیت یوں تو مسلمہ ہے لیکن جانے کیوں ہمارے پہاڑی علاقوں کے مکینوں کا مزاج کبھی بھی اس سے لگا نہیں کھاتا آیا ہے۔ گئے زمانوں میں جب یہاں ہندو سکھ بھی آباد تھے تب عمومی طور پر تجارت ہندو مہاجنوں اور بنیوں کے حوالے تھی اور ہمارے اجداد اچھے برے جو بھی تھے خریدار ہی تھے۔ 1947ء کے بعد ہمارے ہاں خواجہ برادری کو اچھا تاجر جانا مانا گیا، جیسے کراچی اور نواح میں میمن بہترین تاجر مانے جاتے ہیں۔ تجارت سے متعلق ہمارا عمومی روّیہ ہمیشہ سے مخالفانہ نہ سہی معاندانہ ضرور رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے علاقوں میں کبھی ”مری وال“ اچھا بیوپار کرتے رہے تو پھر ”پشتونوں“ نے یہ ذمہ داریاں سنبھالیں اور یوں سنبھالیں کہ اب باب ہمارے کرنے کو کچھ نہ بچا۔
وہ جو کہا جاتا ہے کہ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا۔ حالات کی تبدیلی کے ساتھ سوچ و افکار بھی بدلتے رہتے ہیں۔ یہی ’تجارت‘ کے ضمن میں بھی ہوا کہ گزشتہ کچھ برسوں سے مقامی طور پر تجارت کی اہمیت کے ادراک میں خاصہ فرق پڑا ہے۔ اس فکری بدلاؤ کے باعث بہت سے لوگ تجارت کی طرف راغب ہوئے۔ انفرادی عمل کے ساتھ ساتھ کہیں نا کہیں اجتماعی طور پر بھی تجارت کو رزق اور کامیابی کا وسیلہ بنانے کی تحریک موجود ہے اور فعال بھی۔ جامع سوچ کے ساتھ ایسی کئی کاوشیں ہوئیں جو بہرحال کسی نا کسی حد تک ثمربار رہی ہیں۔ ایسی ہی ایک سنجیدہ کوشش عمران عزیز گزشتہ کئی سالوں سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عمران عزیز ایک متوسط بلکہ نیم متوسط مگر فعال گھرانے سے متعلق فرد ہے۔ وہ اپنے مزاج کے مطابق ابتداء سے ہی ’تجارت‘ کے لئے اچھے جذبات رکھتا تھا، لہٰذا اس نے زمانہ طالبعلمی میں ہی تجارت کی راہ کا راہی بننے کا فیصلہ کیا۔ وہ اس راہ پر آگے بڑھتا رہا اور وقت کے ساتھ ساتھ وہ ”بزنس ٹائیکون“ تو شاید نہ بن پایا ہو مگر اب وہ ایک نامی گرامی بزنس مین ضرور کہلاتا ہے۔ FAZ اسٹیٹ اور دوسرے کاروبار تو اس کی ذاتی ملکیت اور ذمہ داری ہیں، سو ان کی کہانی اسی پر چھوڑتے ہوئے یہاں اس کی ان قابل لحاظ کاوشوں کا تذکرہ اور تحسین ضروری ہے جو وہ ”تجارت“ کے پھیلاؤ اور اسے پیشہ بنانے کے لئے کر رہا ہے۔ عمران عزیز جو میرے لئے فیاضی عاصی اور بابر زمان کا عزیز ہونے کے ناطے بہت ہی عزیز ہے اب محنت اور تجربے سے بہت کچھ سیکھ جان چکا ہے۔
وہ اپنے ”بزنس فورم“ کے تحت پری بجٹ سیمینارز بھی کرتا ہے اور ایسی لکھی پڑھی سرگرمیاں بھی تواتر سے سرانجام دے رہا ہے جو ہمارے ہاں ہنوز کافی ”غیرضروری“ سی لگتی ہیں کہ اسی سرگرمیاں پڑھے لکھے اور مرتب و منظم معاشرے میں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں جب ہم ابھی اس مقام سے محض دور ہی نہیں بلکہ بہوں لمبے اور اوخے پینڈے پر ہیں لیکن صد تحسین عمران عزیز کے لئے وہ آزادکشمیر کے عوام اور نوجوان نسل کو بالخصوص تجارت سے جوڑنے کے لئے ہمہ تنکوشاں ہے۔ لکھی پڑھی سرگرمیوں کے علاوہ عمران عزیز اپنے آلے دوالے کے نوجوانوں کو تجارت کی طرف راغب کرنے کے لئے باقاعدہ اور بے قاعدہ کونسلنگ بھی کرتا ہے جو یقینا ایک مثبت عمل ہے۔
اگر آج کے علاقائی اور ملکی معاشی حالات کا جائزہ لیا ئاے تو صاف نظر آتا ہے کہ ”سرکاری ملازمت“ کو بطور روزگار برتنے کے مواقعے بلاشبہ بہت تیزی سے گھٹ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ آبادی کے بے محابہ پھیلاؤ سے قابل روزگار افراد میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری ملازمتیں اب خال خال ہی ملتی ہیں۔ دوسری طرف پرائیویٹ شعبے میں ملازمتوں کے زیادہ مواقعوں کی ترسیل تجارت سے جڑی ہے کہ ہر نوع کا کاروبار بڑھے پھیلے گا تو لوگوں کی کھپت بھی زیادہ ہو گی۔ اسی طرح تجارت کے پھیلاؤ سے معیشت کو استحکام بھی ملے گا اور مواقعے بھی پیدا ہوں گے۔
اندریں حالات، عمران عزیز کی طرف سے اس باب میں مسلسل اور سنجیدہ کوششیں ایک قابل ستائش بلکہ ”جدوجہ“ ہے کہ ہم لوگ جانے کیوں تجارت کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیتے اور عمربھر ”سرکاری نوکری“ کے لئے جوتیاں چٹخاتے پھرتے رہتے ہیں۔ تجارت ایک نیک عمل ہے اور نبیﷺ کی سنت بھی…… یہ کامیاب لوگوں کی زندگیوں کا ایک اہم لازمہ بھی ہے۔ سو ہمیں کوشش کرنا ہو گی کہ چھوٹے چھوٹے کاروبار کو دلجمعی سے اپنائیں اور اسے نوجوان نسل میں یوں رواج دیں کہ ایک ”ٹرینڈ“ سا بن جائے۔ بالکل ویسا ہی ٹرینڈ جیسا عمران خان کے حامی اور پیروکار مخالفین کے متعلق بناتے اور چلاتے رہے ہیں۔ بلاشبہ وہ سب کچھ ایک قصہ ہی سہی ایک کہانی ہی سہی بن گیا ہے۔ لیکن حالات اور معاشرتی روّیوں کی تبدیلی میں بہرحال بے حد موثر رہا ہے۔ اب ہمیں ”تجارت“ کو سنجیدگی سے لینا ہو گا اور اسے ایک ”ٹرینڈ“ اور ”برینڈ“ بنانا ہو گا تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس جانب راغب ہوں۔ اس سے بے روزگاری ختم ہو گی یا کم از کم ”کم“ تو ضرور ہو گی۔ لوگ آسودہ ہوں گے، معیشت بہتر اور مضبوط ہو گی، یوں ہم بلامبالغہ کہہ سکتے ہیں کہ ”تجارت“ ملکی، معاشرتی اور معاشی حالات کی بہتری کے لئے اکسیر ہے جس کی تاثیر بہت ہے اور ہمیں اس کی ضرورت بھی بہت۔
ہمیں ”تجارت“ کو اپنانا ہو گا کہ یہ ہماری ضرورت ہے اور دکھ درد کی دوا بھی…… تجارت اور بیوپار کی راہ پر چلنے کے مقصد سے پہلے ہمیں عمران عزیز کی ستائش بہرحال کرنی ہو گی کہ وہ وقت کے ان سنجیدہ اور اوّلین کرداروں میں سے ایک ہے جو اپنے حالات اور معاشرتی کیفیات کی بہترگی کے لئے سنجیدہ ہو کر سوچتا ہے اور بساط بھر کجچھ کرتا بھی ہے……

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں