کرشن چندر نا کشمیر….کبیر خان

اب یہ نہ کہنا کہ تم تہجّد کے لئے اُٹھے تھے۔ اس واسطے کہ دارالافتاٗ کے مطابق صبح صادق کے بعد سے اشراق تک، عصر کے بعد غروب آفتاب تک اور نصف النہار کے دوران کوئی بھی نفل نماز نہیں ہو سکتی۔ یہی وجہ ہے کہاشراق کے وقت اشراقیین کے ہاں بھی تہجّد نہیں پڑھاتے۔ بھلیمانسوں کی طرح یوں کیوں نہیں کہتے کہ تم نے ”پانی شانی روک کے، دودھ پتّی ٹھوک کے“ ڈیڑھ لِٹرچائے کا مگ چڑھانا ہے۔جو مرضی ہے چڑھاوٗ، خصماں نوں کھاوٗ،لیکن اتنا بتاوٗ کہ چائے تم نے برقی کیتلی میں کاڑھنا ہوتی ہے،چولہا چوکا،توا دیگچہ،ڈوئی بیلناغرضیکہ ہرغیر متعلق بھانڈا برتن کس کارن پورے کچن میں پھیلا رکھتے ہو؟۔ کہیں میرا ماتھا پھر گیا تو۔۔۔۔۔؟“
ہم جانتے ہیں بیگم نہایت نفیس، رحمدل اور بھلی مانس واقع ہوئی ہیں لیکن اُنہیں ہمارے سگھڑاپے سے زیادہ جلنا نہیں چاہیئے۔ وہ پتلی اورکچّی چائے کودھیرے دھیرے”چُسکتی“ہیں، ہم کڑھی ہوئی کو کڑھی کی طرح غٹکتے ہیں۔ اور غٹکنے کا مزہ تب آتا ہے جب شریف بندہ بلا شرکتِ غیرے چولہے کی ”نِیٹھی“ میں بیٹھ،دونو پاوٗں ”بٹھّیوں“سے ٹیک کے دوُر دوُر تلک آگ بھی سیکے اور کھُل کرچاٗ کی چُسکیاں بھی لے۔ اور چُسکیاں بھی ایسی کہ ”چُسکارا“ جاوے گلی گلی۔ دراصل چاٗ، اوغرا، چہسّا باٹ،اور سِسکی پینے کی نہیں،گھونٹنے کی نعمتیں ہیں۔ اور نعمتوں سینعمتوں کی طرح ہی کھُل ڈُل کے استفادہ کرنا چاہیئے۔ لیکن بیگم کو ہر اُس قدرتی آواز سے چِڑ ہے جو کھانے پینے کے دوران منہ سے نکلتی ہے، اور کچھ بھی نہیں۔ لیکن آج اُنہیں چِڑانے کے لئے نہیں، ہم نے چڑھانے کے لئے بقلم خود چاٗ بنائی ہے۔اور تقریب اس کی یہ ہے کہ نجانے کل کس وقت ڈاکیا ڈاک دے گیا۔ جس میں مختلف النوع اشتہارات کے بیچ ایک کتاب بھی دم سادھے پڑی پائی گئی ہے۔ کتاب کرشن چندر کے کچھ افسانوں کے پہاڑی تراجم کا مجموعہ ہے۔ پہاڑی ہماری ماں بولی ہے اور اس کا سب سے اہم وصف یہ ہے کہ پی ایچ ڈی ہونے کے باوجود ہماری بیگم کی سمجھ میں نہیں آتی۔ ہمارے بیٹے کی شادی ہوئے بھی ایک سال ہو گیا،موصوفہ کو پہاڑی کا صرف ایک لفط آتا ہے۔۔۔۔۔ ”ہنچھّا“۔لیکن اس کے لئے بھی اُنہیں چائے کا کوپ چھوڑ کر بدستِ خود ذاتی ناک کَس کے پکڑنا پڑتی ہے۔ اس کے بغیر اُن کے منہ سے نون غنّہ نہیں نکلتا۔ چنانچہ بچّہ بڑا پہاڑی میں کچھ کہہ دے،کچھ بھی نہیں کہتیں۔ ہم کچھ بھی نہ کہیں، تِڑخ پڑتی ہیں۔ تِڑخنے کا موڈ نہ ہو تو دستی کارروائی کرتی ہیں۔ اُنہوں نے ہمارے ہاتھ سے کتاب جھپٹی، کھڑے کھڑے اسے سونگھا اور واپس ہماری گود میں پٹختے ہوئے بولیں۔۔۔۔۔”مصنّف کا نام اُردُو میں ہے، تصنیف کسی اور زبان میں۔۔۔۔؟“۔ جب ہم نے اطلاعاً عرض کیا کہ یہ کرشن چندر کے چند افسانوں کا پہاڑی ترجمہ ہے۔ اور ”ترجمان“ کا نام قمر رحیم خان ہے، تو فوراً پسیج گئیں۔ ”پہلے کیوں نہیں بتایا۔کرشن چندر میرا فیورٹ ہے۔ اورخان ہونے کے باوجود قمر شریف اور نفیس آدمی۔ تمہاری طرح چولہے کے سامنے ٹانگوں سے دیوار تھام کرنہیں بیٹھتا۔“
بیگم کی فرمائش پر ہم نے چھاتی ٹھاپی کہ لو،اگر قمر رحیم اُردو سے پہاڑی میں ترجمہ کر سکتا ہے تو ہم پہاڑی سے اُردو میں کیونکر نہیں کر سکتے۔۔۔۔ یہ تو ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ لیکن جب کھیلنے لگے تو پتہ پڑا کہ پہاڑی جملے کو اُردو میں منتقل کرنابے شک آسان ہوگا لیکن کرشن چندر کی اُردو میں منتقل کرنا بائیں ہی نہیں،دائیں ہاتھ سے بھی ممکن نہیں۔ہم نے دونوں ہاتھوں سے کوشش کی، کرشن چندرمُڑ کے
ہاتھ نہ آیا۔ کرشن چندر کے پیچھے بھاگ بھاگ کر ہم مکمل طور پر ”ہفّ“ گئے۔ کتاب میں شامل کرشن چندر کے پہلے افسانے کے پہلے پیرے کا پہاڑی سے مُڑ اُردو میں ترجمہ کرنا کارِ دارد ٹھہرا۔ مثلاً ”آتا ہے یاد مجھ کو“میں کرشن چندر کا ایک پیرا گراف یوں ہے:
”یہ سوچ کر میں داخ کے جھُنڈ سے نکلا اور گھاٹی کی ڈھلوان کی طرف بڑھا،گراموُ فون کے بھونپووٗں کو اپنے پاوٗں سے کُچلتا گیا۔ جوتا اتار کر میں نے اپنے بستے کے قریب رکھ دیا۔ کیونکہ اب نرم نرم گھاس پر ننگے پاوٗں چلنے میں لطف حاصل ہو رہاتھا۔ میں نیزور زور سے سیٹی بجانا شروع کی،کامنی موسی مجھے اُس وقت سیٹی بجاتے دیکھ پاتیں،تو کیا کہتیں۔۔۔ میں نے اِدھر اُدھر دیکھا، لیکن کامنی موسی کہیں نظر نہ آئیں۔۔۔۔ اوہ! مجھے کیا پرواہ ہے۔۔۔۔میں نے اطمینان سے پھر سیٹی بجانا شروع کی۔ یکا یک قریب سے کسی نے مجھے زور سے ڈانٹا اور میں خوف سے اُچھل کر بھاگا، پھر مُڑ کردیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ کامنی موسی نہ تھیں، ایک شریر ماہی خور تھاجو اب ہوا میں چیختاہوا شوخی سے پر کھولتا ہوا پر بند کرکے ہوا میں ڈبکیاں لیتا ہوا اُڑا چلا جا رہا تھا۔ کم بخت نے مجھے یوں ہی ڈرا دیا تھا۔۔۔“
سیدھے سادا سے اس پیراگراف کو قمر رحیم نے جس طرح ہماری ماں بولی میں منتقل کیا سو کیا، لیکن جب اسے پہاڑی سے ہم اردو میں منتقل کرنے لگے تو لگ پتہ گیا۔۔۔۔ کہ شریر ماہی خور ”شوخی سے پرکھولتا ہوا، پر بند کر کے ہوا میں ڈبکیاں لیتا ہوا(کیسے) اُڑا چلا جا رہا تھا“؟۔ کرشن چندر تو کرشن چندر ہے،ماہی خور کے ساتھ، چاہتا تو کامنی موسی کو بھی ہوا میں اڑا کر رکھ دیتا۔ لیکن ہمہ شما تو رف کاپی کے ورق سے ہوائی جہاز بنا کر اسکول کے پیچھے ٹیکری سے نہیں اُڑا سکتے۔
ہمیں مائی کا کوئی لال ”جرا اور جری“ کے اس اقتباس کو جرا اور جری کی زبان میں کماحقہ منتقل کر کے دکھا دے، مان جائیں گے:
”شادی کی رات جری کے گھر سنّاٹا تھا۔ اُس کا باپ چُپ چاپ اپنے بستر میں دبکا پڑا تھا۔ اُس کے رشتہ دار گھاٹیوں اور ڈھلوانوں سے ہوتے ہوئے اپنے اپنے گاوٗں کو بھاگ گئے تھے۔ جری اکیلی اپنے بستر پر پڑی رو رہی تھی۔ چاروں طرف اک گہری خاموشی تھی۔ کبھی کبھی گولیوں کے چلنے کی دھائیں دھائیں سنائی دیتی۔ پھر ہر طرف سنّاٹا چھا جاتا۔ اسی سناٹے میں جری دبے پاوں اپنے گھر سے نکلی اور ندی کی طرف چلی۔۔۔۔ چھُپتی ہوئی، چٹّانوں کی اوٹ میں سے گذرتی ہوئی، دبکی ہوئی وہ نالے پر پہنچ گئی۔ وہ سوہنی نہ تھی۔ اُس کے ہاتھ میں تیرنے کا مٹکا بھی نہ تھا۔ پھر بھی وہ دوسرے کنارے جانے کے لئے بے تاب ہو کر پانی میں گھُس گئی۔۔۔۔۔“
اُردو افسانہ کے اس اقتباس کو پہاڑی بولی میں ڈھالنا ایسا ہی ہے جیسے درانتی سے آلوبخارا چھیلنا۔ قواعد و ضوابط کُجا،باضابطہ املا کے بغیر پہاڑی بولی میں لکھنے والے لائق صد ستائش ہیں۔۔۔۔کہ وہ اس بولی میں نا صرف ادب تخلیق کرتے ہیں بلکہ دیگر زبانوں سے پہاڑی میں منتقل بھی کرتے ہیں۔ کرشن چندر کو پہاڑی میں منتقل کرنے پر چند لوگ اس لئے آمادہ(بلکہ آمادہ فساد) ہو جاتے ہیں کہ کرشن چندر کے کئی بہترین افسانے اسی پہاڑی علاقہ کے پس منظر میں ہیں۔ لیکن جب پہاڑی کے چولے میں ڈھالتے ہیں تو لگ پتہ جاتا ہے۔۔۔۔ کہ چولا ادھر سے بے انت کھُلا، اُدھرسے بے حد تنگ۔ اُوپر سے دولے شاہ کا چوہا نکل آیا ہے،نیچے سے کلاوٗن کا گاوٗن۔
قمر رحیم اُنہی سرپھروں میں سے ایک ہے جو پہاڑی بولی کو زبان بنانے پر آماد فساد ہیں۔ ہم ان تمام ادیبوں کودل کی گہرائیوں سے سلام پیش کرتے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں