اور سیز پاکستانیوں کا سیاسی جنون …جسٹس (ر ) منظور گیلانی

ایک صبح شمالی امریکہ میں آباد اپنے ایک پاکستانی عزیز سے بات ہورہی تھی جس کی زبان ویسے ہی تھی جیسے پاکستانی سیاست دانوں بلخصوص عمران خان بولتے تھے جس زبان نے گھر گھر کو تقسیم ، تنازعہ ، فساد ، خانہ جنگی شروع کردی ہے – اس عزیز کے بقول عمران خان کے زمانے میں بیرون ملک پاکستانیوں کی بڑی عزت تھی اب ہمیں حقارت سے دیکھتے ہیں – فوج کی سیاست میں مداخلت کی وجہ سے پاکستان کا وقار گر گیا ہے ، ہماری کوئ عزت نہیں رہی ہے – اپنا نکتہ بیان کرتے ہوئے جوان نے کہا عمران خان کے ساتھ پاکستان کی اکثریت ہے ان کو موقعہ دیں – اس سے پہلے جن چوروں نے حکومت کی انہوں نے پاکستان کو کیا دیا ، اب وہ گھر جائیں جس کو لوگ منتخب کریں اس کو حکومت کرنے دیں – عمران خان کی زمانے میں پاکستانی زر مبادلہ جاتا تھا جس پر پاکستان کی حالت اچھی تھی – لیکن ہیمں کیا ملا ، ووٹ کا حق بھی نہیں دیا اب عمران خان کی لوگوں کو جیل میں بھر کے ان سے وفاداریاں بدلوا رہے ہیں – وغیرہ وغیرہ –
مجھے اس جوان کی اس بات سے اتفاق ہے کہ فوج کی سیاست میں مداخلت میں نہ کوئ سیاسی جواز ہے نہ آئینی نہ اس سے آج تک ملک کو سیاسی، اقتصادی استحکام ملا اور نہ ہی اس وجہ سے بیرون ملک کوئ اچھا تاثر ہے – لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ فوج دنیا کے ہر نظام کا حصہ ہے لیکن حکومت کے تابع رہ کے اس سے بالا تر ہوکے نہیں – ملکی دفاع اور سیکیورٹی ریاست کے بقا کی اکائ ہے جس کی پالیسی دنیا بھر میں فوج کی input کے بغیر نہیں بنائی جا سکتی ہے ، اس طور فوج بلواسطہ سیاست اور حکومت کا حصہ ہوتی ہے لیکن دنیا میں کہیں یہ تاثر نہیں دیتی کہ وہ حکومت اور ملکی سیاست پر حاوی ہے – پاکستان میں 32/33 سالہ مارشل لا ء کی وجہ سے یہ تاثر عام ہے ، یہ تاثر نہ صرف ختم ہونا چاھئے بلکہ ایسا ہونا بھی نہیں چاھئے – پاکستان کے سیاسی نظام میں فوج کا ایک ان لکھا اور احتساب سے بالاتر چوہدری والا کردار ہے ، جو پاکستان کے قیام کے کچھ ہی عرصہ بعد سیاسی لیڈر شپ کے بحران اور سول بیروکریسی کے گٹھ جوڑ سے وجود میں آیا اور ایوب خان کے مارشل لاء سے مشرف کے مارشل لا تک طریقہ عمل بدلتے ہوئے موجود چلا آرہا ہے – سیاست دان اور عوام اس سے مانوس اور عادی ہو چکے ہیں بلکہ اپنے سیاسی معاملات فوج کے زریعہ حل کرواتے ہیں – تواتر سے چلا آرہا رواج بھی قانون کا درجہ رکھتا ہے اس لئے اس کو “زمہ داری اور جواب دہی “ کے عمل کے لئے قانون میں داخل کر دینا چاھئے تاکہ غلط کار ی کی صورت میں جواب دہی اور سزا سے بری الزمہ نہ رہے – اس کے لئے باقی قوانین کے علاوہ آرمی ایکٹ میں بھی ترمیم کی ضرورت ہوگی تاکہ حکومتی بد معاملگی کے الزام میں ان کا ٹرائل بھی سیاست دانوں کی طرز پہ ہی ہونا چاھئے –
جمہوریت دنیا کے سب ملکوں میں یکسان نہیں ہے – دنیا پر نظر دو ڑائیں کہیں ہر سطح پہ ہے ، کہیں بنیادی سطح پر تو ہے لیکن مرکزی سطح پر نہیں – کہیں یک جماعتی جمہوریت ہے کہیں کثیر الجماعتی – کہیں صدارتی کہیں پارلیمانی – ہر ملک میں ملکی حالات اور مزاج کے مطابق جمہوری نظام استوار ہے – اس لئے یہاں بھی پاکستان کے زمینی حالات کے مطابق آئین کو استوار کرنے کی ضرورت – قانون حکومت کے پاس اور حکم فوج کے پاس ، پاکستان کے متعلق دنیا میں اچھا تا ثر نہیں جا رہا –
اس میں شک نہیں فی الوقت ملک میں جوحکومت ہے اس کا اندرون اور بیرون ملک کوئ امیج نہیں ہے – مجموعی طور پر تاثر یہی ہے کہ اسٹیبشمنٹ ہی ملک کو چلا رہی ہے ، یہ اس سے بھی زیادہ برا ثاثر ہے – مالی حالت خستہ تر ہوگئی ہے – دنیا اس کو افغانستان جیسا سمجھتی ہے – اس حالت سے نکلنے کا حل صرف انتخاب ہیں – مجھے اس پاکستانی دوست سے اتفاق ہے کہ الیکشن کرائیں لوگ جس کو بھی پسند کرتے ہیں اس کو حکومت کرنے دیں – عمران خان کو الیکشن سے باہر رکھنے کے لئے ملکی آئین اور اس کے امیج کو داؤ پہ لگانا ملک کی کوئ خدمت نہیں ہے – نو مئی والا واقعہ اپنی جگہ ایک سنگین واقعہ ہے اس میں ہر شخص کو انصاف کے کٹہرے میں لانا چاھئے خواہ وہ “ پوتر تا” کے منصب پہ فائض ہو کر “ استحکام” پذیر ہو گیا ہے یا “ حکومتی اتحاد کی جماعتوں “ میں سے کسی کا ضمیمہ بن گیا ہو- ان معافی تلافیوں اور انتقامی کاروائیوں نے ملک کو بہت نقصاں پہنچایا ہے –
مجھے اس جوان کی اس بات سے بھی اتفاق ہے کہ عمران خان سے پہلے ان ہی شریفوں، بھٹؤوں، زرداریوں ، مولویوں کی حکومت رہی ہے اور چار سال بیرون ملک آباد پاکستانی مشیروں وزیروں کے ساتھ عمرانی حکومت بھی دیکھ لی ہے – – ملک کا کوئ نام یا مقام نہیں بنا سکے – کسی سمت میں نہیں ڈھال سکے – حیرانگی کی بات ہے کہ پاکستان بننے کے ساتھ ساتھ یا اس سے بعد آزاد ہونے والے ملک اب اقتصادی ، سیاسی اور سفارتی استحکام میں دنیا کی دوسری ، تیسرے اور چو تھے نمبر پر آگئے ہیں – مثلآ اسرائیل ، ہندوستان ، چین ، جاپان ، کوریا، سنگا پور ، انڈو نیشیا حتی کہ پاکستان سے 1971 میں جان چھڑانے والا بنگلہ دیش بھی پاکستان سے بہت آگے ہے – اس کی زمہ داری سب پہ برابر عائید ہوتی ہے جس میں فوجی حکومت کے بلا واسطہ 33 سال – 1947 سے 1958 ، 1988 سے 1999 ، 2008 سے 2023 تک فوج کی بالواسطہ معاونت سے ، سیاسی حکومتیں رہیں – ان میں سے کس دور میں پاکستان بنگلہ دیش کے برابر بھی آسکا ؟ اس حمام میں سب ننگے ہیں ، جس جس نے حکومت کی یا اس سے وابسطہ رہا اس نے خاندان سمیت دولت اور امارت میں امریکہ جیسا مقام حاصل کیا -پاکستان کو کیا ملا ؟ اس میں عمرانی اور غیر عمرانی برابر کے شریک ہیں-
جہاں تک میرے دوست کی اس بات کا تعلق ہے کہ عمران خان کے دور میں بیرون ملک پاکستانیوں کی بڑی عزت تھی – ممکن ہے ہوتی – میں بیرون ملک آباد پاکستان اور پاکستانیوں کی عزت کا تقابل ہندوستان سے کروں گا ، اس کے ساتھ آزاد ہونے والے باقی ملکوں سے نہیں کیونکہ ان کے جینز بر صغیر کے لوگوں سے مختلف ہیں – ممکن ہے عمران خان کی حکومت کے دوران پاکستانیوں کی باہر بڑی عزت ہوتی ،لیکن پاکستان کی عزت بھی تھی؟ جواب نفی میں ہے ، جس کا ثبوت پاکستان کے پاسپورٹ کا دنیا میں 195 نمبر پر ہونا ہے جبکہ ہندوستان کا 144 – ان پاکستانیوں کا نئے ملک میں اپنا کیا مقام اور عزت ہے یا تھی ؟ جہاں وہ عزت اور انصاف کے ساتھ روزی روٹی کماتے ہیں اس معاشرے میں ان کا کیا مقام ہے ؟ وہاں رہ کر انہوں نے اس سسٹم ، تہذیب ، مواقعے سے کیا فائدہ اٹھایا جس سے پاکستان کی ریاست کو عزت ملی ہو ؟ یہ بات گھسی پٹی ہے کہ بیرون ملک آباد پاکستانی ہمارے سفیر ہیں – یہ صرف پاکستانیوں کی حد تک نہیں ، ہر نیشنلٹی والے کی حیثیت یہی ہے – خدا لگتی بات ہے ان کی عزت ان کی کارکردگی کی وجہ سے ہے ، ملک کی وجہ سے نہیں ، ملک کے لیڈر کی وجہ سے نہیں _ بلکہ ملک کی عزت ان سے وابسطہ ہوتی ہے –
ہندوستان کے ساتھ تقابلی جائزے میں دیکھیں تو اس وقت امریکن کانگرس میں تین ہندوستانی ممبر ہیں اور اس سے پہلے آٹھ رہ چکے ہیں جبکہ اس وقت امریکن عوام نمائندگان میں دو ہندوستانی اور امریکن نائب صدر بھی ہندوستانی ہیں – مجھے کوئ پاکستانی نام نہیں ملا – سیاست میں ضرور ہیں ، لیکن اس ملک کی سیاسی جماعتوں پر اثر انداز ہونے کی کیا حیثیت ہے ؟
اس وقت دنیا کی 35 بڑی کمپنیوں ، جن کی انفرادی آمدن ایک کھرب ڈالر ہے ، کے CEO’s ہندوستانی ہیں – مجھے کوئ پاکستانی نام نہیں ملا-
میں یورپ اور کنیڈا کا صرف اتنا زکر کروں گا کہ بر طانیہ کے وزیر اعظم اور کنیڈا کے 19 پارلیمنٹ کے ممبران جن میں تین وزیر ہیں ، ہندوستانی ہیں – آپ کے بھی ممکن ہے دو چار ہوں ، وہ آپ بہتر جانتے ہوں گے- آپ کو اپنا اور اپنے ملک کا نام اور مقام اپنے عمل سے بنانا پڑے گا ، عمران خان یا کسی دیگر خان کی وجہ سے نہیں –
ہندوستانیوں نے اپنی اور اپنے ملک کی عزت اپنے کام کی وجہ سے بنائ ، نہرو یا گاندھی کے نام کی وجہ سے نہیں ، جو بلا شبہ بہت بڑے نام تھے – آپ اپنی محنت سے ایسا کر سکتے ہیں ، عمران خان کے نام سے عزت تلاش کرنا پاکستان کی نفعی کرنا ہے –
بیرون ملک آباد پاکستانیوں کو جائز طور پہ اپنا اثاثہ کہا جاتا ہے – اس میں شک نہیں بیرون ملک آباد پاکستانی برے حالات میں ہم وطنوں کی بھر پور معاونت کرتے ہیں وہ زلزلہ ہو، سیلاب ہو ، کوئ آفت نما بیماری ہو، خیراتی ادارے چلانا اور مددکرنا ، ان مقاصد کے لئے صدقات اور چندہ جی کھول کے دیتے ہیں – بیرون ملک پاکستان کے حق میں جلسے جلوس بھی کرتے ہیں ، حسب حیثیت اثر رسوخ بھی استعمال کرتے ہیں لیکن پاکستان پھر بھی ویسا ہی ہے –
زر مبادلہ بھیجنے کا سوال مختلف ہے ، یقینآ بیرون ملک آباد پاکستانی ایک سورس ضرور ہیں جو وہ اپنے ماں باپ ، بہن بھائیوں یا دیگر ضرورت مند رشتہ داروں دوستوں کے لئے بھیجنا اپنا فرض اور زمہ داری سمجھتے ہیں جس کا بلواسطہ فائیدہ ملک کو بھی ملتا ہے – دوسرا یہ کہ اور سیز پاکستانی کماتے وہاں ہیں اور انوسٹمنٹ پاکستان میں کرتے ہیں جہاں منافع کا ریٹ یا ریٹرن سینکڑوں گنا زیادہ ہے – ہمارے اپنے جاننے والے اور عزیز و اقارب بھی ایسا ہی کرتے ہیں –
ہندوستانیوں کی بیرون ملک آباد لوگوں کی تعداد زیادہ ہے اس لئے ان کا ترسیل زر بھی زیادہ ہے لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے لوگوں کا مجموعی ٹرنڈ کیا رہا ہے – جب سے ملک فارن کرنسی کی کرائسز کا شکار ہوا ہے ڈالر ، پونڈ ، درہم ، ریال اور دیگر کرنسی کی قیمت پاکستان کے روپے کے مقابلے میں آسامان سے باتیں کرنے لگی ہے – ترسیل میں کمی آئی ہے کیونکہ لوگوں نے ھنڈی کے زریعہ بھیجنا شروع کیا جہاں ریٹ زیادہ ملتے ہیں جبکہ ملک کو فائیدہ بینک کے جائز قانونی طریقے سے ملتا ہے لیکن اس میں ریٹ کم ملتے ہیں – اس سے واضع ہے اپنے فائدے کو ہی ملک پر ترجیح دی جارہی ہے، ملک بنیادی consideration نہیں ہے – یہ بات بڑی چبھتی، لیکن حقیقت ہے – یورپ اور امریکہ، جن ملکوں میں عمران خان کے حق اور پاکستان کی بد نامی میں سب سے زیادہ شور مچایا جاتا ہے وہاں سے زر مبادلہ کی ترسیل گلف ملکوں کے مقابلہ میں سب سے کم اور گلف ملکوں میں سے سب سے زیادہ ترسیل سعودیہ سے ہوتی ہے – اس کا سر سری سا جائزہ یوں ہے؛
– [ ] سال 2021-22 میں پاکستانیوں کا ترسیل زر 7.1 بلئین ڈالر سے 8 بلئین ڈالر تک پہنچا تھا جب ملک میں ڈالر کے کرائسز نہیں تھے اور ترسیل بینک کے زریعہ ہوتی تھی جبکہ 2022-23 کے دوران جب ملک زر مبادلہ کی کرائسز کا شدید شکار شکار ہوا اوسطآ تر سیل زر 3657.95 USD ملین رہا – وجہ یقینآ واضع کہ پیسے بچانے کے لئے ترسیل ھنڈی کے زریعہ کی جاتی رہی جو اپنے مفاد کے تابع رہی، ملکی مفاد کدھر گیا ؟ پہلے سال کی طرح 7/8 بلیئن ڈالر نہ سہی 5/6 تو ہو سکتی تھی –
– [ ] اس عرصہ کے دوران ہندوستان کا ترسیل زر سال 2021-22 کے دوران 89,127 ملئین USD تھا جبکہ 2022-23 کے دوران 100 بلین USD رہا – جو بینک کے زریعہ ہی رہا اور بڑھتا ہی رہا-
– [ ] اس کا بہ الفاظ دیکر یہ مطلب ہے کہ جب پاکستان فارن ایکسچینج کرائسز میں ہے لوگوں نے یا تو ترسیل زر کی ہی نہیں ، جو ناممکن ہے یا ھنڈی کے زریعہ کی- اس کو آپ کیا نام دیں گے ؟؟ کیا یہ عمران خان کی حکومت سے بر طرفی کا انتقامُ ریاست سے لینا تھا یا دھرنے کے دوران خان صاحب کے اس فرمان کی تعمیل تھی کہ بینک زریعہ نہیں ، ھنڈی کے زریعہ پیسے بھیجیں؟ ؟
اس میں شک نہیں عمران خان وزیر اعظم بننے سے پہلے بھی ایک جانی پہچانی شخصیت تھے – وہ کرکٹ کے میدان میں لیجنڈ کی حیثیت سے دنیا بھر میں ایک سلیبٹری مانے جاتا ہیں – اچھی تقریر کرتا ہے گوروں کے ساتھ تعلق اور رشتہ داریاں بھی ہیں – وہ مغرب میں ایک مغربی انسان کی تمام صفات کا حامل سمجھا جاتا ہے ، پاکستان میں بھی اس کے ساتھ ایسی ہی امیدیں تھیں – مغرب اور وہاں آباد پاکستانی اس کے جمہوری دعوں کو سچ سمجھتے ہیں – وزیر اعظم بننے کے بعد اس کا نیچر آ شکارا ہوا – میں اس کی زاتی زندگی پر تبصرہ کرنا مناسب نہیں سمجھتا حالانکہ نظام مصطفی کے دعویدار کی زاتی زندگی ہی قابل تقلید ہوتی ہے –
– [ ] اس میں بھی شک نہین کہ پاکستان کے سارے سیاست دان فوجیوں کے گملوں میں پروان چڑھے ہیں جبکہ عمران خان پود ے کے طور ہی نہیں، بلکہ بر گدھ کے درخت کی طرح پروان چڑھا کر فوج اور عدلیہ نے اسلام آباد میں نصب کیا – اس کی جمہوریت پسندی ، قانون کی حکمرانی ، لیڈر شپ کی معراج ، اہلیت اور قابلیت اس وقت بے نقاب ہوئی جب ان ہی اداروں کی مدد سے اس شخص نے قد آور ترین لیڈروں کو بد ترین انتقام کا نشانہ بنایا اور مہینوں ہی نہیں برسوں جیل میں رکھا جس میں لانے والے ادارے بھر پور معاون رہے –
– [ ] اس کی آمرانہ حرکتوں سے ایران ، سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ، انڈو نیشیاء ، ترکی ، امریکہ سے پاکستان کے تعلقات خراب ہو ئے ، کشمیریوں سے برائے نام ہی سہی ، اندرونی خود مختاری ختم کرنے کی اسی نے ہندوستان کی حو صلہ افزائ کی – ملک میں زہر سے بھری زبان، سیاست میں دشمنی ، بد تمیزی ، بد تہذیبی ، اور بد کلامی کی روایت پڑی
– [ ] -بیرون ملک پاکستانیوں کے زریعہ پاکستان کے خلاف جلسے جلوس ، دہشت گردی کے الزام ، افواج پاکستان اور عدلیہ کے خلاف الزامات ، آرمی چیف کے پتلے جلائے گئے ، ُساری برائ کی جڑ فوج کو قرار دیا، یہ اچھے ہیں یا برے میں اس بحث میں نہیں جاؤنگا لیکن یہی پاکستان ہیں- خان صاحب کے اقتدار میں آنے سے پہلے یہ کلچر کبھی نہیں رہا- کسی سیاست دان نے ایسا نہیں کیا نہ کسی نے ملک میں اپنی زات کے لئے بحران پیدا کیا –
– [ ] اس میں شک نہیں پاکستان کے “ با د شاہ گروں ” نے ہی اس کے خلاف عدم اعتماد کر کے بر طرف کرادیا گیا – جو جس طریقے سے آتا ہے اسی طریقے سے جاتا بھی ہے – جانا غلط تھا تو لانا بھی غلط تھا !!! غصے میں اس نے نیشُل اسمبلی سے پارٹی کے نمائندوں سے استعفے دلائے، دو صوبائ اسمبلیاں توڑ وا کر ملک میں سیاسی بحران پیدا کیا ، آئ ایم ایف سے ڈیل کر کے مکر گیا ، جو اب پاکستان کو ایک ارب ڈالر کے لئے ناک رگڑا رہا ہے – عدم اعتماد کے زریعہ بر طرفی کو پہلے امریکن پلان ، پھر امریکہ سے معافی مانگ کر ، لندن پلان ، اس کے بعد باجوہ پلان ، ——-اس کی بچگانہ حرکتوں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ ہزاروں صفحے چاھئیں –
– [ ] اس کی حکومت بننے کے فورآ بعد پارٹی کی بانی کار کن الگ ہوگئے یا نکال دئے گئے – حکومت ختم ہوتے ہی بڑے بڑے سب سے پہلے فورآ بھاگ گئے —
– [ ] پاکستان کی تاریخ حکمران لیڈروں کے جیل ، کوڑوں ، پھانسیوں ملک بدری سے بھری پڑی ہے لیکن کسی بھی لیڈر پر افتاد آتے ہی سب بھاگ یا چھوڑ نہیں گئے- کبھی تھوک کے بھاؤ جماعت چھوڑنا دیکھنے میں نہیں آیا – عمران خان کی حکومت کے دوران جنرل باجوہ ، پاشا ، ظہیر ، جنرل فیض نے ایڑی چو ٹی کا زور لگایا ppp اور PMLN کا ایک ممبر نہیں توڑ سکے – عمران خان پر جان دینے والے کانچ کے بنے تھے کہ سب ٹوٹ گئے ؟ مجھے یقین ہے یہ سب اس کے طرز عمل ، طرز تخاطب ، توہین آمیز ، متکبرانئ رویہ اور اس کے فاشست ارادوں اور اقدامات سے تنگ تھے جو بھاگے – نو مئی والہ معاملہ کوئ معمولی بات نہیں تھی جو راولپنڈی ، لاھور ، فیصل آباد ، پشاور میں ایک ساتھ ، ایک جیسے طریقے سے کئے گئے – یہ کوئ دلیل نہیں کہ فوج ُنے ان کو روکا کیوں نہیں ؟ سوال یہ ہے یہ سوچ کس کی تھی ، ایسا سوچا کیوں ، کیا کیوں ؟ یہ کوئ معمولی بات ہے؟ – میرے خیال میں جب اس کے معقول اور باشعور وزیروں مشیروں پر یہ راز کھولا گیا ہوگا ، وہ ہری رام ہری رام کر اٹھے ہونگے –
– [ ] ہمارے سمندر پار بہن بھائ عمران خان کی شہرت ، اس کے بلند باغ دعوے، کرپشن کے خلاف اعلان جہاد ، ریاست مدینہ وغیرہ دل میں اتر جانے والی باتوں سے متاثر ہوکر اس کی ہر بات کو سچ اور پاکستان کے مفاد میں سمجھ کر قبول کرتے رہے – ان کو پاکستان کے زمینی حالات کا زاتی علم نہیں – وہ سچے لوگوں کے ساتھ رہ کر سچ بولنے اور سمجھنے کے عادی ہوگئے ہیں – وہ اس کے خلاف ہر بات ملک دشمنی سمجھتے ہیں –
– [ ] اس کا پس منظر وہ دوہری شہریت کی قباحت ہے – اس قباحت کی وجہ سے وہ پاکستان کی مقامی سیاست میں الجھے رہتے ہیں،- پاکستانی سیاست دان وہاں اپنی جماعتوں کی شاخیں بنا کے ان سے پیسے بھی وصول کرتے ہیں ، وہاں پاکستانی جماعتیں بناکے ملکی تنازعے ساتھ لے جاتے ہیں -جبکہ جس ملک میں رہتے ، کماتے ، عزت پاتے ، ایک مہذب ملک کی ساری سہولتیں اور سٹیٹس ہونے کے باوجود وہاں کی سیاست ، سماجی اور معاشرتی زندگی سے سوائے ایک آدھ فیصد کے ، لا تعلق رہتے ہیں – اس لئے ان ملکوں کی سیاسی ، سماجی اور کارو باری دنیا میں نہ ہونے کے برابر ہیں – دوہری شہریت کے بعد اپنے ملک میں ووٹ کا حق لینے کے بعد وہاں پولنگ سٹیشنز کا مطالبہ ہو گا، پھر وہاں پاکستان کی حکومتوں کے کیمپ آفس قائم کرنے کا مطالبہ ہوگا۔ پاکستان کی طرح جھگڑے فساد خون خرابہ برپا ہوگا ۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ ان کی شہریت ختم کر کے اثاثے ضبط کریں گے اور ان کو ملک سے نکال دیں گے – میرے پاکستانی بھائ بچے اور میرے اپنے بچے بھی اس کا ادراک کریں-
– [ ] اس کے برعکس ان جیسے ہی پس منظر کے ہندوستانی ان ملکوں کی شہریت لیکر ہندوستانی شہریت ترک کرتے ہیں ، کوئ دوہری شہریت نہیں ، اس لئے اپنے آبائ ملک کے سیاست د سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کی گروپ بندی اور آبائ وطن کی رنجشوں ، تنازعوں ، تقسیم در تقسیم کی قباحتوں سے سے آزاد ہیں – نئے ملکوں کی سہولتوں سے فائیدہ اٹھا کے بچوں کو سائنس ، ٹیکنالوجی ، بزنس ، جرنلزم ، کمپیوٹر سائنسز ، سپیس ٹیکنالجی ، ڈپلو میسی ، سیاسیات اور دیگر جدید ترین تعلیم سے منور کر کے اچھے کاروبار اسٹیبلش کر تے ، وہاں کی حکو متوں کا حصہ بناتے ، اپنا مقام بھی پیدا کرتے ہیں ، آبائ ملک کا کام اور نام بھی بناتے ہیں – یہ لوگ وہاں کے پالیسی ساز ، فیصلہ ساز اور منصوبہ بندی ، تھنک ٹینکس کا حصہ ہیں – جبکہ ہمارے لوگ عمرانی، شریفی ، زرداری ، بھٹوی جھمیلوں میں پھنس کے زندہ باد مردہ باد کی سیاست میں پھنسے ہیں – ایک دوسرے کی کردار کشی میں ملک اور ریاست کی حیثیت کا تیا پانچا کر دیتے ہیں – پانچ دس فیصد پاکستانیوں کے علاوہ جن میں کچھ نامور ڈاکٹر ، چند پرو فیسر ، کچھ کاروباری لوگ بھر پور پیسے اور نام کماتے ہیں جبکہ اکثر ٹیکسی یا ٹرک ڈرائیوری ، پٹرول پمپوں کے مالک یا ملازم ہوتے ہیں ، چھو ٹے موٹے ہو ٹل ، پیزا ہٹس یا سٹور ، گوٹی موٹی پراپرٹی کا کام کھو لتے ہیں – خون پسنہ ایک کر کے پیسہ کماتے ہیں ، گھر بھی بھجتے ہیں خوشحال زندگی گذارتے ہیں ، جبکہ گنتی کے چند ایک وہاں کی مقامی سیاست کرتے ہیں جن میں کچھ بڑے بڑے نام بھی ہیں – لیکن ان ملکوں کے فیصلہ ، پالیسی یا قانون ساز اداروں کا حصہ تو دور کی بات ہے ، وہاں تک رسائ بھی نہیں –
– [ ] میرے پاکستانی بھائیو اور بچو پاکستان سے محبت کرو عمران خان، شریف ، زرداری یا بھٹو خاندان خاندان کے جنون میں نہ پھنسو – ان کی خاطر نہ لڑو مرو، آپسی تعلقات خراب نہ کرو، ان ملکوں میں پاکستانی سیاست نہ کرو ، پاکستانی جماعتوں کے out let’s کو بند کرو – جو لیڈر جس حیثیت کا مالک ہو جس جماعت سے ہو اس کی عزت کرو لیکن ڈالر نہ دو- وہاں کی مقامی سیاست کرو، اس طرح آگے بڑھو اور چھا جاؤ جیسے ہندوستانی اور اسرائیلی چھائے ہیں ، اگر آج شروع کریں گے پندرہ سال کے اندر آپ ہندوستانیوں اور اسرائیلئیوں کی جگہ لے لیں گے – – ان بکھاری سیاست دانوں پر ایک ٹکہ بھی ضائع نہ کرو- پاکستان یہ نہیں ہیں – پاکستان آپ ہیں – آپ کے ماں ، باپ ، بہن ، بھائ اور وہ عزیز اقارب ہیں جن کی خاطر آپ پردیس کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں – اس کا آپ جتنی جلدی ادراک کریں گے اتنا آپ کے ، آپ کی نسلوں اور پاکستان کے مفاد میں ہو گا – اس سیاسی جنون میں اپنا اور اپنے ملک کو بدنام نہ کریں-

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں