یوم استحصال کشمیر … جسٹس (ر) منظور حسین گیلانی

5 اگست 2019 کا دن اس مہم جوئی کی انتہا تھی جس کی ابتداء27 اکتوبر 1947 کو ہندوستان نے مہاراجہ ریاست جموں و کشمیر کرن سنگھ کے ساتھ مل کر اسی فیصد مسلم آبادی کے باوجود ہندوستان کی جھولی میں ڈال کر ریاست کے لوگوں بالخصوص مسلمانوں کو ان کی مرضی کے بغیر نسل در نسل غلام ، ہندوستان اور پاکستان کے ساتھ دشمنی کی ابتدا ، اور ساری دنیا کے امن کے لئے خطرح پیدا کر دیا – دوسرے مرحلے میں 1954 میں ہندوستانی آئین کی دفعہ 370 کی گارنٹی کے باوجود ہندوستان کے آئین کی متعدد دفعات کا ریاست پر اطلاق کر کے ریاست کو ہندوستانی ریاست کے طور کسنا شروع کر دیا – جس کے بعد 5 اگست 2019 تک ہندوستانی آئین کی تین سو دفعات میں سے 260 کو کشمیر تک بڑھا دیا – اسی پر بس نہیں ہوئی بلکہ اگست 2019 کو جموں کشمیر نام کی ریاست کو تحلیل کر کے اس کو دو حصوں میں بانٹ کر دونوں حصوں کو الگ الگ طور ہندوستانی یو نین کے اندر یو نین ٹیریٹی کے طور ضم کرکے ہندوستان نے اس سازش کی تکمیل کردی جس کی ابتداء 27 اکتوبر 1947 کو ریاست پر ہندوستانی فوج کے زریعہ اپنے قبضہ میں لایا تھا – صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس تسلسل میں 2021 میں اسمبلیوں کی حلقہ بندیاں اس طریقے سے کی گئیں کہ مسلم اکثریت کی ریاست میں ان کی نمائندگی بھی ناممکن بنا دی گئ – 2018 سے اسوقت تک ریاست میں کوئی نمائندہ حکومت اور اسمبلی نہیں بلکہ ہندوستان کی مرکزی بیوروکریسی کے زیر انتظام ہے –
حیرانگی کی بات ہے کہ مہاراجہ ریاست کے جس الحاق نامہ کی بنیاد پر ہندوستان نے ریاست میں اپنی فو جیں اتار یں اسکو گورنر جنرل ہند نے بھی قبول نہیں کیا بلکہ ریاست کے لوگوں کی رائے شماری کی مرضی کے تابع کردیا تھا اور یو این کی سلامتی کونسل نے بھی ریاست کے مستقبل کا فیصلہ رائے شماری کے تابع کردیا جو آج تک نہیں ہوئی – اس کے بر عکس ہندوستان نے تمام تر ملکی ، بین الاقوامی قوانین اور ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بین المملکتی قوانین کے خلاف ریاست کو یکطرفہ طور ہندوستان میں نہ صرف ضم کردیا بلکہ ریاست کے جو حصسے پاکستان کے زیر انتظام ہیں ان پر بھی اپنے باطل دعوے کا اعادہ کیا –
عالمی بے حسی کی انتہا یہ ہے اس انسانی حقوق، جمہوریت اور بین الاقوامی قوانین ، سلامتی کونسل کی قراردادوں کی توہین آمیز کاروائی کے باوجود عالمی ضمیر نہیں جاگا اور اس کو ہندوستان کا اندرونی معاملہ قرار دیے کر نظر انداز کردیا – آزادی پسند کشمیری لیڈروں کو پابند سلاسل اور من گھڑے مقدمے چلا کر ان کو سزائیں اور جائیدادیں ضبط کرنا شروع کردیں – کشمیر کے اندر لاکھوں غیر کشمیریوں کو ڈو میسائل قرار دے کر کشمیر کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی مہم شروع کی – ہندوستانی اور بین الاقومی سرمایہ کاروں بالخصوص گلف کی ریاستوں کے زریعہ کشمیر میں سرمایہ کاری کرواکر ان کے زریعہ کشمیریوں پر دباؤ بڑھا کر پاکستان کی پوزیشن کو کمزور کرنا اور اپنا اثر رسوخ بڑھاناشروع کر دیا – کشمیر یوں کی ہندوستان کے خلاف نفرت اور ان کے آزادی کے عظم کو توڑنے کے ساتھ ساتھ ہندوستان نے ہندوستانی مسلمانوں کو بھی تختہ مشق بنانا شروع کردیا اور اس ظلم کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے مکانات اور جائیدادوں کو بھی تلف کرنے کے احکامات جاری کردئے – حد یہ ہے کہ اسلامی شعائر اور اکابر کی توہین جن میں نبی کریم (ص) سر فہرست ہیں کی توہین سے بھی باز نہیں آئے – اس پر عرب دنیا کے مسلمانوں کی غیرت جاگی جن کے رد عمل کی وجہ سے ان کی حکومتوں نے ہندوستان سے شدید احتجاج کیا جس وجہ سے ہندوستان اپنی اقتصادی مجبوریوں کے تحت پسپائی اختیار کر گیا –
سوائے پاکستان، ایران ، انڈو نیشیا اور ترکی نے کسی کو اس ہندوستانی جارحیت کی مذ مت کرنے کی تو فیق نہیں ہوئی- پاکستان کشمیر کا جائز طور دعوے دار ہے اور گذ شتہ چوہتر سال سے اس مسئلے پر اپنی سالمیت کو بھی داؤ پر لگا رکھا -اقتصادی خستہ حالی کا بھی شکار ہوگیا جس وجہ سے بین الاقوامی مالی اداروں، بینکو اور حکومتوں کا مقروض اور کشمیر کے انتفادہ میں دہشت گردی کے زمرے میں کھڑا کردیا گیا جس وجہ سے اس اہم ترین مرحلے پر بین الاقوامی طور سفارتی محاز پر تنہا اور کشمیر پرکوئی حمایت حاصل نہیں کر سکا – بد قسمتی سے جارہا نہ عسکری سفارت کاری کے طور پاکستان کشمیر کی سرحدوں پر اپنی فوجوں کو بھی الرٹ رہنے کا حکم بھی نہیں دے سکا جس سے دنیا ہل جاتی – پانچ اگست کے عمل کی وجہ سے ہندوستان کی کشمیر پر حیثیت ایک غیر قانونی قابض کی ہوگئی ہے اس کے رد عمل میں پاکستان اپنے آئین میں ترمیم کر کے مہاراجہ کشمیر کے معاہدہ قائمہ کی بنیاد پر پوری ریاست کو اپنا حصہ اور آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کواپنی سرزمین جتلا سکتا تھا جس کے برعکس صرف پاکستانی جھنڈے میں ریاست کو اپنا متنازعہ حصہ اور اسلام آباد کی سڑکوں کو سرینگر روڈ سے موسوم کیا –
کشمیر کے مسئلے نے حل ہونا ہے ، یہ کب ہوگا اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن ریاست کے لوگوں کے عظم کو شکست نہیں دی جا سکتی – اس کی آزاد ی کی نوعیت کیسی ہوگی یہ پاکستان کے رویئے پر منحصر ہے جس کے لئے پاکستان کو اپنے سیاسی، سفارتی اور اخلاقی منترے کو عملی شکل دینے کی ضرورت ہے – پاکستانی قوم کو ملکی سیاست میں استحکام ، برد باری اور برداشت کا مادہ پیدا کرکے اپنی اقتصادی بنیادوں کو مضبوط بنانا پڑے گا جو کسی صورت میں ہندوستان سے کم نہیں ہونا چاھئیں – اپنی انڈسڑی اور زرعی انڈسٹری کو مضبوط کرنے ، بر امدات بڑھانے اور درآمدات کو گھٹانے کی ضرورت ہے جس سے اس کی بین الاقوامی دنیا میں ساکھ پیدا ہونے کے ساتھ سفارت کاری مظبوط ہوگی جس کا فائدہ کشمیر کو خود بخود پہنچے گا – اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے اندر ریاست کے آزاد حصوں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کا پاکستان کے اندر سیاسی ، اقتصادی، تعلیمی اور تعمیر و ترقی کے طور قابل رشک مقام بنانا پڑے گا تاکہ مقبوضہ حصے کے لوگوں کے لئے ترغیب کا باعث بنیں –

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں