انسانی حقوق کے بین الاقوامی اعلامیہ کے 75 برس مکمل…انجینئر حمزہ محبوب

10 دسمبر1948 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسانی حقوق کے متعلق عالمی اعلامیہ منظور اور جاری کیا جو کہ رنگ، نسل، مذہب، زبان، جائیداد، جنس، سیاسی اور لسانی تقسیم کی سوچ و نظریے کو رد کرتیایک ایسی مستند دستاویز ہے کہ جس کا ترجمہ دنیا کی 500 سے زائد زبانوں میں کیا گیا ہے۔ یوں اس مسودہ کی منظوری اور اہم اعلامیہ کی مناسبت سے 10 دسمبر 1950 سے ہر سال یہ دن ‘انسانی حقوق کے عالمی دن’ کے طور پر منایا جاتا ہے۔
انسان کے بنیادی حقوق کی نشاندہی تو دنیا کی سینکڑوں زبانوں میں کر دی گئی لیکن دنیا کی کل آبادی کا اٹھارہ فیصد، کل رقبے کا 2.4 فیصد اور سب سے بڑی جمہوری ریاست ہونے کا دعوے دار ملک’ بھارت ‘ ریاست جموں‌کشمیر کے باسیوں کے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی میں مصروف عمل ہے اور بدقسمتی سے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک و مقتدر اداروں کی زبانیں خاموش، آنکھیں چشم پوشیاور اقدامات محض مذمتی بیانات یا علامتی قراردادوں تک ہی محدود ہیں۔
10 دسمبر 2021 کو اسی دن کی مناسبت سے اقوام متحدہ کی جانب سے ”وقار، آزادی، اور انصاف سب کے لیے” کے عنوان سے مہم کا آغاز کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیےبھرپور کاوشیں کی جائیں گی۔ لیکن مسلہ کشمیر کے تناظر میں ”وقار” کی پامالی حریت رہنما میرواعظ عمر فاروق کو نماز جمعہ کی ادائیگی سے روک کر مذہبی آزادی پر قدغن لگا کر جاری رہی۔ ‘آزادی اظہار رائے’ کا خون بین الاقوامی شہرت کے حامل’ خرم پروز’ کی قیداور ‘میڈیا پالیسی2020’ کی صورت میں کیا گیا۔ جبکہ ‘انصاف’ کا قتل عام کالے قوانین، عدالتی قتل، جھوٹے مقدمات اور جعلی مقابلوں میں کشمیر کی شہادتوں کی صورت میں کیا گیا۔
مقبوضہ وادی ریاست جموں کشمیر میں انسانی بنیادی حقوق کی پامالی محض ایک برس کا قصہ نہیں بلکہ ان پامالیوں کا آغاز بھی انہی برسوں میں ہوا کہ جب دنیا انسان کے بنیادی حقوق کے سلسلہ میں اجلاس منعقد کر کے اعلامیہ جاری کر رہی تھی۔ ماضی کی سپر پاور برطانیہ نے 1947 میں تقسیم ہند کے اعلان کے بعد باونڈری لائن کمیشن اور لارڈ ماونٹبیٹن کی غیر منصفانہ تقسیم اورپنڈت نہرو کی ساز باز سے کیے گئے فیصلوں کی صورت میں ریاست جموں کشمیر کے باسیوں کی حقوق سلبی کی ایسی بنیاد رکھی کہ جس کے نتیجہ میں ظلم و ستم کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ تقسیم ہند کے فارمولہ کے تحت ریاست کشمیر کے باسیوں کو بھی یہ حق حاصل ہوا کہ وہ اپنی امنگ و خواہش کے مطابق پاکستان یا ہندوستان میں سے کسی ایک ملک کے ساتھ الحاق کا اعلان کریں۔لیکن بیسیوں واقعات کے بعد ریاست کے باسیوں کا یہ بنیادی حق اس وقت چھین لیا گیا جب مذہبی رجحان، فطری ربط اور عمومی رائے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس علاقہ کا الحاق مہاراجہ کی ایما پر بھارت سے کر دیا گیا۔ ریاست کی کل آبادی کا لگ بھگ77 فیصد مسلمان ہونے کی وجہ سے ،ریاست کا جغرافیائی ربط پاکستان سے ہونے کی وجہ سے مہاراجہ ہری سنگھ کا معاہدہ الحاق 1947 انسانی حقوق کی ایسی پامالی تھی جس نے جزوقتی طور پر نہ صرف ریاست کے باسیوں کی امنگوں کا قتل اور عوامی خواہشات کا خون کیا بلکہ کل وقتی طور پر بھارتی قابض فوج نے غیر قانونی قبضہ کی صورت میں وادی میں انسانی حقوق کی پامالی کی وہ تاریخ درج کی کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔
بھارت نے اپنے زیر قبضہ علاقہ میں ریاست پر اپنا کنٹرول حاصل کرنے اور کشمیری عوام کی خواہش آزادی کو دبانے کے لیے عورتوں کی عصمت دری، بزرگ شہریوں پر تشدد، نوجوان طبقے کو گرفتار، پیلٹ گنوں کا بے دریغ استعمال، آزادی کے متوالوں کا خون ناحق، اور ہزاوں افراد کو پابندسلاسل کرنے سے دریغ نہیں کیا۔
بھارتی قابض افواج کی انسانی حقوق کی پامالیوں میں قتل و غارت کی صورت میں اب تک ایک لاکھ سے زائد شہری اپنی جان سپرد خاک کر کے جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ بھارتی قابضفوج کی بربریت سے ایک لاکھ سے زائد کشمیری بچے یتیم ہو چکے ہیں۔ 2016 سے اب تک قریبا 16 ہزار مظلوم شہری پیلٹ گن کے چھروں سے شدید زخمی ہوئے ہیں۔ جبکہ لگ بھگ 1300 لڑکے قوت بینائی سے محروم ہوئے۔ کشمیر کی فاطمہ کی بینائی کا جانا بھی ماضی کا اہم واقعہ رہا ہے۔ بھارتی فوج نے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی، قتل و غارت ، اور غیر انسانی اقدامات پر ہی اکتفا نہین کیا بلکہ لگ بھگ ایک لاکھ سے زائد املاک کو بھی نقصان پہنچا کر مالی مسائل سے بھی دوچار کیا جا چکا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں