یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے (عمیر پرویز خان)

ریاست جموں و کشمیر کے شما ل میں جمہوریہ چین، شمال مغرب میں افغانستان، جنوب مغرب میں اسلامیہ جمہوریہ پاکستان اور جنوب مشرق میں انڈیا کی سرحدیں منسلک ہیں۔ا ن تمام ممالک کے درمیان گھرا ہوا یہ ساڑھے چار ہزار سال پرانی تاریخ رکھنے والا یہ خوبصورت ترین علاقہ جسے ایشیا ء کا سو یٹزر لینڈ بھی کہا جاتا ہے بدقسمتی سے مختلف ادوار میں غلامی، ظلم، جبر، ناانصافی اور استحصال کا شکار رہا۔
تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ 84471 مربع میل پر محیط اس ریاست پر مختلف ادوار میں نومختلف الخیال حکمران براجمان رہے۔ جہاں ہندو حکمرانوں نے 4000 سال تک کشمیر پر حکمرانی کی۔ وہیں سکھ، مسلمان (افغان، مغل) حکمرانوں نے بھی اس خطہ ارض پر اپنی حکمرانی کی مہر سلب کی ہے۔ اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہیکہ کشمیر کا سب سے مشہور بادشاہ راجہ لالی تادتیا (715 تا 752 ء) رہا۔ کہا جاتا ہیکہ جب اس نے بادشاہت کا تخت سنبھالا تو تب ریاست میں نظم و ضبط نام کی کوئی چیز موجود نہ تھی لیکن اس نے ایک مضبوط حکومت کی بنیاد ڈالی اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا۔ ریاست کے اندرونی معاملات نمٹانے کے بعد اس نے مختلف علاقوں کو فتح کرنے کی ٹھان لی اور سینٹرل ایشاء سے ہوتا ہوا تبت کے راستے اپنی ریاست میں بارہ سال کے طویل عرصہ کے بعد لوٹا۔
1310 ء اور 1553 ء کے درمیان کشمیر میں مقامی مسلمان حکمران برسرِ اقتدار رہے۔ 1515 اور 1717 ء کے درمیان تخت حکمرانی مغلوں کے حصے میں آیا۔ جبکہ 1718 ء سے 1819 ء تک افغان حکمران کشمیر پر حکمرانی کرتے رہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ کشمیر پر برائے راست مسلمانوں کو دورِ حکومت پانچ سو سال سے زائد عرصہ پر محیط رہا۔ 1819 ء میں سکھ حکمرانوں نے افغانیوں سے تخت حکمرانی چھینا اور 1819 ء سے لیکر 1846 ء تک اس پر قابض رہے۔ راجہ رنجیت سنگھ اور دوسرے سکھ حکمرانوں نے ریاست کشمیر کے انتظامی امور میں برائے راست دخل اندازی نہیں کی بلکہ اس خطہ میں وہ ہمیشہ اپنے گورنر تعینات کرتے رہے۔ سکھوں کے دورِ حکومت نے ظلم، جبر اور ناانصافی اپنی حدوں کو چھو رہی تھی۔ اس کی گواہی ویلیم مور کرافٹ کی وہ تحریر دے گی جو اس نے 1824 ء میں کشمیر کے حالات کا جائزہ لینے کے بعد لکھی۔:
”سکھ کشمیریوں کو گائے سے تھوڑا بہتر تصور کرتے تھے۔ اگر کوئی سکھ کسی مقامی باشندے کا قتل کر دیتا تو اس پر حکومت وقت کی طرف سے سولہ یا بیس روپے جرمانہ عائد ہوتا۔ جس میں سے چار روپے اگر مرنے والا ہندو ہوتا تو اس کے خاندان کو دیئے جاتے اور اگر مرنے والا مسلمان ہوتا تو اس کے خاندان کے حصہ میں دوروپے آتے۔“
اسی کے تسلسل میں ڈوگرہ راج کا آغاز ہوتا ہے اور اس دور کے آغاز میں اگر بدنامِ زمانہ معاہدہ امرتسر کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ یقینا تاریخ کے طالب ِ علموں کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ یہ معاہدہ1846 مہاراجا گلاب سنگھ اور برطانوی گورنمنٹ کے درمیان طے پایا۔جس کے مطابق اس حسین خطے وادی کشمیر کو صرف75 لاکھ نانک شاہی کے عوض گلاب سنگھ کو بیچ دیا گیا۔ یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ ریاست کا علاقہ پونچھ اس معاہدے کا حصہ نہیں تھا جس کی وجہ سے مہاراجا کو پونچھ کے علاقے پر جبراً قابض ہونا پڑا گو کہ اسے پونچھ کے لوگوں سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
معاہدہ امرتسر کا طے پانا تھا کہ ڈوگرہ کے مظالم اپنے عروج پر جا پہنچے۔ ریاست کے لوگوں باالخصوص مسلمانوں کے لئے جینا محال کر دیا گیا۔ عام آدمی پر مختلف قسم کے ٹیکس لگائے گئے جن میں سے بعض عجیب و غریب نوعیت کے تھے۔ مثلا ً گھوڑے کی خریداری پر ٹیکس لگا یا گیا جوگھوڑے کی اصل قیمت خرید سے نصف تھا۔ کرپشن اپنی حدوں کو چھو رہی تھی۔ تمام سرکاری دفاتر نے کرپشن کی لوٹ سیل مچارکھی تھی لیکن جو سب سے زیادہ تضحیک آمیز قانون ڈوگرہ کے دور میں رائج تھا جس کے تحت حکومتی عہدیداران ریاست میں سے کسی بھی شخص کو جبراً مزدوری کر انے کا اختیار رکھتے تھے اور انہیں اس کے عوض نہ تو کوئی راشن فراہم کیا جاتا تھا اور نہ ہی کوئی رقم دی جاتی تھی۔ اس نظام کو ”بیگار“ کہا جاتا تھا۔
19 ویں صدی کے آخر اور بیسوی صدی کے آغاز میں ریاست کے لوگوں میں ڈوگرہ کے خلاف نفرت پل رہی تھی۔ ان تمام حالات میں بیسویں صدی کے تقریباً نصف میں ایک نوجوان اٹھا اور اس نے ڈوگرہ کے خلاف الم بغاوت بلند کر کے اپنی قوم اور ریاست کو اس سفاک حکمران کے چنگل سے آزاد کرانے کا بیڑا اپنے سر لیا۔ اس نوجوان کی جدوجہد کی داستان بڑی طویل بھی ہے اور پر عزم بھی۔ یہ قصہ پونچھ کے ایک گاؤں ہورنہ میرہ سے شروع ہوتا ہے جہاں اپریل 1915 ء میں کشمیر کی گل پوش وادیوں اور رنگ و سرور میں نہاتے ہوئے نظاروں کی سرزمین میں ایک بچہ پیدا ہوتاہے۔ 1926 ء میں پہلی دفع سکول کا منہ دیکھتا ہے اور غیر معمولی سرعت رفتاری سے تعلیم و تربیت حاصل کرتا ہوا صر ف چھ سال کے اندر میٹرک کا امتحان سٹیٹ جوبلی ہائی سکول پونچھ سے اعزازی نمبرات لیکر پاس کر تا ہے۔ اسلامیہ کالج لاہور سے بی۔ اے کرنے کے بعد تعلیم کی تشنگی مٹانے قانون کی اعلیٰ ڈگری حاصل کرنے کے لئے برطانیہ سدھار جاتا ہے جہاں لنکن ان سکول سے صرف بائیس سال کی عمر مین بیرسٹر بن کر ریاست جموں و کشمیر کا پہلا نوعمر ترین بیرسٹر ہونے کا اعزاز حاصل کرتا ہے۔ اٹھائیس سال کی عمر میں یہی نوجوان ریاست جموں و کشمیر کے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل کے عہدے پر تعینات کر دیا جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کو اس سے کوئی اور کام ہی لینا تھا۔ وہ نوجوان اپنے عہدے سے استعفیٰ دیتا ہے اور 1946 ء میں عملی سیاست میں کود پڑتا ہے۔ پہلی مرتبہ عام انتخابات میں حصہ لیتا ہے اور مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے ممبر قانون ساز اسمبلی منتخب ہوتا ہے اور حلف اٹھاتے ہی اپنی پہلی بجٹ تقریر میں کشمیری قوم کے حقوق کی پامالی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتا ہے۔
سفاک اور ظالم مہاراجہ کے خلاف الم بغاوت بلند کرنے والا باہمت، باصلاحیت، کردار کا غازی، گفتار کا ماہر، تعلیم یافتہ، گوریلا لیڈر، سیماب سفت نوجوان، سردار محمد ابراہیم خان کے علاوہ بھلا اور کون ہو سکتا ہے۔
سردار محمدا براہیم خان تحریک آزادی کشمیر کی قیادت کی کمان سنبھالتے ہی بکھری ہوئی تحریک کو منظم کر تے ہیں اور مہاراجہ کے خلاف عسکری جدوجہدکا آغاز کر کے انتہا ئی قلیل وقت 32 ہزار مربع میل کا علاقہ آزاد کرا کر 24 اکتوبر 1947 کو چو نجال ہل پلندری کے مقام پر انقلابی اور باغی حکومت کا قیام عمل میں لاتے ہیں اور 32 سال کی عمر میں اس حکومت کا بانی صدر ہونے کا اعزاز حاصل کرتے ہیں۔ اس سے قبل 19 جولائی 1947 ء کو سری نگر آبی گز ر میں جب مہاراجا کی اجازت کے بغیر چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی تھی تب سردار محمدا براہیم خان اپنے گھر میں قرار داد الحاق پاکستان منظور کروا کر آنیوالی نسلوں کے لئے راہ متعین کر تے ہیں۔ یہ انہی کی حیرت انگیز شخصیت کا کمال تھا کہ آپ نے ریاست میں شیخ عبداللہ جیسے لیڈر اور دوسرے سازشی عناصر ہونے کے باوجود الحاق پاکستان کی قرار داد منظور کرائی جو بعد میں سکیورٹی کونسل میں پاکستان اور کشمیریوں کی طر ف سے واحد ثبوت کے طور پر پیش کی گئی۔جس نے کشمیر کے مقدمے کو مضبوط بنیاد فراہم کی۔
تاریخ شاہد ہیکہ سردار محمدا براہیم خان نے اپنی صدائے احتجا ج ریاست تک ہی محدود نہ رکھی بلکہ بین الاقوامی سطح پر 1948 ء میں سکیورٹی کونسل میں مسئلہ کشمیر کو بھرپور انداز میں پیش کرکے دنیا کو ورطہء حیرت میں ڈال دیا۔ اس گوریلا لیڈر کی قائدانہ صلاحیتوں کا اعتراف نہ صرف ریاست کے لوگوں نے کیا بلکہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے صفحہ اول پر اس عظیم لیڈر کی بے باکی اور نڈر قیادت کا ثبوت اسے زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے دیا۔ جس کی ایک مثال برطانوی اخبار ”The Herald“ کا جولائی کا وہ شمارہ ہے جس میں باہمت،باصلاحیت اور ہزار خواہ خوبیوں سے مزین اس نوجوان کا تعارف اقوام عالم کا نو عمر صدر کی حیثیت سے کرایا گیا ہے۔ ڈیفنس کونسل آف پاکستان نے 1948 ء میں سردار محمد ابراہیم خان کو انکی خدمات اور سنہرے کارناموں کی بدولت غازی ملت کے خطاب سے نوازا۔
سردار محمد ابراہیم خان نے ہمیشہ اپنی توانائیاں ریاست کشمیر کی بہتری کے لئے صرف کیں اور ریاست کے پانچ بار صدر ہونے کا اعزاز بھی آپ ہی کے حصہ میں آیا۔ اس طرح آپ نے ریاست کا 32 سالہ نوعمر ترین اور 85 سالہ معمر ترین صدر ہونے کاانوکھاریکارڈ بھی قائم کیا۔ آپ کے دیگر کارناموں میں کراچی معاہدہ جو آپ نے 1949 میں دوراندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے حکومت پاکستان سے کیا جس کی رو سے گلگت بلتستان انتظامی بنیادوں پر پاکستان کو سپرد کیا گیا ہے اور جب تک پوری ریاست کا فیصلہ بشمول گلگت بلتستان اقوم متحدہ کی قراردادوں کے مطابق نہیں ہو جاتا تب تک یہ معاہدہ کارآمد ہے۔اس کے علاوہ آزاد کشمیر میں جمہوریت کا بیج بونے کا سہرا بھی آپ ہی کے حصہ میں آتا ہے۔ آپ نے جہاں پاکستان میں جمہوری حکمرانوں جن میں لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بٹھو، نواز شریف کے دورہ حکومت میں آزاد کشمیر میں حکمرانی کی وہیں غیر جمہوری طریقوں سے آئے ہوئے آمروں جن میں ایوب خان، ضیاء الحق اور جنرل مشرف جیسے حکمران شامل ہیں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر برابری کی بنیاد پر چلتے ہوئے ریاستی تشخص کو ہمیشہ پامال ہونے سے بچایا۔ یہ آپ ہی کی با رعب، مفکرانہ اور مدبرانہ شخصیت کا خاصہ ہیکہ ان میں سے کوئی بھی حکمران آپ کے کردار، اصول پسندی، جانبداری اور محب الوطنی پر نقطہ اعتراض بلند نہ کر سکا۔ ان ہمہ گیر خصوصیات کے مالک میدان سیاست کے عظیم شاہ سوار غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان 31 جولائی 2003 ء کو اپنی آنکھوں میں کشمیرکی مکمل آزادی کا خواب لیکر اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کی موت صرف ایک شخص کی موت نہیں بلکہ ایک عہد کی موت ہے۔
یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں