آئین سب سے بڑا قانون ہے۔۔۔ بیرسٹر حمید باشانی

آئین کسی بھی ملک کا سب سے بڑا قانون ہوتا ہے۔ ملک کا کوئی بھی قانون جو آئین سے متصادم ہو اسے غیر آئینی اور ناجائز سمجھا جاتا ہے۔ جن ممالک میں آئین کی حکمرانی ہے وہاں اگر کوئی ایسی درخواست ملک کی سپریم کورٹ کے پاس آئے، جس میں کسی قانون کو آئین سے متصادم قرار دیا گیا ہوتو عدالت کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اس درخواست کا جائزہ لے، جسے عام طور پر جوڈیشل ریویو کہا جاتا ہے۔ گزشتہ کالموں میں کئی ایسی مقدمات کا حوالہ دیا تھا، جن میں عدالتوں نے جوڈیشل ریویو کے دوران انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے، جس کی وجہ سے ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی کا تصور کمزور ہوا اور وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوئیں۔ ملک میں مطلق العنان حکومتیں قائم ہوئیں، اور جمہوریت کو کمزور کیا گیا۔ جوڈیشل ریویو کا بنیادی مقصد ہی آئین کی بالادستی اور انسانی حقوق کے تصورات کی حفاظت ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں عدالتوں کے سامنے ایسے بے شمار مواقع آئے جب جوڈیشل ریویو کے مسلمہ اصولوں کی پیروی میں آئین کی حکمرانی قائم کی جا سکتی تھی، مگر ان مواقعوں کو ضائع کر دیا گیا۔ کامیاب اورترقی یافتہ دنیا میں عدالتوں نے ایسے مواقعوں کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے آئین کی حکمرانی اور انسانی حقوق کے تحفظ کی راویات قائم کیں ماربری بنام میڈیسن ریاستہائے متحدہ کے آئینی قانون میں ایک ایسا ہی مشہور تاریخی مقدمہ ہے۔ اس کیس کا فیصلہ امریکی سپریم کورٹ نے 1803 میں کیا تھا۔ اس مقدمے نے امریکہ اور آگے چل کر دیگر کئی ترقی یافتہ ممالک میں “جوڈیشل ریویو” یعنی عدالتی جائزہ کا اصول قائم کیا۔ یہ اصول ملک کی عدالتوں کو ان قوانین کو غلط قرار دینے کا اختیار دیتا ہے، جو عدالتی جائزے میں غیر آئینی قرار دیے جاتے ہیں۔ امریکہ کی تاریخ میں یہ پہلا مقدمہ تھا ، جس نے امریکی حکومت کی تین شاخوں کے درمیان طاقت کے توازن کو نمایاں طور پر متاثر کیا۔ اس کیس کے پس منظر میں 1800 کے انتخابات شامل ہیں، جس میں تھامس جیفرسن، ایک ڈیموکریٹک-ریپبلکن، نے اس وقت کے صدر جان ایڈمز کو شکست دی تھی، جو ایک فیڈرلسٹ تھے۔ ایڈمز کی صدارت کے آخری دنوں میں اس نے ولیم ماربری سمیت متعدد ججوں اور جسٹس آف پیس مقرر کیے۔ تاہم، رسمی دفتری کاروائی میں تاخیر کی وجہ سے ماربری کو جیفرسن کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے ان تقریریوں کی سرکاری دستاویزات یعنی تقرر نامے یا کمیشن موصول نہیں ہوئیں۔ جب جیفرسن نے عہدہ سنبھالا تو اس نے اپنے سیکرٹری آف سٹیٹ جیمز میڈیسن کو حکم دیا کہ وہ ماربری سمیت باقی ماندہ ججوں کوتقرری کی دستاویزات فراہم نہ کریں۔ اس طرح ماربری اور کئی دوسرے ججوں کے تقرری کے کاغزات روک دیے گئے ۔ ماربری اور دوسرے تقرر شدہ افراد نے سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ وہ، میڈیسن کو تقرری کی دستاویزات دینے کا حکم جاری کرے۔ یہ معاملہ چیف جسٹس جان مارشل کی سربراہی میں سپریم کورٹ پہنچا۔ مارشل کی رائے میں، عدالت کو دو مرکزی سوالات کا سامنا کرنا پڑا: کیا ماربری اپنے عہدے کا حقدار تھا اور، اگر ایسا ہے، تو کیا عدالت کے پاس حکم جاری کرنے کا اختیار تھا۔ عدالت نے یہ طے کیا کہ ماربری واقعتاً اپنے کمیشن کا حقدار تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ عدالت کا خیال تھا کہ 1789 کے جوڈیشری ایکٹ کی شق، جس نے عدالت کو مینڈیمس کی رٹ یعنی حکم جاری کرنے کا اختیار دیا تھا، غیر آئینی تھا۔ یہ اس مقدمے کا کلیدی پہلو ہے جس نے عدالتی نظرثانی کا اصول قائم کیا۔ چیف جسٹس مارشل کے فیصلے میں کہا گیا کہ آئین کی تشریح اور اس کے مفہوم کا تعین کرنا عدالتوں کا کام ہے۔ انہوں نے قرار دیا کہ آئین ملک کا سب سے بڑا قانون ہے، اور کوئی بھی قانون جو اس سے متصادم ہو اسے غیر آئینی اور ناجائز سمجھا جانا چاہیے۔ اس سے عدلیہ کو مقننہ کے منظور کردہ قوانین کی آئینی حیثیت کا جائزہ لینے اور اگر ضروری ہو تو انہیں کالعدم قرار دینے کا اختیار ملا۔ ماربری بمقابلہ میڈیسن نے جوڈیشل ریویو کا اصول قائم کیا، سپریم کورٹ کے آئین سے مطابقت نہ رکھنے والے قوانین کا جائزہ لینے اور ان کو ختم کرنے کے اختیار کو مستحکم کیا۔ اس فیصلے نے عدلیہ کی حکومت کی ایک الگ اور مساوی شاخ کے طور پر طاقت میں بہت اضافہ کیا، جو عوام کے حقوق کے تحفظ اور حکومتی اقدامات پر آئینی حدود کو یقینی بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کے بعد سے یہ مقدمہ ریاستہائے متحدہ میں جو دیشل ریویوکے لیے ایک مثال کے طور پر کام کرتا رہا ہے ،اور اس نے آئین کی تشریح میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔

اس مقدمے نے جوڈیشل ریویو کے بنیادی اصول طے کیے۔ عدالتی جائزے کا بنیادی اصول یہ قرار دیا گیا کہ آئین ملک کا سپریم قانون ہے۔ یہ وہ بنیادی قانون ہے، جو دوسرے تمام قوانین اور حکومتی اقدامات کو کنٹرول کرتا ہے۔ عدالتی جائزہ اختیارات کی علیحدگی کے اصول پر مبنی ہے، جو حکومتی اختیارات کو مقننہ، ایگزیکٹو اور عدالتی شاخوں میں تقسیم کرتا ہے۔ عدلیہ ان کے بنائے ہوئے قوانین کی آئینی حیثیت کا جائزہ لے کر ان پر چیک رکھنے کا کام کرتی ہے۔ اس مقدمہ سےآئین کی بالادستی کا یہ اصول قائم ہوا کہ آئین حتمی اتھارٹی ہے ،اور کسی بھی متضاد قانون یا عمل پر غالب ہے۔ اگر کوئی قانون یا حکومتی عمل آئین کے منافی پایا جاتا ہے تو اسے ناجائز اور ناقابل نفاذ تصور کیا جاتا ہے۔ اس مقدمےنے یہ اصول بھی طے کیا کہ عدالتوں کو آئین کی تشریح کا اختیار اور ذمہ داری حاصل ہے۔ وہ اس کے معنی اور دائرہ کار کا تعین کرنے کے لیے آئین کے اندر موجود زبان، ارادے اور اصولوں کا تجزیہ کرسکتی ہیں۔ اس مقدمےنے یہ اصول بھی طے کیا کہ آئین ایک زندہ دستاویز ہے۔ “زندہ آئین” کا اصول تسلیم کرتا ہے کہ آئین کی تشریح بدلتی ہوئی معاشرتی اقدار اور حالات کی روشنی میں ہونی چاہیے۔ عدالتیں آئینی حقوق کی مسلسل مطابقت اور تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ارتقائی تشریحات استعمال کرتی ہیں۔عام طور پارلیمنٹ قانون سازی کرتی ہے یا حکومت بعذریہ آرڈیننس کوئی قانون بناتی ہے تو اس کی آئینی حیثیت کی درستگی پر قیاس کیا جاتا ہے کہ یہ قانون درست ہی ہوگا۔ عدالتیں عام طور پر یہ خیال کرتی ہیں کہ مقننہ کے پاس کردہ قوانین آئینی ہیں۔ لیکن اس اصول میں طے کیا گیا کہ اگر آئینی دفعات کی صریح خلاف ورزی ہو تو اس مفروضے کو رد کیا جا سکتا ہے کہ مقننہ کا تشکیل کردہ قانون درست خیال کیا جائے۔عدالتی جائزے میں مداوا اور ازالہ کرنے کا اختیار شامل ہے۔ اگر کوئی قانون یا عمل غیر آئینی پایا جاتا ہے، تو عدالتیں اسے ختم کر سکتی ہیں ، یا آئین کے مطابق لانے کے لیے اس کے میں ترمیم کی شفارس کر سکتی ہیں۔

عدالتی جائزے کا ااصول غیر جانبدارانہ فیصلے دینے کے لیے عدلیہ کی آزادی پر انحصار کرتا ہے۔ اور یہ بات واضح کرتا کہ قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لیے ججوں کو سیاسی یا بیرونی دباؤ سے آزاد ہونا چاہیے۔ اس سے یہ اصول بھی طے ہوا کہ اگرچہ عدالتوں کے پاس عدالتی جائزے کا اختیار ہے، لیکن ایسا کرتے وقت ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور ایسے معاملات میں مداخلت سے گریز کریں جو حکومت کی دوسری شاخوں پر چھوڑے جا سکتے ہیں۔ اس طرح جوڈیشل ایکٹیوازم اور جوڈیشل ریویو کی زمہ داری کو الگ الگ دیکھنا ضروری ہے۔ ترقی یافتہ اور کامیاب جمہوریتوں میں جوڈیشل ایکٹیوزم کا تصور تقریبا ختم ہوتا جا رہا ہے، اور اس عمل کو عام طور پر عدلیہ کے مناسب کردار کے طور پر نہیں دیکھا جاتا ۔ لیکن جہاں کا جوڈیشل ریویو کا تعلق ہے تو یہ جمہوری ممالک میں ایک مسلسمہ روایت بن چکی ہے، جس کے زریعے آئین کی بالا دستی اور انسانی حقوق کی حفاظت کو یقینی بنیایا جاتا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں