کشمیر میں جی.20، کانفرنس کے مضمرات اور اس اثرات.. جسٹس (ر) منظور گیلانی

جب سے ہندوستان نے ریاست جموں کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرکے اپنے براہ راست کنٹرول میں لیا ، دنیا کی مضبوط ترین معیشت کی سب سے بڑی تنظیم G20 کے ممالک کے مندوبین کی اکثریت نے سیاحت سے متعلق ورکنگ گروپ نے سرینگر میں سخت ترین حفاظتی حصار میں حصہ لیا- اس تنظیم کے تین اہم ترین اور نمایاں حیثیت کے حامل ممالک چین، ترکی اور سعودی عرب نے کشمیر کے بین الاقوامی سطح پر متنازع اور حل طلب مسئلہ ہونے کی وجہ سے اس میں حصہ نہیں لیا- گوکہ عمان اور مصر باضابطہ طور اس تنظیم کا ممبر نہیں بلکہ مبصر کی حیثیت حاصل ہے ، انئوں نے بھی حصہ نہیں لیا – لیکن اجلاس پروگرام کے مطابق ہوا ، جس میں تنظیم میں شامل سب ممبران شامل ہوئے جو اقوام متحدہ کے ممبران بھی ہیں اور سوائے چین کے ، سلامتی کونسل میں شامل باقی ایٹمی طاقت والے ممبران بھی ہیں ، شامل تھے – اس لحاظ سے ہندوستان ریاست کی حیثیت تبدیل کرنے کے باوجود یہ اجلاس کرانے میں کامیاب ہوا جس میں یورپی یو نئین اور باقی ملکوں کے 48 ڈیلیگیٹس بھی شامل تھے – اس سے پہلے G20 کے ٹورازم گروپ کی میٹنگس رن آف کچھ میں بھی منعقد کی گئیں لیکن سرینگر میں اس کا انعقاد ہندوستان کے لئے ایک نمایاں حیثیت رکھتا ہے –
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب جو چالیس سے زیادہ اسلامی ممالک میں ممتاز ترین ملک ہے بشمول عمان اور مصر ، ترکی جو یوریشیاء میں اسلامی دنیا کا فعال ترین اور چین جو دنیا کی دوسری بڑی معیشت ، ایٹمی ممالک اور سلامتی کونسل کا ممبر ہے ، کی عدم شرکت سے ہندوستان کے لئے کشمیر کو ہڑپ کرنے یا اس کو ہندوستان کا اندرونی معاملہ اور غیر متنازعہ ہو نے کا معقول جواز نہیں بنا سکا ، جس کی خاطر ہندوستان نے تین دن سرینگر میں اتنی بڑی برات کی مہمان نوازی کی – یہ کشمیریوں کی مذاہمت کی بہت بڑی دلیل ہے –
کشمیریوں کی مذاہمت ، ان ممالک کی عوامی رائے کے حوالے سے دلچسپی کا سبب بھی بن رہی ہے – نو لاکھ فوج کے جبر و استبداد کے باوجود کشمیری مذاہمت کے صف اول کے لیڈر پیران سالی اور بے شمار بیماریوں کے باوجود خود جیل کی صعوبتیں بھگت رہے ہیں اور ان کے اہل خانہ تمام تر مشکلات کا مقابلہ کرنے کے علاوہ ہمت نہیں ہارے ، پہاڑ کی طرح ڈ ٹے ہیں – ایسے لوگوں کا ساتھ دینا ، وہ بھی جائز ترین مقاصد کے لئے ، ان ممالک کی عزت و توقیر کا باعث ہے- گوکہ دنیا کی اکثر حکومتیں ہندوستان پر دباؤ نہیں بڑھا سکیں اور اپنے ملکی عوامی دباؤ کی وجہ سے خاموش ہیں ، جو ہندوستان کی حوصلہ افزائ کا باعث بن رہا ہے –
پاکستان ہمیشہ کشمیریوں کا حامی رہا ہے ، لیکن اس کی کشمیر پر پالیسی ہمیشہ ہندوستانی اقدامات کے رد عمل میں رہی ہے ، واشگاف یا جارحانہ نہیں رہی جبکہ ہندوستان کی کشمیر پر پالیسی اور اقدامات ہمیشہ جارحانہ رہے – – پاکستان کے اندرونی سیاسی عدم استحکام اور مالی بحران نے ہندوستان کے لئے 5/19 کی بڑی واردات اور اب بین الاقوامی سطح کے اس ایونٹ کا انعقاد کرانا زیادہ آسان کر دیا –
پاکستان گذشتہ چالیس دہائیوں سے اس خطہ کا اہم ترین ملک رہا ہے – اس کی حکمت عملی نے بلواسط افغانستان میں روس اور امریکہ کو شکست دی – ایٹمی طاقت ہے اور اس وقت دنیا کی بڑی ایٹمی اور اقتصادی قوت کا چین کا اتحادی ہے – ارادی نے اپنے وزیر خارجہ یا کسی خصوصی ایلچی یا آزاد کشمیر کی حکومت کو بر وقت G20 کے ممالک ، اس میں شامل بلخصوص سلامتی کونسل کے ممبران جن کے ووٹ کے تحت کشمیر پر سلامتی کونسل کی پندرہ سے زیادہ قرار دادیں پاس ہوئ تھیں اور دیگر ممبر ممالک جو اقوام متحدہ کے ممبر بھی ہیں ، ایسی کانفرنس کے محرکات اور اس کے پس پردہ ہندوستان کے عزائم کو بے نقاب کرنے کے لئے جارہانہ رول ادا کیا ہوتا ، مجھے یقین ہے کہ ہندوستان نے ایسا کوئ ایونٹ کشمیر میں رکھنا ہی نہیں تھا یا اس تنظیم کے ممبر ممالک کی اکثریت نے اس میں شمولیت سے معذرت کی ہوتی –
دنیا کو معلوم ہے کہ کشمیر میں چار سال سے الیکشن نہیں ہوئے اور مرکزی حکومت کے زیر انتظام پوری ریاست ، بلخصوص وادی کشمیر فوج کے زیر کنٹرول ہے جس وجہ سے G20 کے جو ممالک اس کانفرنس میں شامل ہوئے انہوں نے دہلی میں مقیم ماتحت سطح کے لوگوں کو کانفرنس میں شرکت کے لئے بھیجا تھا – تاہم ان سر گرمیوں سے منسلک بہت سے مندوب اس کانفرنس میں شامل ہوئے – ہندوستانی میڈیا ان کی تعداد اڑتالیس بتاتا ہے – گوکہ سعودی عرب سرکاری طور اس میں شامل نہہیں ہوا لیکن میں نے سری نگر سے کچھ سعودی کاروباری لوگوں کےانٹر وئیو سنے-
میرے خیال میں سرینگر میں اس کانفرنس کا انعقاد اس لحاظ سے بہت اچھا رہا کہ جو مندوب اور ان کے ساتھ جو عالمی میڈیا سرینگر آیا تھا انہوں نے یقینآ فوج کی بکتر بند گاڑیوں ، سخت ترین حفاظتی انتظام ، چپہ چپہ پر فوج کے ناکوں ، جیل ڈل کے اندر اور اس کے آس پاس بندوق برداروں ان کی مدد کے لئے ہندوستان کی ایلیٹ سیکیورٹی گارڈز ، کاؤنٹر ڈرون یونٹ ، میرین کمانڈوز کی تعیناتی سفارت کاروں اور غیر ملکی صحافیوں کی آنکھیں کھولنے اور زمینی حقائق کا ادراک کرنے کے لئے کافی تھا- انہوں نے اندازہ لگا لیا ہوگا کہ جیل ڈل کے صرف مشرقی حصے ، مغل گارڈنز تک ان کو محدود رکھنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ سب اچھا نہیں ہے – بیرونی دنیا سے وادی کشمیر میں داخل ہونے والوں کو پہلگام، گلمرگ ، جیل ولر ، جیل مانسبل وغیرہ زاتی یا سرکاری طور نہ جانے دینا یا لے جانا ، کشمیر میں نمائیندہ حکومت کے دوران ناقابل تصور اور آداب میز بانی کے خلاف رہا ہے – ڈیلیگیٹس کی تفریح طبقہ کے لئے مغل باغات ، چشمہ شاہی ، گاف کورس اور جھیل ڈل کے کنارے بلے وارڈ روڈ کو اتنا سجایا گیا تھا کہ تین دن میں کسی اور جگہ کا سوچ بھی نہ سکیں –
پاکستان کی وزارت خارجہ کی یہ زمہ داری بنتی ہے کہ سرینگر جانے والے عالمی میڈیا کو سفارتی سطح پر پیغام دے کہ کشمیر میں انہوں نے جو دیکھا اس پر اپنی غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کریں –
ہندوستان کا سرینگر میں اس ایونٹ کے انعقاد کا مقصد صرف یہ تھا کشمیر میں سب ٹھیک ہے ، لوگوں نے ہندوستانی اقدامات کو قبول کر لیا ہے اور وہ خوش ہیں ، ہر طرف امن اور شانتی ہے اور امن بلکل بحال ہوگیا ہے – لیکن جگہ جگہ کے ناکوں ، ملٹری اور پولیس چیک پوسٹس ، حفاظتی کانٹے دار تاروں کے حصار وادی کے کھلی جیل ہونے کا وافر ثبوت تھے – وزٹ کرنے والے نمائندوں اور ان سے وابستہ دیگر تنظیموں نے بچشم خود دیکھا کہ 4/5 کلو میٹر ایریا میں اتنی فوج اور دیگر حفاظتی دستے کے حصار میں ہندوستان کےامن اور سلامتی کے راگ میں کتنی سچائی ہے –
اس کا پول تو اقوام متحدہ کے اقلیتوں کے نمائیندے گر ننڈ نی ویرنز (Fernand de Varennes) نے پہلے ہی کھول دیا تھا کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں ، سیاسی ظلم و ستم ، غیر قانونی گرفتاریوں اور نظر بندیوں کے پس منظر میں مصنوعی سکوت سے یہ تاثر دینا کہ سب نارمل ہے , حقیقت کو چھپانا اور گمراہ کرنا ہے – اس نے کہا کہ ہندوستان مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے انسانی اور جمہوری حقوق ظالمانہ اور سفاکانہ طور غصب کر کے G20 گروپ کی میٹنگ کررہا ہے – عالمی میڈیا کی رپورٹس کے پس منظر میں، اس کانفرنس کے زریعہ کشمیر کا معاملہ عالمی سطح پر خصوصی طور سامنے آیا ہے گوکہ ہندوستان کے تجارتی شراکت دار وں نے حکومتی سطح پر اس کو یا تو نظر انداز کیا یا اپنے بیانیہ کے طور پیش کیا – لیکن اس میں شک نہیں کہ متعلقہ دنیا میں ہندوستان کے توسط سے ہی صحیی ، لیکن موضوع بحث ضرور بنا –
ریاست کی سابقہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ایک بیان میں کہا کہ سیاحت پر G20 کی میٹنگ منعقد کرنے کے لئے پورے خطے کو گو نٹا نامہ بے بنادیا ہے – اس طراح کا بیان سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ نے دے کے کر حقیقت کی قلعی کھول دی تھی – اس ایونٹ کی وجہ سے کشمیر کے اندر غیر جانبدار مندوبوبین اور غیر ملکی میڈیا نے سب کچھ بچشم خود دیکھ کر ہندوستان کے جھواٹ کی قلعی کھول دی ہے –
کشمیر میں سیاحت اور تجارت سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو امن کی صورت میں عالمی سطح کے اس طرح کے ایونٹس میں کاروبار اور لوگوں کے روز گار میں روشن مواقع نظر آئے – ڈیلیگیٹس کے لئے خصوصی طور پولو مارکٹ میں کشمیر کی دستکاریوں اور پیداوار کے سٹال لگائے گئے تھے –
ہندوستانی اخباروں یا ہندوستانی کشمیر کے سوشل میڈیا نے اس کانفرنس کے دوران وادئی کشمیر میں کسی جگہ مذاہمتی جلوس کی کوئ رپورٹ بھی دیکھنے کو نہیں ملی -گذشتہ تیس سال میں پہلی بار سرینگر میں ، فوج کی چھان چھتری میں ہی صیح ، ایک opening محسوس ہوئ – ٹور ازم اور کشمیری دستکاریوں سے منسلک تاجروں کو پہلی بار سرینگر کے اندر کاروبار کی بین الاقوامی سطح پر پرومو شن کا موقعہ ملا – ڈل کے آس پاس والی سڑکوں کو رپورٹس کے مطابق دنیا کی سڑکوں کے معیار پر استوار کیا گیا تھا -سرینگر شہر ، بلخصوص اس ایونٹ سے ملحقہ سارے علاقے کو کروڑوں روپے خرچ کر کے بقہ نور بنا دیا گیا تھا ، رات کے وقت بجلی کے قمقموں نے جھیل ڈل کو دیدہ زیب بناکے لوگوں کی توجہ اس طرف راغب کی گئ کہ ہندوستان کے اندر کشمیر کو ایسا بنایا جا سکتا ہے جو بقول ہندوستان کے کشمیری سیاست دان خاندانوں نے ستر سال میں اس جو کو ٹنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا- چالیس سال کی عمر کے لوگوں کے لئے جنہوں اس ساری عمر میں ہندوستانی مسلح فوجوں اور مقامی اور غیر مقامی اسلحہ برداروں اور قتل غارت ہی کو دیکھا تھا یہ ایک نئی دنیا کا مظاہرہ تھا ، جو انہوں نے یو ٹیوب پر فلموں میں تو دیکھا تھا لیکن کشمیر کی زمین پر پہلی بار دیکھا –
یہ حکمت عملی ہندوتوا فلاسفی کے تحت لوگوں کو رام کرنے کے تین اصولوں میں سے ایک تھا جن کو سنسکرت میں “تر شکار” یعنی پھٹکار کے عبرت کا نشانہ بنانا ، “پر شکار” یعنی رشوت دے کے اپنی مرضی کے تابع بنانا اور “ سمسکار” یعنی طریق فکر اور عمل کو بدلنا کہتے ہیں، اور اس حکمت عملی کو ہم اپنی زبان میں مروت یا تالیف القلوب کہہ سکتے ہیں کیونکہ پہلے اصول کے تحت ظلم جبر کے پہاڑ توڑنے میں کوئ کسر باقی نہیں چھوڑی ا ب ان پر مرہم لگانے ، خوشحالی کی ترغیب دینے کا عمل شروع کیا گیا ہے – یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر ایک مکمل توجہ کے حامل کالم کی ضرورت ہے-
مرکز اور کشمیر کے اندر اس کی مقرر کردہ حکومت نے کشمیر کو مکمل طور کنٹرول کرنے اور اس میں روز گار اور ترقی کے زریعہ خوشحالی لانے کو اس جماعت اور لیڈر کی حکمت عملی کو مرکزی نکتہ بنایا تھا -شیر کشمیر کنونشن سنٹر کے آس پاس کی بلڈنگس کو ہندوتوا کے زعفرانی رنگ میں رنگ کر G20 کے “ لوگو” اور ان کے اوپر “ بی جے پی کے کنول کے پھول “ کا نشان رکھ کر ہندوتوا کا پیغام دینے کی نمایاں کوشش کی گئی تھی – سرینگر کے شیر کشمیر انٹر نیشنل کنونشن سنٹر جو صاف و شفاف ڈل جھیل کے کنارے پر واقع ہے میں آنے والے سب ڈیلیگیٹس کو بی جے پی کے زعفرانی رنگ کی پگڑیاں پہنائ گئیں – ایک دلکش جشن کا سماں باندھا گیا تھا – اس سے کشمیر میں ہندوتوا کے احیاء نو کی بین الاقوامی طور بنیاد ڈالی گئ – اس کانفرنس کے زریعہ یہ اس حکومت کا دوسرا بڑا مقصد تھا جس کا اس نے بھر پور مظاہرہ کیا –
اس سے قبل کہ ہندوستان کوئی اور ایسی بین الاقوامی ، بظاہر پر امن واردات کرے اور پاکستان اس کے خلاف صرف رد عمل دے ، پاکستان کو اس سلسلے میں جارحانہ اقدام کے طور آزاد کشمیر حکو مت کے زریعہ دنیا بھر میں آباد ریاستی باشندوں کی ایک ڈائیری تیار کر لینی چاھئے جس کی بنیاد پر ہندوستان کے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کے خلاف اور کشمیر کے اس سے آزادی کے حق میں ایک ریفرنڈم کا اھتمام کرنے کا اھتمام کرنا چاھئے جس طرح سکھوں نے دنیا کے مختلف کونوں میں کیا –

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں