دفعہ 370 پر فیصلہ۔۔۔۔۔جسٹس (ر) منظور گیلانی

بھارتی سپریم کورٹ نے ہندوستانی حکومت کے 5 اور 6 اگست 2019 کے احکامات 272 – 273 اور ریاست کے تشکیل نو کے پارلیمنٹ کے 9 اگست 2019 کے قانون کو 11 اگست 2023 کو چار سال بعد 23 پٹشنز پر تین ماہ قبل سترہ بیدار مخض کو سننے کے بعد بحال رکھا – فیصلہ کے مطابق مہاراجہ کشمیر نے 26 اکتوبر 1947 کو ریاست جموں کشمیر کے ساتھ الحاق کر کے اپنے جملہ حق حکمرانی ہندوستان کو سپرد کردیئے، ہندوستان کے آئین کو تسلیم کر لیا اور ریاست دفعہ 370 کے تحت بتدریج ہندوستان میں ضم ہوگئی، جس کے بعد دفعہ 370 اپنی افادیت کھو گیا تھا اس لیے ہندوستانی حکومت اور پارلیمنٹ کے تمام اقدامات آئینی ہیں۔
اس فیصلہ سے سوائے نفسیاتی صورت حال اور بی جے پی کے ہندوتوا فلاسفی کو عدالتی تحفظ ملنے کے کچھ نہیں بدلا۔ہندوستان نے کشمیر کے بارے میں جو کچھ کرنا تھا وہ کر دیا ہے اور یہ عمل جاری بھی ہے جس کا اس فیصلے سے کوئی لینا دینا نہیں،نہ اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ تھی۔ البتہ ہندوستان کی عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ کے اختیار ہندو پرور سوچ کے بے جا استعمال کے لئے بے خوف ہوگئی ہے۔ میں اس کو ان اداروں کے لئے“ ضمانت قبل از گرفتاری“ سمجھتا ہوں۔
مجھے ذاتی طور ہندوستانی سپریم سے اس فیصلہ کی توقع نہیں تھی کیونکہ دنیا بھر میں ہندوستانی عدلیہ بلخصوص سپریم کورٹ کا بڑا بھرم تھا۔میرے آئینی اور قانونی ادراک کے مطابق سپریم کورٹ اپنے بھرم کے مطابق دفعہ 370 کی منسوخی کو تو بحال رکھے گی کیونکہ اب اس کی افادیت ختم ہوگئی تھی۔ہندوستان نے سوائے ریاست کے اندرونی معاملات کے پورا ہندوستانی آئین ریاست میں داخل کر دیاتھا البتہ اس دفعہ کے تحت بنائی گئی دفعہ 35 A کے تحت ریاستی لوگوں کے وہ اندرونی حقوق بحال تھے جو باشندہ ریاست کے لوگوں کو ڈوگرہ زمانے کے 1927 کے قانون کے تحت حاصل تھے۔ اس کے مماثل حقوق ہندوستان کی باقی نوریاستوں کو آئین کی دفعات 371 سے لیکر 371 J تک حاصل ہیں اسی لئے ہندوستانی وفاق کو ”Asymmetric“وفاق کہا جاتا ہے جہاں تمام ریاستیں ہندوستان کے ساتھ یکساں جڑی ہیں، لیکن ان کے مقامی حالات کے تحت ان کو مختلف حقوق کی حد تحت تحفظ دیا گیا ہے۔ میرا واثق گماں تھا کہ عدالت وفاق کو ہدایت کرے گی کہ ریاست کو اس کے مخصوص سیاسی اور جغرافیائی پس منظر میں باقی نو ریاستوں کی طرز پر وہ حقوق دے۔
افسوس ہے کہ میرا ہندوستانی سپریم کے بارے میں یہ تاثر غلط ثابت ہوکے یہ قائم ہوا ہے کہ نہ صرف سپریم کورٹ بلکہ سارے ہندوستانی ادارے تمام ہندوستانی مسلمانوں، بلخصوص کشمیر اور کشمیر کے مسلمانوں کو ہندوستان دشمن سمجھتے ہیں جن وہ حقوق ملنے یا مانگنے کا کوئی حق نہیں جو ہندؤں اور ان میں سے بھی بڑی ذات کے لوگوں کو حاصل ہے۔ یہ تاثر میرا ہی نہیں بلکہ باضمیر اور آزاد ہندوستان اور انسان دوست سارے ہندوستانیوں اور ساری دنیا کا بن گیا ہے جو ہندوستانی اور دنیا کے پریس سے ظاہر ہورہا ہے۔ میں انڈین ایکسپریس اور ہندو اخبار کے علاوہ معتبر ہندوستانی وی لاگرز کو بھی دیکھتا اور سنتا ہوں۔یہ لوگ کشمیریوں یا مسلمانوں کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس امتیازی سلوک کے وجہ سے جو نقصان ہندوستان اور اس کے وفاق کو پہنچ رہا ہے یا مستقبل میں پہنچے گا، اس نظر سے دیکھتے ہیں۔
سپریم کورٹ چونکہ ملک کی سب سے بڑی عدالت ہے اس لئے اس کے فیصلے ملک بھر میں نافذ ہوتے ہیں اور مقننہ اور انتظامیہ ان سے متا ثر ہوکر اپنے اقدامات اسی طرز پر استور کرتی ہے۔کشمیر کے کیس کا فیصلہ گوکہ ہندوستانی آئین کے تناظر میں کیا گیا ہے لیکن اس میں جو اصول وضع کئے گئے جیسے ہندوستانی آئین کی ہی دفعہ 370 کی واضع شقوں، ہندوستانی آئین کی ان دیگر دفعات کو جو دفعہ 370 کے تحت کشمیر تک بڑھائی گی ہیں جن میں سے دفعہ 3 جس کے تحت نئی ریاستوں کی تشکیل، دفعہ 356 جس کے تحت ریاستوں کو کسی ایمر جنسی کی وجہ سے مرکز کے زیر انتظام لیکر ان کے متعلق تمام آئینی اور انتظامی اختیار مرکز میں آجاتے ہیں اہم ترین ہیں۔
ہندوستان میں RSS اور ویشوا ہندو پریشد کے منشور کے تحت نریندر مودی اور اس نظریات کے حامل دوسرے لوگوں کے تحت چلنے والی بی جے پی کی حکومت نے اپنے راج کو دائمی طور مستحکم کرنے کے لئے ملک بھر کی غیر بی جے پی یا بی جے پی کے اندر اٹل بہاری واجپائی جیسی سوچ کے لوگوں کی حامل یا بی جے پی میں مغز رکھنے والی ریاستی حکومتوں کا قلعہ قمع کرنے کے لئے ان کی اسمبلیوں کو ٹوڑ کر، مرکز کے زیر انتظام لیکر ان کی ہندوستان کی دفعہ 3 کے تحت کانٹ چھانٹ کر کے کشمیر کی طرح یونین ٹیریٹری میں بدل کر، اپنی مرضی کے قوانین، ایسی حلقہ بندیاں کراکے وہاں الیکشن کرائیں جن سے صرف ہندتوا کا راگ اپنانے والے نمائندے بن سکیں تاکہ حکومت کی بھاگ دوڑ“ ناگپور“ والوں کے پاس رہے“ جہاں ہندوتوا کی فلاسفی گھڑی اور ٹھونسی جاتی ہے، جس کی ابتداء Hedgewar نے مہا بھارت بنا کر ہندو راشٹریا بنانے کے لئے کی تھی۔ اب یہ سوچ پروان چڑھ گئی ہے جس میں عدلیہ کا عنصر بھی شامل ہوگیا ہے جس سے اس طرز پر قانون سازی کرنا اور اس کا نفاز آسان ہو گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلہ سے بی جے پی کو آگے بڑھنے میں آسانی ہوگئی ہے وگرنہ اس فیصلہ سے نہ تو کشمیر کے ایشوز پر کو ئی فرق پڑے گا اور نہ ہی اس کے بغیر ہندوستانی حکومت کے راستے میں“سوائے سیکولر آئین“ کے کوئی رکاوٹ تھی۔جب تک کشمیری اور ان کے پشت بان نیک نیتی سے اپنی منزل کے حصول میں مستعد ہیں کشمیر کے ایشو کا ختم ہونے اور اس کے حل نہ ہونے کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔
پاکستان اور اس عمل کے خلاف ریاستی باشندوں کو ان اقدامات پر نظر رکھنے کی اور مذاحمت کرنے کی ضرورت تیز تر کرنا پڑے گی، یہ صرف اپنے علاقوں کی گلیوں میں نہیں بلکہ دنیا کے دارلخلافوں، ان کے تھنک ٹینکس اور معتبر عالمی شخصیات کے ساتھ رابطے میں رہنا پڑے گا۔ تاہم اگر زمینی حقائق پر مبنی کوئی مفاہمتی حل نکلنے کا امکان ہو اس کا خیر مقدم بھی کرنا چائیے اور بھر پور حصہ بھی لینا چاہیے،ہندوستان کے ساتھ ان معاملات پر اپنے تحفظات پر سودا بازی کیے بغیر، کاروباری، سیاحتی اور تقسیم شدہ فیملیز کے تعلقات کی بحالی کے لئے ہر عمل کے لئے تیار رہنا چائیے۔
ہمارے سفارت کاروں، سیاست دانوں اور دانشوروں کو یہ بات ذہن نشین کرنا چائیے کہ ہندوستان کی آزادی کے ایکٹ 1947 کی دفعہ 7کے تحت 15 اگست 1947 کی تاریخ سے تاج بر طانیہ کے مقامی ریاستوں کے ساتھ تمام معاہدات ختم ہوگئے تھے جس میں معاہدہ امرتسر 1846 بھی شامل ہے۔ اس تاریخ سے اس معاہدہ کے تحت حاصل ہونے والے تمام علاقے آزاد ہوگئے تھے جن میں سے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لوگوں نے ان علاقوں پر 24 اکتوبر 1947 کو حکومت بنالی تھی اس لئے یہ علاقے مہاراجہ کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ 26 اکتوبر 1947 کے الحاق نامہ کا حصہ نہیں ہیں۔اس الحاق نامے میں ہندوستانی فوج کے زریعہ مہارا جہ ہری سنگھ کے قبضے میں
صرف وہ علاقے تھے جو اس وقت ہندوستان کے پاس ہیں، اس لئے بات ان کی آزادی کی کرنی ہے جو آزادی ہند ایکٹ 1947، آزاد کشمیر کی حکومت کے قیام 24 اکتوبر 1947 کے اعلامیہ، ہندوستان کے ساتھ مہاراجہ کے الحاق 26 اکتوبر 1947، اس کی منظوری کے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے مکتوب 27 اکتوبر 1947 اور سلامتی کونسل کی قرارد وں کی روشنی میں ہونی ہے -خدا را ہماری اسٹیبلشمنٹ ان معاملات کو نوکری، پرو موشن یا مراعات کی وجہ سے نہیں بلکہ عقیدے کے طور سمجھے اور ادراک کرے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں