کاش! کاشان مسعود سے کیا وعدہ وفا نہ ہو سکا۔۔۔۔پروفیسر ڈاکٹر ممتاز صادق

کاشان مسعود سے میرا تعلق تین دہائیوں سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے، لیکن زمینی فاصلوں اور کاروبار حیات کی مصروفیات کے سبب کاشان سے ملاقات خال خال ہی رہی۔ اُس سے میری آخری ملاقات 14 جنوری 2023 کی ایک سوگوار سہ پہر کو ہوئی تھی جب ہم پوسٹ گریجویٹ کالج ہجیرہ کے گراؤنڈ میں اپنے پیارے دوست مرزا نیاز احمد بیگ کی نماز جنازہ کی ادائیگی سے پہلے گراؤنڈ کے ایک کونے میں غم زدہ کھڑے تھے۔ اسی دوران میں ایک آدمی مجھے تیز قدموں کے ساتھ اپنی طرف بڑھتے ہوئے نظر آیا، قریب آکر اُس شخص نے مجھ سے گلے ملنے کے لیے اپنی باہیں کھول لیں، اُس شخص کو پہنچاننے میں مجھ سے غلطی کاکوئی امکان نہ تھا، لیکن گلے ملنے والاسوچ رہا تھا کہ شاید میں اُسے نہیں پہچان رہا، شاید اسی لیے گلے ملتے ہوئے اُس نے دھیمی آواز میں اپنا تعارف کروایا ”سر! آپ کا شاگرد کاشان مسعود“ مصافحہ کرتے ہوئے میں نے اُ سے کہا ”کاشان! میں آپ کو کیسے بھول سکتا ہوں“؟کاشان بولا ”سر! مدت بعد ملاقات جو ہو رہی ہے میں نے سوچا آپ بھول چکے ہوں گے“۔اس میں کوئی شک نہیں کہ میں کاشان سے تقریباً ایک دہائی بعد ملا تھا۔
اس عرصہ میں وہ ایک نوخیز کلی سے پھول بن گیا تھا، وہ بے نامی سے شہرت کی بلندیوں کا سفر کر چکا تھا،وہ ایک عام طالب علم سے بہت بڑا آدمی بن چکا تھا، وہ عملی زندگی کی کئی پُر پیچ پگڈنڈیا طے کر چکا تھا۔ لیکن آفریں ہے اُس کی تربیت کو کہ آج بھی بچھا بچھا،مودب اور عجز و انکسار کا پیکر تھا۔اُس کے معانقے اور مصافحے میں مجھے عرت و احترام اور والہانہ پن کر حدت پوری طرح محسوس ہوئی تھی۔اُ س کا تعارف کروانا اس امر کی دلیل تھی کہ اس کی شہرت نے اُس کا دماغ خراب نہ کیا تھا۔
یہ1990-91۱ کا سال تھا جب میں ڈگری کالج ہجیرہ میں لیکچرر تھا، یہ وہ عرصہ تھا جب ہجیرہ کالج طلبہ کی سیاست کا گڑھ تھا۔ اس کالج میں مختلف طلبہ تنظیموں کے کارکن متحرک اور سرگرم تھے لیکن بائیں بازوکی قوم پرست طلبہ تنظیم این ایس ایف کو تمام طلبہ تنظیموں پر واضح غلبہ حاصل تھا۔اس تنظیم کے سرخیل ایک مقامی طالب علم عمران مسعود تھے۔ عمران مسعود کے والد، سردار مسعود خان ایڈووکیٹ شہر کے ایک نامی گرامی وکیل اور سیاست دان تھے، ان کا شمار پونچھ کے شرفاء میں ہوتا تھا۔سردار مسعود خان فاتح میرپور خان آف منگ کرنل خان محمد خان کے قرابت دار بھی تھے۔ اس تعلق کی وجہ سے بھی یہ خاندان علاقے بھر میں اپنا امتیاز رکھتا تھا۔عمران مسعود جماعتی اور خاندانی تربیت کے باوصف ایک دبنگ، بے باک اور صاف گو طالب علم تھے۔ وہ احتجاجی اور مزاحتمی سیاست پر یقین کھتے تھے، لیکن دوسروں کے عزت واحترام کو ملحوظ خاطر رکھتے تھے۔ ہمیشہ دلیل کی تیغ سے کام لیتے تھے لیکن کبھی کبھی مومن کی طرح بے تیغ لڑنے سے بھی نہ کتراتے تھے۔ سچ کہوں تو ان کی وجہ سے کالج کا تعلیمی ماحول بالعموم متاثر رہتا تھا۔ کالج انتظامیہ عمران مسعود کے کالج سے جلد فارغ التحصیل ہونے کے لیے بے قرار رہتی تھی۔ ان کا تعلیمی سیشن مکمل ہوا تو کالج انتظامیہ نے سکھ کا سانس لیا۔
مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کہ عمران مسعود کے کالج سے جانے کے کتنا عرصہ بعد اُن کے برادرِ خورد کاشان مسعود ہمارے کالج کے طالب علم بنے تھے لیکن یہ ضرور یاد ہے اُن کے کالج آنے پر کالج انتظامیہ میں سراسمیگی سی پھیل گئی تھی۔ پرنسپل ادارہ، کاشان مسعود کے داخلے کو لے کر سخت پریشان تھے۔ لوگ انھیں بتا رہے تھے کہ کاشان بائیں بازو کا سرگرم کارکن ہے اور یہ کہ وہ اپنے بڑے بھائی عمران مسعود سے زیادہ ہنگامہ آرا ہے۔ کالج انتظامیہ اور اساتذہ کو خطرہ تھا کہ کالج کا پرامن ماحول ایک بار پھر متاثر ہو گا۔
حسب توقع کاشان مسعود کالج آتے ہی سیاست میں سرگرم ہو گیا۔ وہ طلبہ حقوق، آزادیِ کشمیر اور طبقاتی نظام کے خلاف سرگرم اور صف آرا تھا۔ اُس کی خوبی یہ تھی کہ نرم لہجے میں دلیل سے بات کرتا تھا۔ بڑ ے بھائی کی طرح صاف گو اور دبنگ تھا۔ ہڑتال، احتجاج اور جلوس جلسے کی سیاست کے باوجود اساتذہ کے سامنے، کاشان کا رویہ نرم اور لہجہ دھیما پڑ جاتا تھا۔ اُس نے مادر علمی اور استاد کی حرمت کے تقاضوں کو ایک سعادت مند طالب علم کی طرح نبھایا”ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات“ کے مصداق، کاشان اپنی عمر سے زیادہ سنجیدہ، زیادہ بڑا، زیادہ سمجھدار اور ذکی الحس تھا۔اُس کی سیاست کا انداز اور سیاست سے کمٹمنٹ دیکھ کر اندازہ کرنا مشکل نہ تھا کہ وہ آگے چل کر اس میدان میں خوب نام کمائے گا۔
کاشان کی سب سے بڑی خوبی، اُس کی انسان دوستی اور مہمان نوازی تھی۔ اپنی انہی خوبیوں کے باعث اُس نے بہت جلد سیاست میں بڑا نام کمایا۔ ہجیرہ کے حلقے کی سیاست میں کئی بڑے بڑے اور نامی گرامی سیاست دان میدان میں تھے۔ ان بڑے اور کہن سالہ سیاست دانوں کو ٹکر دینا اور کم عرصے میں ہر دل عزیزی کے سب سے اونچے مرتبے پر فائز ہونا کاشان کی خدمت خلق اور انسان دوستی کے باعث ہی ممکن ہو سکا۔ وہ ہجیرہ کے غریب عوام کی آواز اور ہجیرہ کی پہنچان بن گیا تھا۔
ہجیرہ سے میری ٹرانسفر کے بعد کاشان سے ملاقات بس سررائے ہی ہوتی تھی۔ کسی شادی، غمی میں آمنا سامنا ہو جائے تو کاشان بے انتہا عزت واحترام سے ملتا اور خیر وعافیت پوچھتا تھاجبکہ میں ہر ملاقات میں اُن سے عمران مسعود کی خیر وعافیت ضرور معلوم کرتا تھا۔ہجیرہ کالج کے گراؤنڈ میں آخری ملاقات میں بھی میں نے اُس سے عمران کا پوچھا تو کہنے لگا ”بھائی آئے ہوئے اور جنازہ گاہ میں ہی موجود ہیں“ مختصر سی اس ملاقات کے بعد کاشان ہم سے الوداعی مصافحہ کر کے مجمے میں گم ہو گیا۔ جانے سے پہلے اُس نے مجھ سے میرا موبائل فون نمبر لیا تھا۔ ابھی 5۔7 منٹ ہی گزرے تھے کہ وہ ایک شخص کا ہاتھ تھامے دوبارہ میرے پاس آیا اور استفسار کیا”سر انھیں جانتے ہیں“؟ کاشان نے ہاتھ تھامے آدمی کے متعلق پوچھا، میں نے نفی میں جواب دیا۔مسکراتے ہوئے بولا ”سر عمران مسعود بھائی ہیں“ عمران مسعود اتنے بدلے ہوئے اور اتنے کمزور ہوئے تھے کہ انھیں پہچاننے کے لیے بلا کی قوت ایمانی چاہیے تھی۔ البتہ جب و ہ مسکرائے تو 30 سالہ پرانے عمران کی ایک جھلک نظر آگئی۔ میں نے عمران کو گلے لگایا اور دیر تک حال احوال پوچھا، مجھے اندازہ ہوا کہ دونوں بھائی صلاح کر کے میرے حافظے کا امتحان لینا چاہتے تھے۔
نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد ہم واپس راولاکوٹ کی طرف جا رہے تھے کیلوٹ کے مقام پر پہنچے تو مجھے اپنے موبائل فون پر ایک انجان نمبر سے کال موصول ہوئی، نمبر اٹینڈ کیا تو سگنل کمزور ہونے کے سبب آواز نہیں آرہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد ایک بار پھر موبائل فون بجا اب کی بار فون اٹھایا تو بس اتنی سی آواز سن سکا ”سر! کاشان مسعود بات کررہا ہوں“ اور پھر لائن ڈراپ ہو گئی۔4۔5 منٹ کے بعد ایک بار پھر کال موصول ہوئی۔ بتہیر ہیلو ہیلو کا راگ الاپا لیکن بات نہ ہو سکی۔ میں نے سوچا شائد کاشان کوئی ضروری بات کرنا چا رہا ہے میں نے گاڑی سائیڈ پر روک کر کال بیک کی تو اس کی اب آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ پہلے تو اُس نے بار بار کال کرنے کے لیے معذرت کی اور پھر کہنے لگا ”سر! میں اس لیے کال کر رہاتھا ”کہ آپ ہجیرہ میں ہی ہوں تو ہمارے ساتھ چائے پی جائیں ہماری عزت افزائی ہو گی“۔ میں نے اُسے بتایا کہ ”میں کیلوٹ سے دو تین کلو میٹر آگے نکل چکا ہوں، اس لئے معذرت قبول کریں“ جواباً بولا ”سر! پھر وعدہ کریں کہ آئندہ جب بھی ہجیرہ آئیں گے مجھے میزبانی کا موقع دیں گے۔ میں نے وعدہ کیا کہ میں جب بھی ہجیرہ آیا آپ سے ضرور ملوں گا۔ میری بدقسمتی کہ ہجیرہ نہ جاسکا۔ نتیجۃً کاشان سے کیا وعدہ وفا نہ کر سکا۔کاشان نے جب سے دنیا چھوڑی ہے مجھے یہ پچھتاوا ہورہا ہے کہ میں نے کاشان کی دعوت کیوں قبول نہیں کی تھی؟ میں اس کی خواہش کا احترام کر لیتا تو کیا قیامت آجاتی؟ محض تین چار کلو میٹر کا سفر ہی تو کرنا تھا۔اب تو بس ملاقات کی ایک ہی صورت رہ گئی ہے کہ اللہ کرے جنت الفردوس کی کسی گل پوش وادی میں کھلی باہوں اور مسکراتے چہرے کے ساتھ کوئی خوبرو نوجوان آگے بڑھے اور مجھ سے گلے ملتے ہوئے سرگوشی میں کہے ”سر! آپ کا شاگرد کاشان مسعود“
اللہ غریب کا درد بانٹنے والے، لوگوں کے لیے اپنا آرام و آسائش قربان کرنے والے، لوگوں کے لیے تھانے، کچہری اور ہسپتال میں مارے مارے پھرنے والے اور اپنے گھر کے دروازے مسافروں کے لیے ہر وقت کھلے رکھنے والے میرے اِس وفا شعار عزیز اور شاگرد کو جنت الفردوس کی راحتیں نصیب کرے اور عمران مسعود سمیت تمام سوگواران کو صبر جمیل عطا کرے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں