کاشان مسعود بھی چل بسا ۔۔۔ ۔۔۔ عابد صدیق

گذشتہ سال دسمبر کی ایک سرد شام تھی ہم چند دوست ہجیرہ کے نواح میں ایک تعزیت کے سلسلے میں گے۔ دوستوں کا اصرار تھا کہ تعزیت کے بعد جلدی واپس آئیں گے۔میں نے تجویز دی کہ اگر اتفاق کریں تو کاشان مسعود سے مل کر جائیں۔یک زبان سب نے اتفاق کیا لیکن اس خدشے کا اظہار کیا کہ وہ جلدی واپس آنے نہیں دیں گے۔بالکل ایسا ہی ہوا کہ میں نے کاشان کو فون کیا تو وہ کسی جنازے پر تھے لیکن مجھے یہ نہیں بتایا کہ وہ کہاں ہیں بلکہ سیدھی ایک ہی بات پوچھی کہ “آپ کتنے لوگ ہیں اور آنے میں کتنا وقت لگے گا”۔میں کہتا ہی رہا کہ ہم لوگ کھانا نہیں کھائیں گے لیکن انہوں نے بات سننے کی بجائے فون بند کر دیا۔08 بجے رات جب ان کے گھر پہنچے تو بھائی اور دیگر خاندان کے ممبران کے ہمراہ ہمارے منتظر تھے ۔ کچھ ہی دیر میں طرح طرح کی ڈشیںز سے ہماری تواضع کی گئی اور میزبان کی خوشی دیدنی تھی۔
یہ کوئی پہلا یا آخری موقع نہیں بلکہ اس گھر کی روایات کا تسلسل تھا۔ 80 سے 90کی دہائی اور بعد میں بھی یہ گھر ہجیرہ میں میزبانی کا واحد گڑھ رہا۔کاشان مسعود نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز طلباء کی اس وقت کی سب سے مقبول تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن(این ایس ایف )سے کیا۔بعد کی زندگی میں نشیب و فراز آئے ، سیاسی وابستگیاں بدلیں، آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے الیکشن بھی لڑے لیکن ان کی پہچان وہی این ایس ایف،وہی ملنساری،وہی مہمان نوازی اور چہرے کی مخصوص مسکراہٹ ہی رہی۔
اس گھر کی روایت یہ رہی کہ جب طالب علمی کا زمانہ تھا تو ہجیرہ شہر میں واقع اس گھر کو ہر کوئی اپنا گھر سمجھتا رہا۔راولاکوٹ سے کوٹلی تک جو کوئی طالب علم جواس گھر سے واقف تھا وہ اگر رات لیٹ ہو جائے تو سیدھا اسی گھر کا رخ کرتا تھا ۔اس گھر کا ایک کمرہ ایسا ہوتا تھا کہ اسے لاک نہیں کیا جاتا تھا ۔ درجن بھر مسافروں کے لیٹنے کی گنجائش تھی اور گھر والوں کو مطلع کیے بخیر یہاں رات قیام کیا جا سکتا تھا۔کاشان مسعود کی والدہ محترمہ کمرے کے باہر جوتوں کی تعداد سے اندازہ لگائیں کہ آج رات کتنے مہمان آئے اور پھر ان کے لیے ناشتہ تیار کر کمرے کے باہر رکھے میز پر رکھ دیتیں۔مہمان ناشتہ کرتے اور گھر والوں کو بتائے بغیر ہی چلے جاتے یہ سلسلہ سالہا سال چلتا رہتا۔کاشان مسعود کو یہ میزبانی وراثت میں ہی ملی اور پھر آج تک یہ تسلسل برقرار رکھا۔
کاشان مسعود کی جو خوبیاں تھیں وہ کسی اور میں نہیں آؤں سکتیں ۔سیاسی معاملات ہوں، تجارتی معاملات ہوں،سیاسی ،سماجی یا ٹریڈ یونین کا کوئی ایشو ہو ۔عدالت ،کچہری ،تھانے کا کوئی مسئلہ ہو کاشان مسعود پیش پیش رہتا تھا۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ کو باہر کا بندہ ہجیرہ سے گزرے اور وہ کاشان مسعود سے ملے نہ یا کم از کم پتہ نہ کرے،اور ایک دفعہ رابطہ ہو جائے تو یہی زور دیا جاتا کہ کھانا کھا کر جائیں۔اس گھر کی ایک خاص بات یہ رہی کہ جو کاشان مسعود سے ملنے آئے گا وہ کھانا ضرور کھائے گا خواہ اس نے کھانا کھایا ہوا ہے یا نہیں،کھانے کا وقت ہے یا نہیں۔ تعلق پالنا، رابطے میں رہنا ،دوسروں کی خاطر اپنا آپ قربان کرنا یہ کاشان مسعود کا ہی خاصا تھا اور رہے گا، بیماری سے بھی طویل جنگ لڑی ،اسی جنگ کو لڑتے لڑتے وہ اس عارضی دنیا سے چلے گے لیکن رہتی دنیا تک ہر وہ شخص کاشان مسعود کو یاد رکھے گا جو زندگی میں ایک بار ہی اس سے ملا ہو، کاشان مسعود کے نماز جنازہ میں شاید ہی کوئی سیاسی کارکن ایسا ہو جس نے شرکت نہ کی ہو۔ہزاروں کی تعداد میں عوام نے نماز شرکت کر کے مرحوم کے حق میں یہ گواہی دی کہ وہ واقعی اعلیٰ اوصاف کے مالک تھے۔بحثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ موت ایک حقیقت ہے لیکن کچھ لوگوں کا بے وقت چلے جانا نا قابل برداشت ہوتا ہے ان میں سے ایک کاشان مسعود تھا اور ہے، مشکل کی اس گھڑی میں اللہ تعالٰی ان کے خاندان اور دیگر احباب کو صبر کرنے کی توفیق دے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں