سردارمحمدابراہیم خان، ایک شخصیت ایک نظریہ۔۔سردارمحمدصغیرخان

جنگ آزادی 1947کے ہیروبانی آزادکشمیرکشمیریوں کے نجات دہندہ غازی ملت سردارمحمدابراہیم خان نے 22 اپریل1915ء کوراولاکوٹ شہرسے متصل کوٹ متے خان میں سردارمحمدعالم خان کے ہاں آنکھ کھولی۔ابتدائی تعلیم تب پرائمری سکول موجودہ ہائی سکول ہورنہ میرہ سے حاصل کی۔پانچویں جماعت کاامتحان شہرپونچھ سے امتیازی نمبروں کے ساتھ پاس کرکے وظیفہ حاصل کیا۔1933ء میں اسی سکول سے میٹرک کاامتحان بھی امتیازی نمبروں کے ساتھ پاس کیا۔گریجویشن اسلامیہ کالج لاہور1937ء میں کی،پھراعلیٰ تعلیم کیلئے لندن چلے گے اور1941ء میں Lincoln’s innلندن سے باریٹ لاء کیا۔تعلیم مکمل کرکے جب واپس آئے توآپ کوایڈووکیٹ جنرل کاعہدہ تفویض کیاگیا۔مگرتھوڑے عرصے کے بعدآپ نے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا۔بابائے پونچھ کرنل خان محمدخان نے آپ کے اندرآزادی کے خوابوں کی انگڑائی کوبھانپ لیاتھا۔پھرانہی کی خواہش پران کی جگہ اسٹیٹ اسمبلی کاالیکشن لڑااوربھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔مگرتحریک آزادی کومنظم کرنے کے لئے جلدہی اسمبلی ممبرشپ سے بھی مستعفی ہوگے اس وقت تک کشمیریوں پرڈوگرہ راج کے ظلم وبربریت کوایک صدی سے زیادہ عرصہ گزرچکاتھااورامیدکی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی تھی مسلمانوں پرطرح طرح کے مظالم ڈھائے جارہے تھے۔وہ کسی نجات دہندہ کے منتظرتھے۔اللہ کے آخری پیغمبرحضرت محمدﷺکافرمان ہے کہ مظلوم کاساتھ دواوراس کی حمایت کروظالم کواس کے ظلم سے روکو،ایک خوبصورت ترانے کاایک شعرہے کہ:
ظلم رہے اورامن بھی ہوکیاممکن ہے تم ہی کہوکشمیریوں پرظلم وبربریت کی کہانی بہت طویل بھی ہے اوراذیت ناک بھی ہے مگرہردورمیں کشمیریوں نے اپنی جانوں کانذرانہ دے کرظلم وستم کے خلاف سیسہ پلائی دیواربن کرہرظلم کامقابلہ کیاہے مگرہندوکی غلامی کوکبھی قبول نہیں کیا۔حتیٰ کہ 1832ء میں منگ پونچھ کے مقام پرمقامی سرداروں کی درخت کے ساتھ باندھ کرزندہ کھالیں کھنچوائی گئیں۔اس سفاکانہ اورظالمانہ طریقہ سے جن لوگوں کوشہیدکیاگیاتاریخ کی کتابوں میں ان کی تعدادبمعہ اسمائے گرامی 29بتائی جاتی ہے۔تاریخ کی ورق گردانی سے پتاچلتاہے کہ جب سردارملی خان کی کھال کھینچی جارہی تھی اس وقت گلاب سنگھ اوراس کابیٹااودھم سنگھ موقع پرموجودتھے جنہوں نے جلادوں کوحکم دیاکہ ملی خان کے جسم سے کھال اتارتے ہوئے نمک کااستعمال بھی کیاجائے،ذراتصورکیجئے کتنااذیت ناک منظرہوگا۔کتناتکلیف دہ عمل ہوگا۔تصورکرنے سے ہی کلیجہ منہ کوآتاہے۔آج جب ہم آزادی کاسانس لے رہے ہیں تواس کے لئے کتنی قربانیاں دی گئی ہیں۔اس کی کتنی بھاری قیمت اداکی گئی ہے سوہم پرلازم ہے کہ اپنی اس آزادی کی حفاظت بھی کریں اوراپناوقاربھی بحال رکھیں۔جموں کے مقام پرمسلمانوں کودھوکہ دہی سے گولیوں کے ساتھ آن واحدمیں بون دیاگیاڈوگرہ تسلط میں روا رکھے گے مظالم کوایک کالم میں وائنڈاپ کرناممکن نہیں ہے۔اس کے لئے دفترچاہیں۔چونکہ مظالم کی ایک طویل داستان ہے جومسلمانوں پرروارکھے جارہے تھے ایسے میں پونچھ سے نوجوان بیرسٹرسردارمحمدابراہیم خان نے اس ظلم وبربریت کے خلاف علم بغاوت بلندکیااورمظالم سے اپنی قوم کوآزادی دلانے کاعزم کیااوردیکھتے ہی دیکھتے تحریک آزادی کشمیرکوبام عروج مل گیا۔سردارمحمدابراہیم خان کیپٹن حسین خان اوران کے انتہائی باوقاراورعظیم ساتھیوں کی محنت اورقربانیوں کے نتیجے میں آزادکشمیرآزادہوا۔1948ء میں ڈیفنس کونسل نے بیرسٹرسردارمحمدابراہیم خان کوتحریک آزادی کشمیرپرکلیدی رول اداکرنے اوراعلیٰ خدمات کے اعتراف میں غازی ملت کاخطاب دیاگیا یوں دنیاان کوغازی ملت سردارمحمدابراہیم خان کے نام سے جانتی ہے۔1947ء میں غازی ملت سردارمحمدابراہیم خان اگرقائدانہ رول ادانہیں کرتے توآج آزادکشمیرآزادنہ ہوتا۔سابق صدرآزادکشمیرجناب کے ایچ خورشیدمرحوم اپنی زندگی کے آخری انٹرویومیں فرماتے ہیں کہ”تحریک آزادی کشمیرمیں کلیدی رول سردارمحمدابراہیم نے اداکیاتھا“۔6ستمبر1987کوباغ میں سیدخادم حسین شہیدکی برسی کے موقع پرآزادکشمیرکے سابق صدرووزیراعظم جناب سردارعبدالقیوم خان مرحوم نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا”جنگ آزادی کشمیرکی قیادت سردارمحمدابراہیم خان نہ کرتے توہمیں آج یہ دن دیکھنانصیب نہ ہوتا“۔غازی ملت پرمختلف مصنفین نے بہت کچھ لکھاہے شجاع نوازاپنی کتابCrossed Swordsمیں لکھتے ہیں کہ
Leader of this rebellion was young lawyer and member of the State Assembly
who fled across the border to Pakistan and attrected arrund him a core group of supporters.
غازی ملت سردارمحمدابراہیم خان اپنی ذات کیلئے جوکچھ بھی چاہتے وہ ان کوڈوگرہ رجیم میں مل سکتاتھا۔صرف اگرتحریک آزادی سے اپنے آپ کوالگ رکھتے۔چونکہ وہ اس دورمیں بارایٹ لاء تھے جب چندجماعتیں تعلیم حاصل کرنابڑی بات تھی اتنی اعلیٰ تعلیم یافتہ شخصیت کووہ سب کچھ مل سکتاتھاجس کی وہ خواہش کرتے۔مگرانہوں نے ذاتی مفادلالچ اورطمع کوٹھوکرمارکرآزادی کے حصول کابیڑااٹھایا۔تاریخ کشمیرتذکرۃالالعلوم جنگ آزادی جموں کشمیر1947-48ء ازسردارغلام محمدخان اپنی کتاب صفحہ43پررقمطرازہیں کہ”بیسویں صدی کے وسط میں دیکھاگیاہے کہ اگرشہیدحسین خان اورسردارمحمدابراہیم خان چاہتے تومہاراجہ ہری سنگھ انہیں منہ مانگی خواہشات پوری کرسکتاتھا،مگرانہوں نے وہ کچھ کیاجوباقی سب کیلئے بھی بہترتھا“۔19جولائی1947ء کوقراردادالحاق پاکستان منظورکرواناغازی ملت کاایک اورعظیم کارنامہ تھا۔واقعہ یہ ہے کہ قراردادالحاق پاکستان کی غرض سے اجلاس منعقدکیاجاناتھا۔اجلاس کے ذریعے تھے جگہ نہیں مل پارہی تھی ایسے میں یہ غازی ملت ہی تھے جنہوں نے دیدہ دلیری سے اپنی رہائش گاہ آبی گزرسری نگرکوپیش کردیاتھا۔ 19 جولائی1947قرارادادالحاق پاکستان ان کی ہی محنت،کاوش ان ہی کے گھرآبی گزرسری نگران ہی کی زیرقیادت منظورکی گئی۔قراردادالحاق پاکستان کے بارے میں دوباتیں بہت اہم ہیں ایک یہ کہ قراردادالحاق پاکستان غازی ملت کی ذاتی کوشش محنت سیاسی بصیرت اوردوراندیشی کانتیجہ تھی بلاشبہ اس میں سردارمحمدلطیف خان آف کھڑک کابہت اچھارول تھا۔دوسرایہ کہ 19جولائی1947ء کوقراردادالحاق پاکستان اس وقت Adoptکی گئی جب پاکستان ابھی معرض وجودمیں نہیں آیاتھاواضح رہے کہ قراردادالحاق پاکستان کی منظوری کی پاداش میں ڈوگرہ رجیم نے سردارمحمدابراہیم خان کوفوری گرفتارکرنے کے وارنٹ جاری کردیئے تھے۔غازی ملت جانتے تھے کہ مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف علم بغاوت بلندکرنے تحریک آزادی کولیڈکرنے قرارادادالحاق پاکستان منظورکروانے اور24اکتوبر1947ء کوپوری ریاست جموں کشمیرکی نمائندہ اورانقلابی حکومت قائم کرکے اقدامات میں اگرکہیں کوئی ناکامی ہوجائے تومہاراجہ کی طرف سے ان کیلئے سیدھے سیدھے پھانسی کی سزاہوسکتی تھی،مگرانہوں نے اس بات کی پرواہ کیے بغیرہ جدوجہدکوجاری رکھاجس پرساری قوم کوغازی ملت سردارمحمدابراہیم خان پران کے عظیم رفقاء اورساتھیوں پروہ شہیدہوئے یاغازی ان کے عظیم کے کارناموں پرفخرونازہے۔جس کے نتیجے میں یہ خطہ آزادی کی نعمت سے سرفرازہوا۔بلکہ آج مقبوضہ کشمیرمیں جوتحریک آزادی کشمیرجاری وساری یہ بھی اس تحریک آزادی ہی کاتسلسل ہے جس کی بنیادسردارمحمدابراہیم خا ن نے 1947ء میں رکھی تھی مگرافسوس کہ اس وقت شیخ عبداللہ نے کانگریس کی حمایت کی اورکشمیریوں سے بے وفائی کی۔یوں تحریک آزادی کوبہت نقصان پہنچا۔یہ بھی حقیقت ہے کہ اقوام متحدہ میں شیخ عبداللہ ہندوستان کے نمائندے کے طورپرگے جبکہ غازی ملت سردارمحمدابراہیم کشمیریوں کے نمائندے کے طورپرگے اوراپنی قوم کی بھرپورنمائندگی کی۔یہ تھاوہ کردارجوغازی ملت اداکررہے تھے ڈوگرہ فوج کوشکست فاش دینے کے بعدغازی ملت سردارمحمدابراہیم نے بے سروسامانی کے عالم میں 24اکتوبر1947کوپوری ریاست جموں کشمیرکی نمائندہ اورانقلابی حکومت جنجال ہل تراڑکھل میں قائم کی،یوں غازی ملت آزادکشمیرکے بانی صدربھی قرارپائے اورجنجال ہل پہلادارالحکومت۔حکومت کے قیام کے بعدغازی ملت نے سخت مالیاتی ڈسپلن قائم کیا۔امانت دیانت کے اصول پرقائم اورصاف شفاف کردارکے مالک تھے۔کرپشن نام کاکوئی لفظ غازی ملت کی پوری لائف ڈکشنری میں نہیں تھا۔غازی ملت سردارمحمدابراہیم خان چاربارمنصب صدارت پرفائزرہے۔ایوان صدرکوکبھی اپنے خاندان کیلئے آسائش کاذریعہ نہیں بنایاخودان کاخاندان بھی ہمیشہ ایوان صدرسے دوررہا۔وقت کی پابندی کرناوعدہ ایفاکرناان کاخاصاتھا۔آج غازی ملت کے نظریات افکارچاہے ان کی ظالم اورظلم کے خلاف جدوجہدہوامانت دیانت اورایفاء عہدہودوسروں کااحترام ہووقت کی پابندی ہو،انصاف پسندی ہومالیاتی امورخواہ وہ حکومتی ہویانجی ہوشفافیت،قانون کااحترام ہوقوم کیلئے ایثاروقربانی ہو،صاف شفاف کردارہوپرعمل پیراہونے سے آج بھی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔آج بھی مقبوضہ کشمیرکی آزادی ممکن ہوسکتی ہے یہی وہ اوصاف ہیں جوغازی ملت میں بدرجہ اتم موجودتھے اورکشمیری قوم ان کواپنارہبراورنجات دہندہ مانتی ہے۔دعاہے رب تعالیٰ غازی ملت سردارمحمدابراہیم خان مرحوم کوان کے والدین کوان کی اہلیہ محترمہ کو(جوبہت ہی عظیم خاتون تھیں)قائدمحترم حق وسچ کی آوازسردارخالدابراہیم خان مرحوم کو1832ء،1947ء کے شہداء کوکروٹ کروٹ غریق رحمت کرے اوران کوجنت الفردوس میں اعلیٰ وارفع مقام عطاکرے (آمین)
زمانہ بہت شوق سے سن رہاتھاہمیں
31جولائی ہم بھی سوگے کلمہ ء توحیدکہتے کہتے

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں