بستیوں کا ہے اب نشاں پانی…غزل شیخ راولاکوٹ

کہنے کو تو راولاکوٹ کمیونٹی فیس بک کا ایک گروپ ہے، مگر کیا یہ بھی بے شمار دوسرے گروپس کی طرح کیا صرف ایک گروپ ہے ؟نہیں یہ صرف ایک فیس بک گروپ نہیں یہ وہ قافلہ ہے جو چلتا جا رہا ہے اپنوں کے لئے ہر کچھ کر گزرنے کے لئے ہمہ وقت تیار۔ممبران کا باہمی عزت اور احترام کا رویہ، خیالات کے تنوع کی قبولیت، اپنی سماجی روایات کے عین مطابق خواتین کے لیے احترام اس کی گروپ کی پہچان ہے۔
عملی زندگی کی محدودیت کے تناظر میں سوشل میڈیا ابلاغ کے میدان میں ایک انقلاب کا نام ہے،میں تو لکھتی رہتی ہوں جب بھی موقع ملا اس گروپ کی ایکٹویٹیز کی تعریف میں،یہ صرف تعریف کے حقدار نہیں یہ گروپ بلکہ لفظ کم ہیں جو ان کی تعریف میں لکھے جائیں۔قابلِ ستائش ہے ان کا ہر قدم۔جس کی ایک تازہ مثال،جس نے مجھے چند لفظ لکھنے پہ مجبور کیا وہ ہے راولاکوٹ کمیونٹی کا شہر شہر،گلی گلی سیلاب زدگان کی امداد کے حوالے سے کمپین اور پھر بزاتِ خود سامان لے کے جانا اور بدست خود تقسیم کرنا۔
بہتر ہے کہ نہ ڈالو ستاروں پہ کمندیں
انسان کی خبر لو کہ وہ دم توڑ رہا ہے
راولاکوٹ کمیونٹی معاشرے کی تعمیر میں اپنا اہم کردار ادا کرتی آئی ہے.راولاکوٹ کمیونٹی کی طرف سے امدادی سامان جنوبی پنجاب کے اخری گاؤں روجھان تک، اس دور دراز گاؤں تک حکومت ابھی تک نہیں پہنچ پائی جہاں ہماری راولاکوٹ کی کمیونٹی پہنچی ہے۔مجھے وہ 2005 کا وقت نہیں بھولتا اس وقت کی ایک بات یہاں کرنا چاہوں گی کہ میں پاکستان کے مختلف میگزین میں لکھتی رہتی تھی اکتوبر کے اس زلزلے کے دو دن کے اندر فیصل آباد سے ادب کے لوگوں کی ایک ٹیم میرے گھر آپہنچی ان کے پاس میرا ایڈریس بھی نہیں تھا صرف ابو کے نام کا پتہ کرتے آئی۔یہ انسانیت تھی ان میں،جیسے آج راولاکوٹ کمیونٹی اور بے شمار اور تنظیمیں،لوگ خود امداد لے گئے۔
راولاکوٹ کمیونٹی نام ہے انسان دوستی کا،جہاں جاتے ہیں ایک نئی اور اپنی ایسی پہچان چھوڑ آتے ہیں جو امر ہو جاتی ہےراولاکوٹ کمیونٹی نے سیلاب زدگان کیلئے دو ٹرکوں کا سامان جمع کیا ہے، جس میں بچوں، عورتوں اور مردوں کے کپڑوں کے جوڑے، جوتے، فیملیز کیلئے کھانے پینے کی اشیاء، اس کے علاوہ سلنڈر ،گیس اور چولہے کا بندوست بھی کیا گیا ہےجو ایک اعزاز ہے کہ اتنے کم وقت میں سامان اگھٹا کیا اور جنوبی پنجاب کے آخر تک اصل حقداروں کو پہنچا بھی آئے۔کشمیر سے ایک راولاکوٹ کمیونٹی ہی نہیں بہت سی تنظیموں نے اپنا کردار ادا کیا جو قابلِ ستائش ہے.
پاکستان سیلاب ایک بہت بڑی ناگہانی آفت قرار پا چکا ہے اور موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ پاکستان ماحول کو نقصان پہنچانے والی سرگرمیوں، ماحولیاتی آلودگی کے پھیلاؤ اور درختوں کی کٹائی کے باعث موسمیاتی تبدیلی میں اگرچہ اپنا حصہ ڈالتا ہے جو بہت زیادہ تو نہیں لیکن اس کے مضر اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ ملک کے بڑے حصے پر سیلاب کی تباہ کاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ تمام انتظامی حصے بدترین سیلاب کی لپیٹ میں ہیں جس کی وجہ سے کئی علاقوں میں نظامِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ایسے حالات میں ہیںدوست ممالک اور بین الاقوامی برادری کی طرف سے امدادی سرگرمیوں میں کیا جانے والا تعاون لائقِ ستائش ہے۔اور کشمیر کی طرف سے بھی بھر پور امداد انسان دوست ہونے کا ثبوت دیا۔خد ا ہمارے ملک و ملت کی حفاظت فرمائے۔آمین
کہہ کے گزرا ہے اماں پانی پھر وہی تلخ داستاں پانی
کھیت، گھر، مسجدیں نہ آدم ذاد بستیوں کا ہے اب نشاں پانی
لے گیا ساحلِ یقین بھی ساتھ ایسے آیا تھا بے گماں پانی
پانی پانی ہے یوں تو حدِّ نظر پھر بھی پینے کو ہے کہاں پانی
موت وادی میں جو اترتی ہیں بن گیا ایسی سیڑھیاں پانی
سر پہ چھت ہے نہ پیٹ میں روٹی کچھ اگر ہے تو ہے یہاں پانی
ایک ریلے میںگم ہوئی بستی کھا گیا سب کو ناگہاں پانی
بن گیا رات کے اندھیرے میں حشر کے دن کا ترجماں پانی
اب تو یہ یاد بھی نہیں آتا کبھی ہوتا تھا مہرباں پانی
ہاتھ کو ہاتھ کی خبر نہ رہی آگیا ایسے درمیاں پانی
وہ جو گلیاں تھیں زندگی افروز اب وہاں پر ہے نوحہ خواں پانی
جانور ، لوگ ، خواب، بام ودر کر گیا سب کو بے نشاں پانی
بین کرنے کو سر چھپانے کو رہ گیا ایک ہی مکاں پانی
موت اُس کے جَلو میں رقصاں تھی جا رہا تھا جہاں جہاں پانی
جس جگہ گھاس تک نہ اگتی تھی ہم نے دیکھا وہاں وہاں پانی
نہیں رکتا کس کی خاطر یہ نہیں سنتا کوئی فغاں پانی
آنکھ میں اور اس کے باہر بھی ایک سا ہے رواں دواں پانی

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں